پیغمبر اسلام کی شان میں آخر بار بار گستاخیاں کیوں کی جاتی ہیں؟
✍️ محمداطہرالقاسمی
نائب صدر جمعیت علماء بہار
بیالیس سالہ زندگی میں پہلی بار اپنے ملک بھارت کی ریاست تریپورہ میں شرپند غنڈوں کے ذریعے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گالیاں دیتے ہوئے ویڈیو دیکھی تو کلیجے کا دھڑکن تیز ہوگیا۔پاؤں تلے سے زمین کھسکنے لگی،آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ویڈیو دیکھتا،رک جاتا پھر دیکھتا اور دانتوں تلے انگلی دبالیتا۔
ہفتہ عشرہ ہوگئے ہیں مگر دماغ کی نسیں لگتی ہیں کہ رہ رہ کر پھڑک اٹھتیں اور تنہائی میں پوچھتی ہیں کہ کیا واقعی دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت میں ایسے بھی دن آسکتے ہیں کہ جنونیوں کا ہجوم کھلے عام سڑکوں پر اس طرح ریلی نکال کر نعرے بازی کے ساتھ پیغمبر اسلام رحمۃ للعلمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھدی بھدی گالیاں دے سکتا ہے؟؟؟
کبھی کبھی تو دل کہتاہے کہ نہیں میری آنکھوں نے غلط دیکھا ہے۔مگر نہیں۔آنکھوں کی غلطی نہیں ہے۔البتہ آنکھوں کی بینائی میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ایسی بدتمیز گالیوں والی ویڈیو دیکھ کر برداشت کرسکے۔۔۔
یا اللہ غنڈوں کا یہ ہجوم کیا کہتاہے کہ محمد!تیرے۔۔۔۔
گستاخان حرمت رسول!
ذرا بتاؤ تو سہی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرا بگاڑا کیا ہے؟تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھا کب ہے؟ان کی زندگی کو،زندگی کے شب و روز کو اور روز وشب کے ایک ایک لمحے کو تم پہلے تنہائی میں پڑھ تو لیتے!
رب کعبہ کی قسم تعصب کی عینک اتار کر اور عدوان و طغیان کی پٹیاں آنکھوں سے ہٹا کر ایک بار پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار کا مطالعہ کرلوگے تو انسانیت کے سب سے بڑے مسیحا اور کائنات کی سب سے معزز و محترم اس ہستی کے قدموں میں گرجاؤگے۔
ساڑھے چودہ سو سال سے تم جیسے نہ جانے کتنے بدبختوں نے اس نبی امی کی سیرت کا مطالعہ کیا تو وہ بے ساختہ اعلان کر بیٹھا:
آئے دنیا میں بہت پاک و مکرم بن کر
کوئی آیا نہ مگر رحمت عالم بن کر
تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جب معاشرہ برائیوں کی آماجگاہ بن گیا تھا،زندگیاں جمود و تعطل کا شکار تھیں،قومیں ظلم وتشدد کی چکی میں پس چکی تھیں،لوگ عدل وانصاف کو ترس گئے تھے،صداقت و امانت عنقاء بن گیا تھا،عفو و درگذر کا شعبہ معاشرے سے رخصت ہوچکا تھا، انسانیت سکون کے لئے تڑپ رہی تھی،ہر طرف بدامنی انارکی اور قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا؛ایسے سلگتے ماحول میں انسانیت ایک سچے مسیحا کی تلاش میں سرگرداں تھی کہ وہ اس شان سے دنیا میں تشریف لائے:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطاکار سے درگزر کرنے والا
بداندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا
یہ آخری نبی تھے جو ان اوصاف کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے تھے مگر تم سے زیادہ سخت دل اور بغض و عداوت والے وہ لوگ تھے جو ان کے زمانے میں موجود تھے۔وہ رات دن مشورہ کرتے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتے۔ان بدبختوں کی ٹولیوں نے کیا کیا نہ کیا؟کیسی کیسی تدبیریں نہ اپنائیں؟کیا کیا سازشیں نہ رچیں؟اورکون کون سی رکاوٹیں تھیں جو انہوں نے ان کی راہوں میں کھڑی نہ کیں؟
مگر کیا ہوا؟
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ یہ گالیاں بکنے والے دشمنان مصطفیٰ معلم انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خوبصورت کردار و عمل سے ان کے گرویدہ ہو گئے۔دشمنوں نے ان سے دوستی کرلی اور ان کی راہوں میں کانٹے بچھانے والے محبّتوں کے پھول برسانے لگے۔دنیا کی قومیں آج تک سوچتی تھیں کہ جنگیں صرف تیر و تلوار سے جیتی جاسکتی ہیں لیکن انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دنیا میں ایک نبی ایسا بھی آیا ہے جن کا کردار و عمل اور اخلاق و اعمال تیر و تلوار پر بھاری ہے۔انہوں نے ثابت کیا کہ تیر و تلوار سے صرف زمینیں حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن کردار و اخلاق سے دل جیت لئے جاتے ہیں۔چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ تیر و تلوار والوں نے اخلاق و کردار والے نبی کو اپنے دل اس طرح دے دیئے کہ وہ اور ان کی اولادیں ہمیشہ کے لئے ان کے دامن محبت میں گرفتار ہوگئے اور پھر ان پر مذہب اسلام کا ایسا خوبصورت رنگ چڑھا کہ وہ دنیا کی سب سے اچھی انسانی جماعت بن کر ابھری اور دنیا کی بےمثال قیادت کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار و مشرکین تو کیا حیوانات تک کے لئے باعثِ رحمت تھے۔طائف کے میدان میں پتھر مارکر لہولہان کردینے والے دشمنوں کے لئے بھی وہ سراپا خیر تھے۔اپنے عزیز چچا کے قاتل کو انہوں نے معاف کیا۔شعب ابی طالب میں جلاوطن کرکے مسلسل تین سال تک اذیتیں پہونچانے والے دشمنوں پر جب فتح پائی تو انہیں بھی اپنی آغوشِ رحمت میں جگہ دے دی۔
