اہم خبریں

” پئے تفہیم ” ایک مطالعہ ایک تاثر

سرزمین بہار سے گزشتہ چند برسوں میں جن نوجوان شعراء نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ اردو شعر و ادب کے باذوق قارئین کو متوجہ کیا ہے ان میں ایک نام مظہر وسطوی کا بھی ہے ۔  مظہر وسطوی اپنی سنجیدہ شاعری کے لیے پہچانے جاتے ہیں ۔

مظہر کا لہجہ دھیما مگر پراثر ہے ۔ وہ نہایت سبک روی سے قارئین کے دل پر دستک دیتے ہیں ۔ مظہر کی شاعری کی یہی خوبی انھیں رسالوں اور مشاعروں دونوں جگہ کامیاب بناتی ہے ۔

مظہر وسطوی خانوادہ وسطوی کے روشن چراغ ہیں ۔ ادبی دنیا میں اس خانوادہ کی نمائندگی عرصے سے جناب انوار الحسن وسطوی کر رہے ہیں ۔  انوار الحسن وسطوی جو کہ مظہر وسطوی کے بڑے چچا بھی ہیں، بچپن سے مظہر وسطوی کو حاجی پور کی ادبی محفلوں میں شریک کراتے رہے اور مائک پر ان سے دوسرے شعراء کی تخلیقات پڑھوا کر انہیں تحریک دیتے رہے ۔ دوسری جانب مظہر وسطوی اپنے داداجان مرحوم محمد داؤد حسن کے زیر اثر شعر گوئی میں دلچسپی لینے لگے ۔ علاوہ ازیں خود مظہر وسطوی کی طبعیت میں بھی موزونیت پائ جاتی تھی ، لہٰذا ان عوامل نے مل کر ایسا ماحول قائم کیا جس میں مظہر وسطوی کی ادبی دنیا کی راہیں ہموار ہو گئیں ۔ میں نے یہ چند باتیں اس لیے بھی لکھ دی ہیں کہ میں رشتہ میں مظہر وسطوی کا بڑا بھائی ہوں اور میں ان واقعات کا چشم دید گواہ بھی ہوں ۔

         ” پئے تفہیم ” کے مصنف کا اصل نام مظاہر حسن اور قلمی نام مظہر وسطوی ہے۔ وہ درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں ۔ انہیں ان کی ادبی و شعری خدمات کے اعتراف میں ہندی ساہتیہ سمیلن کی جانب سے ٢٠١٨ ء میں "پروفیسر ثوبان فاروقی” ایوارڈ سے نوازا بھی جا چکا ہے۔

          ” پئے تفہیم ” مظہر وسطوی کا پہلا شعری مجموعہ ہے ۔ اس مجموعہ میں شاعر نے دوران طالب علمی سے لے کر ٢٠٢٠ء تک کی تخلیقات شامل کی ہیں ۔ غزلوں کے اس انتخاب کے مطالعہ سے یہ اندازہ بخوبی ہوتا ہے کہ مظہر وسطوی نے کس طرح فن کی منزلیں طے کی ہیں ۔ "حرف ابتدا ” لکھتے ہوئے مظہر وسطوی اپنی شاعری کے متعلق لکھتے ہیں۔

” میں نے اپنی پہلی غزل 16 سال کی عمر میں کہی جسے اصلاح کی غرض سے معروف شاعر جناب محبوب انور
” بنگال ”  کے پاس بذریعہ ڈاک ارسال کیا ۔ انہوں نے نہ صرف میری پہلی غزل کی مشفقانہ انداز میں اصلاح کی بلکہ جوابی خط لکھ کر میری حوصلہ افزائی بھی کی اور یوں رقمطراز ہوئے :
” آپ کی پہلی کوشش ہے ۔ بھلے ہی اس میں بہت سی خامیاں ہیں ، مگر غزل کے مضامین کی تلاش و جستجو آپ ہی کی ہے۔ نقائص کو دور کرنے کا نام ہی اصلاح ہے ۔ اصلاح کے بعد تبدیلی کا ہونا لازمی ہے ۔ لہذا یہ آپ کی تخلیق کہی جائے گی” ( ص – ١١ )

        مظہر وسطوی نے اردو کے تعلق سے بہت ہی عمدہ اور معیاری قطعہ سے اپنی کتاب کا آغاز کیا ہے ، ان کے اس قطعہ سے ان کی اردو دوستی ، اردوسے دلچسپی اور اردو کے تئیں محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ قطعہ ملاحظہ فرمائیں : 
” جنہیں اردو سے الفت ہے انہیں اکرام ملتا ہے
  زباں کی قدردانی کا بھلا انجام ملتا ہے
یہی پیغام اردو ہے ، محبت بانٹتے رہیے
کریں خدمت ، نہ سوچیں کیا ہمیں انعام ملتا ہے "
( ص۔ 6)

