Uncategorized

فلمی دنیا : ”نکاح“ تین طلاق پر بنی ایک ایسی فلم جس کے ڈائیلاگ پر بجتی تھیں تالیاں، جانیں پس منظر

"تم بھی دوسروں کی طرح مرد نکلے جو عورت کو جائیداد سمجھتے ہیں عورت کو نہیں۔ لیکن میری کوئی جائیداد نہیں ہے۔ میں ایک زندہ عورت ہوں۔ کوئی لاش نہیں کہ مردانہ معاشرہ اپنی مرضی سے قبریں بدلتا رہے۔ تم مجھے کیا چھوڑو گے؟ میں تمہیں چھوڑ کر جا رہی ہوں۔”

40 سال قبل 24 ستمبر 1982 کو ریلیز ہوئی اور تین طلاق کے معاملے پر بنی فلم نکاح میں ایسے کئی مکالمے ہیں جن پر اس وقت تھیٹر میں تالیاں بج رہی تھیں۔

"آج بھی سامعین کی تالیاں جو وہ میرے ڈائیلاگ پر بجاتے تھے میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ یہ فلم کی ریلیز کے بعد کی ہے۔ ناسک کے قریب دھولے میں بہت سی خواتین مجھ سے ملنے آئیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ اس کے پروفیسر شوہر وقت پر کھانا نہ دینے کی وجہ سے صرف تین بار طلاق کہہ کر رشتہ توڑ دیا تھا۔دوسری کو اس کے شوہر نے فون پر طلاق دے دی تھی۔

فلم نکاح لکھنے والی اچلا نگر نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہانی سنائی جو ذہن میں رہ گئی۔ نکاح 1982 کی بلاک بسٹر فلم تھی جس میں پاکستانی نژاد سلمیٰ آغا، راج ببر اور دیپک پراشر نے اداکاری کی تھی۔ پاکستانی غزل گو غلام علی کے گائے ہوئے گیت چپکے چپکے رات دن آنسو بہانہ یاد ہے، فضا بھی ہے، جواں-جواں اور سلمیٰ آغا کے گانے دل کے ارمان آنسوؤں میں…

راوی کی موسیقی حسن کمال کے بول بھی کمال کے تھے مثلاً جب وہ لکھتے ہیں کہ ہر لمحہ ہر پل کی تلاش میں کھو جاتا ہے تو آپ گلوکار کی اداسی کو محسوس کر سکتے ہیں۔

نکاح نیلوفر نامی ایک نوجوان لڑکی کی کہانی ہے جو وسیم سے محبت کرتی ہے اور اس سے شادی بھی کر لیتی ہے۔ لیکن بڑھتے ہوئے جھگڑوں کے درمیان شوہر اچانک تین بار طلاق کہہ کر نیلوفر سے علیحدگی اختیار کر لیتا ہے۔

معروف مصنفہ اچلا نگر نے بتایا ہے کہ اس وقت شادی کی کہانی لکھنے پر پاکستان کی کئی خواتین نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔

پاکستان کی صبیحہ سمر خاموش پانی جیسی ایوارڈ یافتہ فلموں کی ڈائریکٹر ہیں، جس میں بھارتی اداکاروں نے کام کیا تھا۔ نکاح کو یاد کرتے ہوئے صبیحہ کراچی سے یاد کرتی ہیں، "مجھے یاد ہے کہ 80 کی دہائی میں پاکستان میں وی سی آر پر پائریٹڈ بالی ووڈ فلمیں دیکھتی تھیں۔”

"میں نے ابھی اسکول ختم ہی کیا تھا اور کالج گئی تھی ۔ نکاح کا عورتوں پر بہت اثر ہوا۔ پاکستان میں بہت سی خواتین نے نکاح دیکھا ہے ، میرے گھر میں بھی میری ماں بہن نے دیکھا ہے ۔ میرے خیال میں نکاح کی کہانی ایسی تھی کہ متوسط طبقے کی بہت سی مسلم خواتین اپنے آپ کو پہچاننے میں کامیاب ہوئیں کہ وہ شادی کے رشتے کے باوجود بعض اوقات کتنی کمزور ہوتی ہیں۔ میں نے کچھ دن پہلے حسن کمال جی سے بھی بات کی جنہوں نے نکاح کے گانے لکھے تھے۔ اس فلم کی جذباتی کشش میں حسن کمال کے گانوں نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔

