مضامین

نظریۂ”ہم رنگی "(Homogeneity)

✍️محمد موسیٰ ندوی کٹیہار

سیاسی،سماجی،تعلیمی فرقہ پرستی کا خاتمہ،مختلف مذاھب کے لوگوں کے درمیان قیام امن وامان کے لئے مکمل "ہم رنگی” (homogeneity) کو ضروری سمجھنا ایک خالص fascism ideology کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اس تحریک کے داعیان کی مثال اس پاگل کی طرح ہے جس نے گومتی ندی کنارے بیٹھ کر ایک مرتبہ ایک کؤے کو دیکھ کر اپنی فکر کا عکاسی کرتے ہوئے بول پڑا تمام پرندوں کا رنگ کالا ہونا چاہیے تب جاکے پرندوں کے مابین امن وسکون کا مظاہرہ دیکھنے کو ملے گا جب کہ واقعہ یہ ہے کہ مختلف مذاھب کے لوگوں کا اپنی اپنی جداگانہ تہذیبوں کے ساتھ (جیو اور جینے دو) بقاۓ باہمی کے فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہوۓ ،مل جل کر رہنا،اور تشدد سے بچے رہنا ہی ایک صحت مند سماج کی بالغ نظری ہے ، اور اسی فارمولے کے تحت مختلف مذاھب کے ماننے والوں اور بھانت بھانت افکار کے داعیان کے مابین امن و امان کا قیام ممکن ہے اسی بالغ نظری کے حصول کے لیے دنیا کی طاقتور ترین تمام امن پسند تحریکیں مسلسل کوشش کر رہی ہیں!

ہندوستانی سماج نے اس بالغ نظری کا مظاہرہ صدیوں پہلے کیا تھا، تبھی جاکے اس ملک کو "سونے کا چڑیا ” ہونے کا خطاب ملا تھا۔موجودہ دور میں پریشان کن،مصیبت زدہ اور افسوسناک صورتحال سے متاثر ہو کر نظریۂ "مکمل ہم رنگی” کا محرک بن جانا اور پھر اس کی دعوت و تبلیغ،اس پر اصرار ذہنی پسماندگی ، تاریک خیالی ، مایوسی ، احساس کہتری کا شکار ، اور باد مخالف سے سمجھوتے کی علامت ہے،مزید کہیں نہ کہیں عملاً نہ صحیح قولا اپنی تہذیب و تمدن پر شرمندگی،اور اغیار کی culture & civilization سے متاثر ہونے کی علامت ہے۔حد تو اس وقت ہو جاتی ہے کہ اللہ کا دیا ہوا نام بھی بدلنے کا مشورہ قوم کو دے ڈالتے ہیں ایسے بھی صرف ہندوستان تک ہی میں محدود کرتے ہوئے اگر نظریۂ ” ہم رنگی” کا جائزہ لیا جائے اور اس کو فروغ دینے کے لئے زہریلے سانپوں کی تعریف کی جائے تو بھی داعیان "ہم رنگی” اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہیں،کیونکہ یہ نظریہ در اصل بھارت کی روح (Unity in diversity) پر قاتلانہ حملہ ہے کیونکہ (کثرت میں وحدت)ہی ہمارے ملک کی خوبصورتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button