معروف ادیب و شاعر ڈاکٹر بدر محمدی اپنی تحریر ” مظہر وسطوی کے ذوق سخن کی بالیدگی” میں لکھتے ہیں :
” مظہر وسطوی کی غزلوں میں وفاداری بشرط استواری ہے ۔ وہ دل میں رہ کر مسکراتا ہے اور رشتے کو نبھاتا ہے ۔ اس نے رشتوں کا پاس رکھا ہے اور ہر رشتے کا نباہ کیا ہے ۔ مظہر نے جن رشتوں کا ذکر کیا ہے ، اس میں ماں کا رشتہ اہم ہے ۔ ماں کا رشتہ قریب ترین رشتہ ہے ۔ "
( ص ۔ 27)

نذر الاسلام نظمی ، سابق مدیر "رابطہ ” نئ دہلی نے مصنف کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس انداز میں کیا ہے ۔
” جہاں تک ان کے شعری تخلیقات کا سوال ہے، مظہر کی غزلوں میں روایتی عنصر زیادہ ہے ۔ کیفیات عشق ، غم جاناں ، ہجر و وصال ، عشوہ و غمزہ ، ناز و ادا ، بے تابی ،و بے قراری ، حسرت و آرزو ، سراپاۓ محبوب کی دل نوازی اور سوز و ساز عشق کے بیان پر شاعر کی توجہ ابھی زیادہ ہے ۔ تاہم اس کے یہاں زوال پزیر انسانی قدروں ، حرص و ہوس ، خودغرضی اور مفاد پرستی کے خلاف ردعمل بھی پایا جاتا ہے ۔ اس رد عمل کو شعر بنانے کے لیے جو ادبی ریاضت مطلوب ہے ، شاعر نے اگر اس سے جی نہیں چرایا تو بلاشبہ عصر آئندہ میں وہ فکر و فن کی عظمتوں کو چھوۓ گا ۔ ”    ( ص۔ 32 )

کتاب کے پہلے فلیپ پر مظہر وسطوی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے کامران غنی صبا ” اسیسٹنٹ پروفیسر ، شعبہ اردو ، نتیشور کالج ، مظفر پور لکھتے ہیں :
    ” مظہر وسطوی کی شاعری متوازن شاعری کی بہترین مثال ہے ۔ ان کے یہاں نہ تو خود ساختہ ادبی پیچیدگیاں ہیں اور نہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی تمنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سطحیت ۔ "
    "پئے تفہیم ” میں ایک حمد اور دو نعتیں ہیں ۔ مظہر وسطوی نے اپنے رب کریم کی مدح ان اشعار کے ذریعہ کیا ہے :
  ” ہر شئے میں سمایا ہوا کردار وہی ہے
خالق بھی وہی مالک و مختار وہی ہے

ہر سمت میں جلوے بھی ، تماشے بھی اسی کے
ہر منظر پر نور میں ضو بار وہی ہے

اس کے ہی خزانے سے ملے گوہرِ مقصود
سنتے ہیں مددگار طلب گار وہی ہے "

شاعر کے ذہن و فکر کا اندازہ ان کی نعتوں کے ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے ، اشعار ملاحظہ فرمائیں :

” زمیں پر ان کے آنے سے جہانوں میں نکھار آیا
تڑپتے ذرے ذرے کو سکوں آیا قرار آیا

نبیﷺ کا نام سنتے ہی لبوں پر سننے والوں کے
درود آیا سلام آیا مسلسل بے شمار آیا

یوں شان مصطفیﷺ تابندہ ہیں آیات قرآں میں
حوالہ رحمت اللعالمیں کا بار بار آیا "

حمد و نعت کے بعد صفحہ 45 سے 173 تک 65 غزلیں شامل ہیں ۔
غزل کے چند اشعار جو میرے دل کو چھو گۓ ، آپ حضرات بھی ملاحظہ فرمائیں اور شاعر کی فکری صلاحیت کا اندازہ لگائیں :

یہ دنیا کب ہر اک انساں کا کہنا مان لیتی ہے
جو چڑھ جاتا ہے سولی پر تو سچا مان لیتی ہے
                                     
جواں بیٹے کو بھی ممتا میں بچہ مان لیتی ہے
اسی خوبی سے دنیا ماں کو اونچا مان لیتی ہے                                     
وطن کی یاد آتی ہے سمندر پار جا کر جب
ہر اک شاداب چہرہ دل کی ویرانی میں رہتا ہے۔
                                  
کلام اللہ کو پڑھ کر سمجھ کر پھونک دینے سے
اک آیت کا اثر مدت تلک پانی میں رہتا ہے
                                         
جو بیچتے ہیں آیت قرآن ہزاروں
  مل جائیں گے بازار میں انسان ہزاروں
                                          
  یہ عشق کا سودا نہیں آسان ہے پیارے
اک لمحہ میں ہو سکتا ہے نقصان ہزاروں
                                          
جزبہ انسانیت باقی کہاں ہر دل میں ہے
اس لیے تو آج کل ہر آدمی مشکل میں ہے
                                         
  اک عمر اور اک علی کی حق شناسی کی مثال
حق ادائ کی وہ جرأت اب کہاں عادل میں ہے
                                      
غزلیات کے بعد مظہر وسطوی نے متفرقات کے عنوان سے اپنی سات نظموں کو کتاب میں شامل کیا ہے ، جن کے عنوانات ہیں :
” اردو زباں ” ، ” اظہارِ محبت ” , ” نذرانہء عقیدت ” ،
” پرندہ ” ،  ” آہ ! ڈاکٹر کلیم عاجز ” ، ” آہ ! شمیم فاروقی”
، اور   ” آہ ! محبوب انور "