فلم کے ذریعے پیدا کیا گیا مذہبی تنازعہ

جب بی آر چوپڑا نے 80 کی دہائی میں تین طلاق کے معاملے پر یہ فلم بنائی تھی تو ایک مذہبی تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔

بی بی سی کے سینیئر فلم نقاد پردیپ سردانا کو 2019 میں دیے گئے انٹرویو میں اچلا نگر نے کہا تھا "فلم کسی مذہب کو ذہن میں رکھ کر نہیں بنائی گئی تھی بلکہ اس کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ خواتین کو بھی انسان سمجھا جانا چاہیے۔”

"لیکن پھر بھی تنازعات پیدا ہوئے۔ فلم کی ریلیز کے چوتھے دن کسی نے مسلم اکثریتی علاقے بھنڈی بازار میں پوسٹر لگائے کہ اس فلم میں مذہب کے خلاف باتیں کی گئی ہیں۔ فتوے جاری ہوئے۔ پھر مظاہرین کو بلاکر راتوں رات فلم دکھائی گئی۔”

تین طلاق کا مسئلہ پانچ سال پہلے ایک بار پھر اس وقت منظر عام پر آیا جب 2017 میں سپریم کورٹ نے تین طلاق کو غیر آئینی قرار دیا۔ 2019 میں پارلیمنٹ نے بل منظور کیا اور اسے مجرمانہ جرم قرار دیا۔ یہ مسئلہ کافی عرصے سے متنازعہ ہے جس میں مختلف دلائل اور دللیں سامنے آتے رہے ہیں۔

تین طلاق پر قانونی جنگ لڑنے والی سپریم کورٹ کی وکیل فرح فیض کے ماموں عمر خیام سہارنپوری نے بی آر چوپڑا کی فلم نکاح کے لیے مذہبی مشیر کے طور پر کام کیا۔

فلم کی کریڈٹ لسٹ میں عمر خیام سہارنپوری کا نام بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ فرح نے جنوری 2016 میں تین طلاق کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

اس سے قبل بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں فرح نے بتایا تھا کہ ‘اس وقت میری عمر 8 سال تھی، تب فلم نکاح پر 20 کے قریب کیسز ہوئے، 15-20 دن کے فتوے میرے چچا خود اکٹھے کرکے لائے تھے۔ ہمارے گھر تب سے یہ مسئلہ زیر بحث ہے میں آج اس مسئلے کے خلاف ہوں تو یہ انہی لوگوں کی وجہ سے ہے جن کے ساتھ میں نے اپنے چچا کو لڑتے دیکھا تھا۔

سلمیٰ آغا اور راج کپور کا رشتہ

رائٹر اچلا نگر کو فلم نکاح کے لیے بہترین مکالمے کا فلم فیئر ایوارڈ ملا جب کہ پاکستانی نژاد سلمیٰ آغا کو بہترین گلوکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔

نکاح کی کامیابی کے بعد سلمیٰ آغا نے 1982 سے 1990 تک کئی ہندی فلموں میں کام کیا جیسے کہ قسم پانے والے کی، سلمیٰ، پتی پتنی اور طوائف، اونچے لوگ۔ لیکن اسے وہ کامیابی نہیں ملی جو اس نے نکاح میں دیکھی تھی۔

سلمیٰ آغا نے گفتگو میں بتایا، "میری والدہ امرتسر میں پیدا ہوئیں۔ میرے والد کا امرتسر میں ایک بار تھا، وہ ایرانی نژاد تھے۔ میں نے اپنا بچپن ہندوستان میں گزارا، لیکن میں نے لندن میں تعلیم حاصل کی۔ میرے والد خشک میوہ جات کی بڑے تاجر تھے ۔ کاروباری سلسلے میں وہ لندن آتے جاتے تھے۔میرے نانا، والد اور والدہ کے پاس برطانوی پاسپورٹ تھے۔میرے بچے بھی برطانیہ میں پیدا ہوئے۔

پاکستان کے ساتھ تعلقات پر بات صرف یہ تھی کہ انہوں نے پاکستانی فلموں میں کام کیا۔

ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سلمیٰ کا کیریئر بی بی سی لندن کے پروگرام ‘نئی زندگی نئی زندگی’ سے شروع ہوا۔

