اقراء پبلک اسکول مدن پور اورنگ آباد میں ” ہندوستانی مشترکہ تہذیب اور اُردو ادب “ پر ریاستی سطح کے سیمینار کا انعقاد
اورنگ آباد : ( محمدرفیع ساگر /قومی ترجمان بیورو) قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان اور اقراء ایجوکیشنل اینڈ ویلفیرفاؤنڈیشن اورنگ آباد کے بینر تلے ہندوستانی مشترکہ تہذیب اور اُردو ادب پر ریاستی سطحی سیمینار کا انعقاداقراء پبلک اسکول مدن میں کیا گیا۔ جس کی صدارت شعیب احمدانصاری، سابق مکھیا، گُروا (گیا) نے کیا جبکہ نظامت شہباز ندوی، شفاء سینٹر ضلع۔ارول نے کی۔ تقریب کے افتتاحی کلمات طارق ریاضی نے انجام دیا۔ سیمینارکو خطاب کرتے ہوئے امانُ ا للہ عارض نے کہا کہ ہندوستانی مشترکہ تہذیب پر ہندوستان کی وراثت ہے۔
اور اُردو زبان ایک تہذیب کی زبان ہے۔ اور اِس زبان کے ذریعے ہی ہندو اور مسلمانوں کو جوڑا جا سکتا ہے۔ اور اُن کے رشتوں میں استواری پیدا کی جا سکتی ہے۔ نہالُ الدین صغیر نے مقالہ پیش کیا اور اپنے مقالے میں مذکورہ عنوان پر سیر حاصل گفتگو کی اور کہا کہ یہ زبان نہ صرف بہت خوب صورت زبان ہے بلکہ ہماری مشترکہ تہذیب و تمدّن کی امین ہے۔ اِس لئے اِس زبان کو فروغ دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں
- سکشمتا – 2 کا رزلٹ ڈاؤن لوڈ کریں
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا 2.0 میں پوچھے گئے سوالات
ابو سندس عبد الباسط محمدی دربھنگوی نے مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اُردو لسانی ساخت و اساس کے اعتبار سے ہند آریائی زبان ہے۔ اور اُردو زبان نے دو عظیم تہذیبوں کے درمیان ربط و ارتباط نے اُسے ایسی امتیازی حیثیت عطا کی ہے جو برِصغیر کی زبانوں میں کسی دوسری زبان حاصل نہیں۔ یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ اُردو زبان تاج محل کی طرح ہے جو تہذیبی و علمی اور اپنی الگ شناخت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر ممتاز عالم نے سیمینار میں اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندی کے بغیر اُردو اور اُردو کے بغیر ہندی ادھوری ہے۔ اور اچھی ہندی بولنے اور جاننے کے لئے اُردو کو جاننا اور اُس کے ادب کو سمجھنا ضروری ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہندی اور اُردو میں ماں اور خالہ کا رشتہ ہے۔ جناب اکرام قاسمی (گیا) نے بھی مذکورہ سمینار میں اپنے خیالات پیش کئے اور طویل تر مقالہ پڑھا جس میں انھوں نے کہا کہ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان اُردو کے فروغ کے لئے بہت فعال ادارہ ہے اور اسی کے اشتراک سے یہ سمینار کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اُردوداں طبقہ ہی اُردو کے ساتھ سوتیلا رویہ اپنا رہا ہے اِس کی اپنی زبان اُردو رہتے ہوئے
بھی انگریزی اور دوسری زبان کو ترجیح دے رہا ہے۔ جوکہ افسوس کی بات ہے۔
محترمہ تسکین صائمہ نے بھی اپنا مختصر مقالا مگرجامع پیش کیا اور کہا کہ میں این سی پی ایل اور اقراء ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کا شکریہ ادا کرتی ہوں اور ایسی تقریب گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ منعقدکرنے پر اردوداں طبقہ کو محنت کرنے پر زور دیتی ہوں۔ سلیم خان قادری نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُردو زبان کو اپنے گھر سے جوڑئیے اور اپنی تہذیب و تمدّن کو پروان چڑھائیے۔ اُردو زبان ایک مشترکہ زبان ہے اِس سے ملک کے دوسرے لوگوں کو بھی جوڑیئے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے رشتوں میں پختگی پیدا کیجئے کیوں کہ مشترکہ تہذیب کو فروغ دینے میں اُردو ادب کا بہت زیادہ کردار ہے۔ مسرت جہاں اور فیض توفیق نے بھی مختصر خطاب کئے۔
یہ بھی پڑھیں
گھر بیٹھے آدھار کارڈ میں اپنا موبائل نمبر یا نام، پتہ تبدیل کریں، جانیں یہ آسان طریقہ
आरबीआई ने पेटीएम पेमेंट्स बैंक को नए खाते खोलने से रोककर झटका दिया।
اِس موقع پر شیرگھاٹی گیا گلیکسی اکاڈمی کے ڈائریکٹر نسیم نے بھی اپنے خیالات کو پیش کیا۔ مشہور شاعر اقبال اختر دِل نے بھی اپنا کلام پیش کیا مذکورہ دونوں اشخاص نے اِس طرح کے پروگرام کے انعقاد کے لئے قومی کونسل کا شکریہ ادا کیا۔ اور یہ کہا کہ موجودہ دور میں دو عظیم قوموں کے رشتوں میں جو تھوڑی بہت تلخی پیدا ہو گئی اُسے اُردو زبان کے ذریعے ہی دور کی جاسکتی ہے۔ پٹنہ سے عبد الباقی انصاری ریاستی صدر اُردو ٹی اِی ٹی نے بھی خطاب کیا اور اُنھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم اُردو اُساتذہ نے حکومت بہار سے لڑکر اپنے حقوق حاصل کئے مگر افسوس کہ اُردو اُساتذہ کو اُردو کے فروغ میں جو اہم کردار ادا کرناچاہئے تھاوہ اُس طرح کے کردار ادا کرنےسے قاصر ہیں۔
اِس کے علاوہ اُس پروگرام میں عمران وارڈ ممبر، نکہت پروین پنجاب سمیتی، ماسٹر شعیب،شبنم سلطانہ سابق پنچایت سمیتی،طیب علی، مختار سرپنچ ، بلال عادل، ماسٹر بلال، فردوس عالم ایس اے میموریل، ونود سنگھ، اشفاق عالم، محمد اسلام، قاسم، مسّرت جہاں سمیت دیگر اسکالر اور سماجی کارکن اور سیکڑوں سامعین کے ساتھ ساتھ اقراء پبلک اسکول کے طلباء و طالبات بھی موجود تھے۔
قومی ترجمان کا ٹیلیگرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں!