دنیا اور اس کی سب چمک دمک محض عارضی ہے، انسان کی زندگی میں اگر کوئی نعمت میسر آجائے تو کوئی ضمانت نہیں کہ وہ آخری دم تک باقی بھی رہے، اس لئے کہ دنیا تغیر پذیر ہے، مال، صحت، عزت، اور عافیت کے اعتبار سے لوگوں کے حالات بدلتے رہتے ہیں، لہذا دنیا کی بڑی سے بڑی کہی جانے والی نعمت بھی ناپائیدار ہے ، اور اس سے انتفاع کا سلسلہ یقیناً ختم ہو جانے والا ہے، اگر زندگی میں ختم نہ ہوا تو مرنے کے بعد یقیناً ہوجائے گا، مرنے کے بعد نہ بیوی بیوی رہے گی، نہ مال مال رہے گا نہ جائیداد اور کھیتی باڑی ساتھ ہوگی۔ ان سب اشیاء کا ساتھ چھوٹ جائے گا، بات یہ ہے کہ دنیا کی زندگی عارضی جبکہ آخرت کی زندگی دائمی ہے، دنیا کی ہر خوشی اور نعمت زوال اور خطرات کی زد میں ہے، جبکہ آخرت کی خوشی اور نعمت نہ تو زائل ہوگی اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی مصیبت اور پریشانی ہوگی، مومن کی نظر آخرت پر ہونی چاہیے، دنیا اور دنیا کی آسائشیں کسی مسلمان کی مقصد نہیں ہو سکتیں ۔
اس لیے قرآن و حدیث میں انسانوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ دنیا کی زیب و زینت کو مقصود نہ بنائیں بلکہ اس کے مقابلہ میں آخرت کی لازوال نعمتیں حاصل کرنے کی جدو جہد اور فکر کرنی چاہیے
قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا
مفہوم : فریفتہ کیا ہے لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور خزانے جمع کئے ہوئے سونے اور چاندی کے اور گھوڑے نشان لگائے ہوئے ، اور مویشی اور کھیتی،یہ فائدہ اٹھانا ہے دنیا کی زندگانی میں، اور اللہ ہی کے پاس ہے اچھا ٹھکانا،آپ فرما دیجئے: کیا بتاؤں میں تم کو اس سے بہتر؟پرہیز گاروں کے لئے اپنے رب کے ہاں باغ ہیں، جن کے نیچے جاری ہیں نہریں، ہمیشہ رہیں گے ان میں،اور عورتیں ہیں ستھری اور رضامندی اللہ کی،اور اللہ کی نگاہ میں ہیں بندے (آل عمران)
اللہ تعالیٰ نے دنیا کے نظام کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے گو کہ ان اشیاء کی محبت لوگوں کے دلوں میں راسخ فرما دی ہے کیونکہ اگر ان چیزوں سے لوگوں کو دلی تعلق نہ ہوگا تو دنیا کی آبادی اور شادابی کے اسباب کیسے فراہم ہونگے مال کے حصول کے لیے جدوجہد کون کرے گا صنعت و حرفت اور کاشتکاری کے شعبے کیسے فروغ پائیں گے لہذا ان دنیاوی اسباب سے لوگوں کا تعلق نظام قدرت کے عین مطابق ہے مگر اس تعلق کے دو پہلو ہیں ایک پسندیدہ اور دوسرا ناپسندیدہ ہے۔ یعنی اگر عورتوں سے تعلق حرام کاری کی طرف رغبت کی وجہ سے ہے تو ناپسند ہے اور اگر عفت و عصمت کے تحفظ اور صالح اولاد کے حصول کے لیے اپنی منکوحہ عورتوں سے تعلق ہے تو یہ عین عبادت ہے اسی طرح مال میں انہماک اگر تکبر و غرور اور فخر و مباہات اور دوسروں پر ظلم و جبر کے ساتھ ہے تو یہ بدترین غلطی ہے لیکن اگر صدقہ خیرات کے شوق اور لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کے مقصد سے حلال کاروبار میں وقت لگاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے برا نہیں کہا جاۓگا (تفسیر ابن کثیر)
دنیا کی زندگی تو بس کھیل کود ہے اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ڈرتے ہیں کیا تم عقل نہیں رکھتے (سور الانعام)
یہ دنیا کی زندگی تو بس عارضی ہے ہمیشہ کا گھر تو صرف آخرت ہے (سورۃ المؤمن)
آخرت میں سخت عذاب بھی ہے اور اللہ کی مغفرت اور رضا بھی ہے اور دنیا کی زندگی تو بس فریب ہی فریب ہے (سورۃ الحدید)