2016 میں سلمیٰ نے اوورسیز سٹیزن آف انڈیا کارڈ کے لیے اپلائی کیا، جس کے بعد وہ شخص کئی بار انڈیا آ سکتا ہے اور اسے پولیس کو رپورٹ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس وقت برطانیہ کی شہری تھیں۔

اے این آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے سلمیٰ نے کہا تھا کہ وہ لوگوں کو بتانا چاہتی ہیں کہ وہ ہندوستانی ہیں۔ بعد میں سلمیٰ کو اوورسیز سٹیزن آف انڈیا کا کارڈ ملا۔

سلمیٰ اپنی بیٹی زارا خان کے ساتھ بھارت میں رہتی ہے۔ زارا نے بطور اداکارہ اپنے کیریئر کا آغاز 2013 میں ارجن کپور کے ساتھ فلم اورنگزیب سے کیا لیکن ان دنوں وہ ایک گلوکارہ کے طور پر زیادہ جانی جاتی ہیں۔ زارا نے ستیہ میو جیتے 2 اور "جگ جگ جیو” جیسی فلموں میں گانے گائے ہیں۔

میگزین میں چھپی کہانی تحفے میں بدل گئی، فلم نکاح

فلم نکاح کی طرف واپسی کرتے ہیں ۔اس فلم کے بنانے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ یہ فلم بی آر چوپڑا نے بنائی تھی جو اس وقت کے ایک تجربہ کار پروڈیوسر ڈائریکٹر تھے اور انہوں نے بہت سے سماجی مسائل پر فلمیں بنائی تھیں۔ ایک بار انٹرویو کے دوران بی آر چوپڑا نے مصنف اچلا نگر سے ملاقات کی۔

ان دنوں اچلا نگر آکاشوانی متھرا میں کام کرتی تھی۔

اچلا نگر نے بتایا تھا "میں کچھ نہ کچھ لکھتی تھی۔ میں نے ‘نکاح’ کی کہانی ‘مادھوری’ نامی میگزین کے لیے لکھی تھی۔ کہانی کا نام تحفہ تھا۔ دراصل ایک دن میں نے خبر پڑھی کہ سنجے خان اپنی فلم ‘عبداللہ’ کی شوٹنگ کے دوران زینت امان سے شادی کرنے کے بعد انہیں طلاق دے دیا ۔

"لیکن اب وہ حلالہ کی رسم ادا کرنے کے بعد دوبارہ شادی کرنا چاہتا ہے۔ بس اس کے بعد میرے ذہن میں یہ کہانی پیدا ہوئی۔ یہ اکتوبر 1981 میں ‘مادھوری’ میں شائع ہوا تھا۔ اس سے پہلے بھی میں نے آکاشوانی متھرا سے اس کہانی کو ڈرامہ کی شکل دے کر نشر کیا تھا۔ جب بی آر چوپڑا کو ایک میٹنگ کے دوران اس کہانی کا علم ہوا تو انہوں نے فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔

نکاح
ڈائریکٹر بی آر چوپڑا
ریلیز – 24 ستمبر 1982
تحفے پر مبنی اچلا نگر کی کہانی
فلم فیئر ایوارڈ – بہترین مکالمہ (اچلا نگر)
گلوکار – مہندر کپور، غلام علی، سلمیٰ آغا

یہ وہ دور تھا جب مسلم معاشرے کی فلمی صنف مقبول ہوا کرتی تھی یعنی ایسی فلمیں جن میں ماحول اور کردار بنیادی طور پر مسلم معاشرے کے ہوں جیسے پاکیزہ، میرے محبوب، چودھویں کا چاند، لیلیٰ مجنوں، محبوب کی مہندی، بازار۔

فلم نکاح بھی اسی مسلم سماجی طرز کی ایک کڑی تھی جس میں ہدایت کار اور مصنف نے عورت کے نقطہ نظر سے کئی سوالات اٹھانے کی کوشش کی تھی۔

نکاح کی کہانی
فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ نئے نویلے جوڑے نیلوفر (سلمیٰ آغا) اور وسیم (دیپک پاراشر) کے درمیان فاصلے مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔

وسیم کو نہ تو اپنی بیوی کی پرواہ ہے اور نہ ہی اس کی رضامندی۔ غصے میں وہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیتا ہے۔ طلاق کے بعد حیدر (راج ببر) نیلوفر کی زندگی میں آتا ہے جو اسے کالج کے دنوں سے ہی چاہتا تھا۔

