کسانوں کی جیت
کسانوں کی جیت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
تقریبا سال بھر کے احتجاج ، دھرنے ، مظاہرے اور سات سو کسانوں کی جان کی قربانی کے بعد آخر مودی حکومت نے یہ تسلیم کر لیا کہ اسے یہ قانون واپس لینا چاہیے، اس لمبی مدت میں کسانوں پر جو ظلم ڈھائے گیے، لکھیم پور کھیری میں جس طرح کسانوں پر مرکزی وزیر اجیت مشرا کے بیٹے نے گاڑی دوڑادی اس کی ایک الگ کہانی ہے، کسانوں کے اس پر امن احتجاج کو بدنام کرنے کے لیے لال قلعہ کی فصیلوں تک کا سہارا لیا گیا اور بی جے پی کے کارندوں نے اس کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، اس واقعہ کو ہوا دے کر تحریک کو کمزور کرنے اور بدنام کرنے کا کام لیا گیا ، قریب تھا کہ یہ احتجاج اپنی موت مرجاتا، لیکن راکیش ٹکیت کو قیادت کا فن آتا ہے، اس طرح کسانوں کے سامنے گلو گیر ہوئے اور آنسوؤں کے قطرے گرائے کہ تحریک میں پھر سے نئی جان پڑ گئی، کسانوں نے مڑ کر نہیں دیکھا او اپنی بات منوا کر دم لیا۔
کسانوں کی اس تحریک کو دبانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا، ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں، پانی کی تیز دھار چھوڑی گئی، عارضی مسکن کو اکھاڑ پھینکا گیا، سخت ٹھنڈ میں کسان کھلے آسمان کے نیچے پڑے رہے، اتنے پر ہی بس نہیں کیا گیا، ان پر طنز کیے گیے ، نفسیاتی طور پر کمزور کرنے کے لیے وزیر اعظم سے بھاجپا کے چھوٹے کارندوں نے بھی پتہ نہیں کیا کیا جملے کسے، انہیں غدار اور خالصتانی کہا گیا ، وزیر زراعت تومڑ سنگھ کا فرمان تھا کہ بھیڑ اکٹھا ہونے سے قانون واپس نہیں ہوتے، مرکزی وزیر وی کے سنگھ یہ پرچار کرتے پھر رہے تھے کہ تصویر میں کئی لوگ کسان نہیں لگتے، مرکزی وزیر راؤ صاحب تانوے کو کچھ زیادہ غصہ آگیا ، انہوں نے کہا کہ اس تحریک کے پیچھے پاکستان اور چین کا ہاتھ ہے، منوج تیواری اسے ٹکڑے ٹکٹرے گینگ قرار دے رہے تھے، پیوش گوئل کی سوچ تھی کہ کسان تحریک ماؤوادی فکر کے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے، بھانت بھانت کے لوگ، بھانت بھانت کی آوازیں، کسان ان پھینکے ہوئے جملے سے پست حوصلہ نہیں ہوئے، او راپنی تحریک ہر حال میں جاری رکھی، نوبت یہاں تک پہونچی کہ وزیر اعظم مودی کو کسانوں سے معافی مانگنی پڑی اور یہ کہنا پڑا کہ ہم کسانوں کو اس قانون کے فائدے سمجھانے میں ناکام رہے، انہیں امید تھی کہ کسان اس واضح اعلان کے بعد گھر کو چلے جائیں گے ، لیکن راکیش ٹکیت کچی گولی نہیں کھیلے ہوئے ہیں، انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے، جب تک پارلیامنٹ میں اس قانون کو واپس نہیں لیا جاتا، ٹکیت نے کہا کہ تینوں زرعی قوانین کی واپسی ایک وجہ تھی ہمارے احتجاج کی ، حکومت کے اس فیصلے کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں، ہمارے مطالبات اس کے علاوہ بھی ہیںجو حکومت کو معلوم ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ ایم اس پی گارنٹی قانون بنایا جائے، کسانوں پر کیے گیے مقدمات واپس لیے جائیں، تحریک کے دوران جان گنوانے والے کسانوں کے اہل خانہ کو نوکری کے ساتھ مناسب معاوضہ دیا جائے، ان مطالبات کو تسلیم کرائے بغیر ہمارے گھر واپسی کا سوال ہی پید انہیں ہوتا۔
اس کا مطلب ہے کہ یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ، یہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی، جب تک حکومت کسانوں کے سامنے مکمل طور پر سجدہ ریز نہیں ہوجاتی ، وزیر اعظم کے لیے یہ آسان کام نہیں ہے، لیکن کئی ریاستوں کے اگلے انتخاب جس میں اتر پردیش سر فہرست ہے اور حالیہ ضمنی انتخاب میں شکست نے مودی حکومت کے رویے میں لچک پیدا کی ہے، جو لوگ کل تک وزیر اعظم کی اکڑ کے قائل تھے آج انہیں پست ہوتا ہوا بھی دیکھ رہے ہیں، کسانون کی تحریک، اس کے مضمرات اور نتائج دوسری تحریکوں پر بھی اثر انداز ہوں گے اور مسلمانوں کے لیے بھی اس میں بڑا پیغام ہے۔