فرما دیجئے ! دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت بہتر ہے اس شخص کے لئے جو تقوی اختیار کرتا ہے (سورۃ النساء)
اور ان کو بتادیں کہ دنیا کی زندگی ایسے ہی ہے جیسے ہم نے اتارا پانی آسمان سے (سورۃ الکہف)
ا
ور یہ دنیا کی زندگی نہیں مگر کھیل تماشا اور آخرت کی زندگی تو ہمیشہ رہنے والی ہے کاش یہ جان لیتے (سورۃ العنکبوت)
جو کوئی آخرت کی کھیتی کو چاہتا ہے ہم اس کے واسطے اس کی آخرت کی کھیتی کو بڑھاتے ہیں اور اس میں زیادتی کرتے جاتے ہیں اور جو کوئی دنیا کی کھیتی کو چاہتا ہے ہم اس کو دنیا میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا (سورۃ الشوریٰ)
یہ چند آیات مثال کے طور پر پیش کی گئی ہیں ورنہ دسیوں بیسیوں آیات ہیں جو دنیا کی قلت و حقارت اور آخرت کی تعریف کے بارے میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ قرآن کی ان آیات کے علاوہ آقا صلی اللہ وسلم کے ارشادات کا مطالعہ کریں تو آپ نے بھی یہی حقیقت اپنی امت کے دل میں اتار نے کی کوشش کی ہے کہ دنیا اور آخرت میں کوئی مناسبت نہیں اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جو حقیقی اور سچا مسلمان ہوگا وہ آخرت ہی کو بنانے اور سنوارنے کی کوشش کرے گا دنیا ہی کی زندگی کو اپنی فکر و سعی کا محور بنا لینا مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔
حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اگر ابن آدم کو ایک وادی سونے کی بھری ہوئی مل جائے تو وہ چاہے گا کہ مجھے ایک وادی اور مل جائے جب دو مل جائیں گی تو پھر یہ چاہے گا کہ مجھے ایک وادی اور مل جائے ۔ ابن آدم کا پیٹ سوائے قبر کی مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھرے گی جب وہ دنیا سے رخصت ہو گا اور اس کو قبر میں دفن کیا جائے گا تب اس کا پیٹ بھرے گا اور دنیا میں مال و دولت جمع کرنے کے لئے جو بھاگ دوڑ اور محنت کر رہا تھا وہ ساری محنت دھری رہ جائے گی اور سب مال و دولت یہاں چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہو جائے گا البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے کو قناعت عطا فرما دیں تو یہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کا پیٹ بھر دیتی ہے اور اس قناعت کو حاصل کرنے کا نسخہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں بیان فرمایا کہ اگر تم دنیا اور آخرت کی فلاح چاہتے ہو تو اس نسخے پر عمل کر لو اور اگر فلاح نہیں چاہتے ہو تو عمل مت کرو لیکن پھر ساری عمر بے چینی اور پریشانی کا شکار رہو گے وہ نسخہ یہ ہے کہ دنیاوی مال و دولت کے اعتبار سے اپنے سے اونچے کو مت دیکھو ورنہ یہ خیال آئے گا کہ اس کو فلاں چیز مل گئی ہے مجھے وہ چیز نہیں ملی بلکہ اپنے سے کمتر آدمی کو دیکھو کہ اس کے پاس دنیا کے اسباب کیا ہیں اور تمہیں اس کے مقابلے میں کتنا زیادہ ملا ہوا ہے اس وقت تم اللہ کا شکر ادا کرو گے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو سامان اور راحت عطا فرمائی ہے وہ اس کو حاصل نہیں اور اگر اپنے سے اونچے کو دیکھو گے تو دل میں حرص پیدا ہوگی پھر مقابلہ اور دوڑ پیدا ہوگی اور اس کے نتیجے میں دل اندر حسد پیدا ہوگا کہ وہ آگے نکل گیا میں پیچھے رہ گیا پھر حسد کے نتیجے میں بغض پیدا ہوگا پھر عداوت پیدا ہوگی تعلقات خراب ہوں گے اللہ تعالی کے حقوق بھی ضائع ہوں گے اور اللہ کے بندوں کے حقوق بھی ضائع ہوں گے اور اگر قناعت حاصل ہو گئی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سکون میں آجاؤ گے اس کے علاوہ سکون کا کوئی راستہ نہیں ہے (لا یملأ جوف ابن آدم الا التراب ) صحیح بخاری۔
