کرپٹو کرنسی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
معاشیات کا اصول ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، بینکوں کے سخت ہوتے نظام اور مالیات کی رازداری کے محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے ۲۰۰۸ء میں ایک نئی کرنسی وجود میں آئی، اسے عالمی کساد بازاری کے زمانہ میں ڈیولپرستوشی ناکاموٹو اور ان کے دوستوں نے کیا تھا تاکہ صارفین بینکوں کی غیر ضروری پابندی سے بچ سکیں، لطف کی بات یہ ہے کہ اس کرنسی کوآپ روپے ، ڈالر، پونڈ، درہم، دینار اور یورو کی طرح جیب میں نہیں رکھ سکتے، لیکن اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ۱۷؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو ۱ء ۲ کھرب ڈالر کی کرپٹو کرنسی عالمی بازار میں موجود تھی، یہ کرنسی کسی ایک نام سے نہیں جانی پہچانی جاتی ہے، بلکہ اس کے کئی نام ہیں، یہ کرنسی جو بٹ کوائن ، اتھیریم ، بنانس کوائن ، ٹیتھر، سولانہ، کار ڈانو، ایولانش کے نام سے مختلف ملکوں میں اپنی شناخت رکھتی ہے، صرف کمپیوٹر میں موجود ہوتی ہے ،لوگوں کی توجہ اس کرنسی کی طرف اس لیے بڑھ رہی ہے کہ بینک کے بغیر، سہولت کے ساتھ کاروبار کو فروغ دینے میں یہ معاون ہے۔
اس کرنسی کی خامیاں بھی کم نہیں ہیں، اس حوالہ سے اندیشے اور خدشات بھی بہت ہیں، اسی وجہ سے ہندوستانی حکومت نے شروع میں اس کی مخالفت کی تھی ، رزرو بینک آف انڈیا نے بھی اس کے خلاف بات کہی تھی ، لیکن اب حکومت اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اسے قبول کرنے کے لیے ذہناً تیار ہوگئی ہے اور دیر سویر پارلیامنٹ میں بل کے ذریعہ اسے منظور کرسکتی، ایسا اس لیے ضروری ہے کہ اگر بھارت سرکار نے منظوری نہیں دی تو اس کے دولت مند رفیق اور حلیف اس سے خفا جائیں گے، نقصانات چاہے جوہو ، مرکزی حکومت کا نظریہ یہ ہے کہ مالداروں کو نا خوش کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