ریاست کے 75000 این آئی او ایس سے ٹرینڈ ٹیچرس کے لئے خوشخبری ، 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں شنوائی کنفرم
پٹنہ (قومی ترجمان) ریاست کے 75000 این آئی او ایس سے تربیت یافتہ ٹیچرس کے لئے بڑی خوشخبری ہے کہ این آئی او ایس کے مدعے کو ہمیشہ ہمیش کے لئے ختم کرنے کی غرض سے عدالتی چارہ جوئی کرتے ہوئے اسے عدالت عظمی میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔معاملہ دراصل یہ ہے کہ اکتوبر ٢٠٢٢ میں پٹنہ عدالت عالیہ کا عطاء الرحمن وغیرہ بنام بہار سرکار کا فیصلہ آیا تھا، یہ مقدمہ ان لوگوں کا تھا جسے حکومت نے برخواست کر دیا تھا یا جن پر برخاستگی کے خطرات کے بادل منڈرا رہے تھے کورٹ نے حکومت کے موقف سے اتفاق کیا اور ان کو convicted مانا لیکن چونکہ اس فیصلے کے اثر سے کئی سو افراد نوکری گنوا دیتے اس لئے کورٹ نے ان پر رحم کرتے ہوئے نو تقرر کر کے ان کو conditional بحال رکھا۔
اہم سوال یہ ہے کہ این آئی او ایس والے اس سحر میں کیسے پھنس گئے؟در اصل این آئی او ایس والوں کی تربیت مرکزی حکومت کے ایک آرڈیننس کے تحت ہوئی ہے جسے مرکزی حکومت نے جلدبازی میں اگست ٢٠١٧ کو لایا جس کے تحت ملک کے سارے اساتذہ کا خواہ وہ پرائیویٹ ہوں یا سرکاری ٣١ مارچ ٢٠١٩ تک ٹرینڈ ہونا لازمی قرار دیا گیا تھا، کہا گیا کہ جن کی ٹریننگ مقررہ وقت پر نہیں ہوگی یکم اپریل ٢٠١٩ کو ایسے اساتذہ automatically نوکری سے برخواست کر دئیے جائیں گے ۔
اس آرڈیننس اور قانون کے تحت ہم جیسے اساتذہ کی ٹریننگ ہوتی ہے ہم نے مجوزہ شیڈول کے مطابق سارے عوامل کئے پندرہ اور سولہ مارچ کو فائنل امتحان ہوتا ہے اس کے بعد رزلٹ ٢٢ مئی ٢٠١٩ کو آتا ہے اسی کے مطابق ہمارا فکسیشن کر دیا جاتا ہے اور ہم تنخواہ پا رہے ہوتے ہیں۔ اسی اثنا میں مذکورہ آرڈیننس کے تحت جن کی نوکری جا رہی تھی ایسے اساتذہ نے لوگ عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عطاء الرحمن کا فیصلہ اسی ضمن میں ہے اس فیصلے کے تحت اب حکومت کہ رہی ہے کہ آپ پر بھی عدالت عالیہ کے رولنگ کے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ آپ کا رزلٹ باؤنڈری لائن کے باہر یعنی (٣١ مارچ ٢٠١٩) کے بعد آیا ہے لہذا اس رولنگ کا اطلاق آپ پر بھی ہے اور آپ بھی اس کے شکار ہوں گے۔ اسی کے خلاف سپریم کورٹ میں 18 اکتوبر کو کورٹ نمبر 4 میں شنوائی ہونی ہے ۔ متاثر اساتذہ نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو ہم اساتذہ کا اس میں کیا قصور ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں پوری امید ہے کہ سپریم کورٹ سے ہمیں ضرور انصاف ملے گا ۔