دنیا کی محبت اگر دل میں سمائی ہوئی ہو تو پھر صحیح معنی میں اللہ تعالی کی محبت دل میں نہیں آ سکتی اور جب اللہ تعالٰی کی محبت نہیں ہوتی وہ محبت غلط رخ پر چل پڑتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ !حب الدنیا رأس کل خطیٔۃ ۔ دنیا کی محبت ہر گناہ اور معصیت کی جڑ ہے۔ (کنز العمال)
جتنے جرائم اور گناہ ہیں اگر انسان ان کی حقیقت میں غور کرے گا تو اس کو یہی نظر آئے گا کہ ان سب میں دنیا کی محبت کار فرما ہے چور کیوں چوری کر رہا ہے اس لئے کہ دنیا کی محبت ہے اگر کوئی شخص بدکاری کر رہا ہے تو کیوں کر رہا ہے اس لیے کہ دنیا کی لذتوں کی محبت دل میں جمی ہوئی ہے شرابی اس لیے شراب نوشی کر رہا ہے کہ وہ دنیاوی لذتوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے کسی بھی گناہ کو لے لیجئے اس کے پیچھے دنیا کی محبت کار فرما نظر آئے گی اور جب دنیا کی محبت دل میں سمائی ہوئی ہے تو پھر اللہ کی محبت کیسے دل میں داخل ہو سکتی ہے لہذا دل میں حقیقی محبت یا تو اللہ تعالی کی ہوگی یا دنیا کی ہوگی دونوں محبتیں ہے ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں اسی وجہ سے مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ! ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں ، ایں خیال است و محال واست وجنوں ۔ یعنی دنیا کی محبت بھی دل میں سمائی ہوئی ہو اور اللہ تعالی کی محبت بھی سمائی ہوئی ہو یہ دونوں باتیں نہیں ہوسکتیں اس لیے کہ یہ صرف خیال ہے اور محال ہے اور جنون ہے اس واسطے اگر دل میں دنیا کی محبت سما گئی تو پھر اللہ کی محبت نہیں آئے گی جب اللہ کی محبت نہیں ہوگی تو پھر دین کے جتنے کام ہیں وہ سب محبت کے بغیر بے روح ہیں بے حقیقت ہیں ان کے ادا کرنے میں پریشانی دشواری اور مشقت ہوگی اور صحیح معنی میں وہ دین کے کام انجام نہیں پا سکیں گے بلکہ قدم قدم پر آدمی ٹھوکریں کھاۓ گا اس لیے کہا گیا کہ انسان دل میں دنیا کی محبت کو جگہ نہ دے۔ (اصلاحی خطبات)
دنیا دار کی زندگی
عرب کے ایک شاعر (غالباً ابو العتاھیہ) سے کسی نے پوچھا سناؤ کیسے گزر رہی ہے اس نے جواب دیا کیا بتاؤں ایسی زندگی گزار رہا ہوں جس سے نہ خدا خوش ہو سکتا ہے، نہ شیطان اور نہ ہی میں خود۔ سائل نے پوچھا وہ کیسے کہنے لگا خدا کامل فرمانبرداری چاہتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوتی، شیطان بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب مجھ سے کرانا چاہتا ہے ان کو کرنے کی میرے اندر ہمت اور جرأت نہیں، میرا نفس عیاشی کے اسباب چاہتا ہے وہ مجھے میسر نہیں ہوتے۔
دیندار کی زندگی
اس کے برعکس حضرت بہلول سے کسی نے پوچھا سناؤ کیا حال ہے فرمایا اس شخص کا حال کیا پوچھتے ہو کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی خواہش کے مطابق ہوتا ہے کہا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ ہر بات خدا کے ارادہ اور خواہش کے موافق ہوتی ہے اور میں نے اپنی خواہش کو خدا کی خواہش میں مٹا دیا اور اس کے تابع کر دیا ہے اب جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ میری خواہش کے موافق ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے دلوں کو دنیا کی محبت سے حفاظت فرمائے اور اپنی محبت عطا فرمائے آمین