آخر تم کس منہ سے باضابطہ سڑک پر ریلیاں نکال کر دھرتی کی اس عظیم شخصیت کی شان میں بھدی بھدی گالیاں دیتے ہو؟
اگر تم یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہو کہ تمہیں ان کے ماننے والے؛ دیش کے پچیس کروڑ مسلمانوں سے نفرت ہے اور تمہیں ان کی مسجدیں،مدارس،مزارات اور دیگر شعائر اسلام سے نفرت ہے تو پھر تمہیں ہماری صدیوں بھری سنہری تاریخ پڑھنی چاہیے کہ کس طرح ہم نے اپنے اس وطن عزیز کو اپنے خون جگر سے سینچا،سنوارا،بنایا،بسایا اور آباد کیاہے!ہم نے ہزاروں لاکھوں قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر؛درختوں کی ٹہنیوں پر جھول کر پھانسی کے پھندے کو چوم کر وطن عزیز کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا ہے۔ملک کے کونے کونے میں آباد ہمارے مزارات آج بھی ہماری بےمثال قربانیوں کی گواہی دینے کے لئے کافی ہیں۔
اچھا یہ تو کل کی بات ہے۔آج بھی ہم ملک کی تعمیر وترقی کے لئے ہر شعبے میں دوسروں سے زیادہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کررہےہیں اور سینکڑوں چھوٹی بڑی ہماری ملی جماعتیں ہیں جو مصیبتوں میں مبتلاء ملک کے ایک ایک شہری کی صدیوں سے داد رسی کو اپنا انسانی فریضہ سمجھتی ہیں اور بلاتفریق مذہب و ملت سب کی خدمت کرکے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت پر عمل پیرا ہیں۔
یہ ہمارا اخلاق اور ہمارے رسول کی تعلیم ہے نہ کہ ہماری بزدلی۔
آج تم ہماری جن مسجدوں میں آگ زنی کرکے ہمارے دلوں میں آگ لگاتے ہو کیا تمہارے پاس ایسی کوئی ایک بھی مثال ہے کہ ہماری مسجدوں میں کوئی ہندو بھائی آیا ہو اور وہ یہاں سے گالیاں سن کر واپس گیا ہو؟نہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ہمارے نبی نے ہمیں اس بداخلاقی کی تعلیم نہیں دی۔ہم نے مسجدوں کے منبر و محراب سے بھی ہمیشہ انسانیت،امن و محبت،اخوت و بھائی چارگی،عدل وانصاف اور خیرخواہی و رواداری کا پیغام دیا ہے کہ یہی ہمارے نبی کی تعلیم ہے۔
اچھا آپ سے زیادہ ہمیں اپنے ملک کے ارباب اقتدار اور حکمرانوں پر تعجب ہے کہ آخر ایک جمہوری ملک میں جہاں ہر مذہب و ملت کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب و عقیدے پر عبادت کرنے اور مساوات کے ساتھ زندگی گزارنے کے آئینی حقوق حاصل ہیں۔اس آئین و دستور کے مطابق وقت کے أصحاب اقتدار پر واجب ہے کہ وہ ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والے،ان کی عبادت گاہیں اور ان کی مقدس شخصیات کو تحفظ فراہم کریں۔تو پھر ان دنگائیوں،فسادیوں اور بلوائیوں پر آپ نکیل کیوں نہیں سکتے؟اور آخر قانون کا خوف انہیں کیوں نہیں ہوتا؟آخر کیا وجہ ہے کہ یہ کھلے عام ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت مسلمانوں کی جان و مال بھی برباد کرتے ہیں،ان کی عبادت گاہوں کو بھی نذر آتش کردیتے ہیں اور جب ان سب سے بھی دل کی بھڑاس نہیں نکلتی ہے تو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرکے ان کے صبر کا پیمانہ لبریز کرتے ہیں؟
کیا یہ ہمارے صبر کا امتحان لیا جارہا ہے؟اگر ایسا ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم بحیثت مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں لیکن اپنے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں ہرگز برداشت نہیں کر سکتے۔
یہی وجہ ہے کہ جب جمعیت علماء ہند کے صدر حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر قومی جنرل سیکریٹری حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی کی قیادت میں جمعیت علماء ہند کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے تریپورہ کا زمینی جائزہ لیتے ہوئے ایک متاثر مسلمان سے تریپورہ سانحہ کی روداد جاننی چاہی تو انہوں نے کہا کہ ان دنگائیوں نے ہماری دوکانیں جلائی،گھر جلائے اور مسجدیں بھی جلادی مگر ہم نے صبر کرلیا کہ پھر بنالیں گے مگر جب ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کی تو دل بیحد دکھی ہوگیا۔
ارباب اقتدار سے ملک کا پچیس کروڑ مسلمان جاننا چاہتا ہے کہ آخر آئین و دستور کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ان دنگائیوں نے ایسی گھناؤنی حرکتیں کیوں کی اور اگر انہوں نے یہ بدترین سانحہ انجام دے ہی دیا تو ملک کے اربابِ اقتدار نے اب تک ان کے خلاف کیا کارروائی کی؟؟؟