” نظم اردو زباں ” کے  چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

پیار الفت کی زبان لشکری اچھی لگی
سب زبانوں میں زبان مادری اچھی لگی
                                       
  اس کی شیرینی کی قائل آج ہے ساری زباں
اس سبب اردو زباں کی برتری اچھی لگی
                                        
لا مثالی نقش ہے یہ قطب شاہی دور کا
اے دکن ! اردو کی یہ دیوانگی اچھی لگی 
                                         
"اظہار محبت ” نظم میں شاعر کے مثبت فکر و خیالات کو دیکھا جا سکتا ہے جسے انہوں نے اپنی بیٹی ” ادیبہ حسن ” کی نزر کیا ہے ۔ اشعار ملاحظہ ہوں:

بیٹیوں کی جاں نثاری دلبری اچھی لگی
ہر کسی کو یہ اداۓ زندگی اچھی لگی
                                           
ہو گیا جو گھر منور بیٹیوں کی ذات سے
مجھ کو اس گھر کی چہکتی روشنی اچھی لگی
                                           
کون کہتا ہےکہ بیٹی باپ پر ایک بوجھ ہے
جب کہ شاہ دو جہاں کو لاڈلی اچھی لگی 
                                           
    ڈاکٹر ارشد القادری اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبئہ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی ، لکھنؤ نے مظہر وسطوی کے تعلق سے اپنے تاثراتی کلمات میں لکھا ہے :
” پئے تفہیم ” در حقیقت زندگی کے مختلف حقائق کے بازیافت کی ایک مخلصانہ سعی و جستجو ہے اور اس کے لیے مظہر وسطوی صاحب لائق صد تحسین و آفرین ہیں ۔ خدا ان کے ذوق فکر ، فنی بصیرت اور تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشے تاکہ و شعر و سخن کی یوں ہی خدمت کرتے رہیں ۔ ” ( ماخوذ : فلیپ ٢ سے )
مشہور و معروف ادیب و شاعر ڈاکٹر عطا عابدی مظہر وسطوی کی شاعری کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

” مظہر وسطوی کے یہاں ذات و کائنات کے بنیادی حوالے ترجیحی نوعیت رکھتی ہیں ۔ انسانی ہمدردی ، انسانیت نوازی ، غیرت مندی ، دل و دوراں کے حوالے ، تلخ حقائق کی صورت گری ، اصلاحی شعار و شعور کی رو نمائ روایات کی حسین قدریں ، جمالیاتی فکر کی پیشکش اور عصر آشنا افکار ” پئے تفہیم ” کی شاعری کا خاصّہ ہیں ۔ "
اپنی تحریر کے آخری جملے میں عطا عابدی صاحب لکھتے ہیں ، ہمیں یقین ہے کہ ” پئے تفہیم ” کی پزیرائی شاعر کی
  فکر کو اور زیادہ بہتر انداز میں فنی اسلوب کے موثر و دلکش سانچے عطا کرے گی ۔ ” ( بیک کور سے )

          ” پئے تفہیم ” کے مطالعہ کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مظہر وسطوی کی شاعری صرف عشق و عاشقی ، پیار و محبت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے یہاں اخلاص و للہیت ، ہمدردی، انسانیت، اخلاقیات، زندگی کے نشیب و فراز ، غم و جدائ ، اسلامیات ان تمام پہلوؤں کو انہوں نے شعری جامہ پہنایا ہے ۔ میں دعا گو ہوں کہ ان کا شعری ذوق پروان چڑھے ۔ اور ان کی کتاب ” پئے تفہیم ” ہر خاص و عام میں مقبول ہو۔
یہ کتاب اردو ڈائرکٹیریٹ ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ ،پٹنہ کے مالی معاونت سے شائع ہوئی ہے۔ ١٩٢ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی کمپوزنگ احمد علی ،برلا مندر روڈ پٹنہ اور طباعت روشان پرنٹرس نئ دہلی کے ذریعہ ہوئ ہے ۔ شاعر نے اپنی اس کتاب کا انتساب نئ تشکیلات کے نمائندہ شاعر اور اپنے استاد محترم جناب قوس صدیقی کے نام کیا ہے ۔ جو ان کی سعادت مندی کی دلیل ہے ۔
اس کتاب کو ” بک امپوریم ” اردو بازار سبزی باغ پٹنہ ، دانش مرکز پھلواری شریف پٹنہ ، دفتر کاروان ادب حاجی پور ، تیغیہ کتاب منزل مہوا ویشالی ، اور نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی ویشالی سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button