نیلوفر حیدر سے شادی کر کے بہت خوش ہے۔ حالانکہ پہلی شادی کے زخم ابھی تک زندہ ہیں جنہیں وہ اپنی ڈائری میں ریکارڈ کرتی رہتی ہے جس میں وسیم کا ذکر کئی بار ہوتا ہے۔ ایک بار حیدر (راج ببر) ڈائری پڑھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی اب بھی اپنے پہلے شوہر سے محبت کرتی ہے اور وہ اسے طلاق دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔

نیلوفر کی سالگرہ پر وہ اس کے پہلے شوہر کو بطور تحفہ لاتا ہے جو سچ میں نیلوفر کو واپس پانا چاہتا ہے۔

یعنی دو آدمی مل کر نیلوفر کی قسمت کا فیصلہ کر رہے تھے اور اس نے اس کی مرضی کے بغیر اس سے کچھ پوچھے بغیر ایسا کیا۔ اور نیلوفر (سلمیٰ آغا) دونوں سے تیکھے سوالات کرتی ہے۔

سلمیٰ آغا
پہلی ہندی فلم نکاح – 24 ستمبر 1982
فلم فیئر ایوارڈ (بہترین گلوکار) – نکاح
کئی پاکستانی، ہندی فلموں میں کام کیا۔
کپور خاندان سے رشتہ
سلمیٰ آغا اب بھارت میں رہتی ہیں۔

” تم کون ہو مجھے آزاد کرنے والے “

نیلوفر یعنی سلمیٰ آغا کو بھی ایک ایسی عورت کے طور پر دکھایا گیا ہے جو محبت کرتی ہے لیکن جھکتی نہیں۔ مثال کے طور پر جھگڑے کے ایک دن بعد وسیم (دیپک پراشر) اپنی بیوی کو دوستوں سے معافی مانگنے کا حکم دیتا ہے اور اپنے دفاع میں کہتا ہے کہ اس نے ہمیشہ بے انتہا محبت کی ہے۔ لیکن نیلوفر کو غریب ہونے پر کوئی اعتراض نہیں اور وہ جواب دیتی ہے کہ ہر رات ایک ساتھ سونا محبت نہیں کہلاتا۔

یا کلائمکس جہاں موجودہ شوہر (راج ببر) نیلوفر کی رضامندی کے بغیر اسے اپنے پہلے شوہر (دیپک پراشر) سے ملوانے اور اسے طلاق کے ذریعے آزاد کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

پھر نیلوفر کی بغاوت یوں بھڑک اٹھتی ہے- "تم کون ہو مجھے آزاد کرنے والے۔ میں تمہاری جیب میں پڑا ہوا کوئی نوٹ نہیں، جسے تم جب چاہو خیرات میں دے دو ۔ جو شادی میری مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی، اس کا ٹوٹنا یا ٹوٹنے میں میری ہاں یا ناں میں دخل دینا کیوں ضروری نہیں؟ ایک شخص نے گالی کے طور پر طلاق دی، ایک نے تحفہ کے طور پر طلاق دی، ایک نے طلاق نہ دے کر اپنے حق کا اظہار کیا۔اور آپ طلاق دے کر اپنی قربانی کا احساس دلانا چاہتے ہیں؟ دونوں ہی صورتوں میں داؤ پر تو صرف ایک عورت ہی لگی نا!

تین طلاق غیر آئینی

اس وقت کے حالات کے مطابق بی آر چوپڑا نے طلاق ثلاثہ کے معاملے پر ایک فلم بنائی جس میں 80 کی دہائی کی صورتحال بیان کی گئی تھی۔

اسلام میں طلاق کے مختلف طریقے رائج ہیں لیکن ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کے مطابق ایک ساتھ میں تین طلاق کو قبول کیا جاتا ہے ۔ نئے قانون کے تحت تین طلاق غیر آئینی اور ایک مجرمانہ جرم ہے جس کے بارے میں آج بھی سماج میں مختلف رائے پائی جاتی ہے۔

اور تقسیم کے درمیان میں وہ خواتین بھی ہیں جن کو نئے قانون سے پہلے طلاق ہو چکی تھی لیکن قانون کے باوجود شوہر نے صلح سے انکار کر دیا اور انہیں یہ نہیں معلوم کہ ان کی شادی مستقل ہے یا ان کی طلاق ہو چکی ہے۔

ماخذ : بی بی سی ہندی (بشکریہ بی بی سی ہندی)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button