بہارمضامینویشالی

علماء کرام انبیاء کے وارث ہیں ان کا احترام کیجئے

محمدامام الدین ندوی

مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی

مدارس دین کے قلعے ہیں۔ایمان کی سپلائی یہیں سے ہوتی ہے۔انسانی زندگی میں ایمانی حرارت انہیں مدارس سے پیدا ہوتی ہے۔مسلمانوں کی شناخت انہیں سے ہے۔ دین ودنیا کی کامیابی انہیں میں مضمر ہے۔مسلمانوں کےوجود کا یہ ضامن ہے ہے۔

ان مدارس کا اصل سر چشمہ صفۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ان کا سوتا وہیں سے ملتا ہے۔

ہم مسلمان ہیں۔ہمارے اندر دینی رمق باقی ہے تو اس میں مدارس کا کرداد اہم ہے۔یہ مدارس انسان کو صحیح معنوں میں انسان بناتے ہیں۔یہاں کھوٹے کو کھرا،کیا جاتاہے۔خام کو کندن بنایا جاتا ہے۔محبان وطن انہیں کارگاہ میں تیار کئے جاتے ہیں۔ سرفروشان وطن یہیں وجود میں آتے ہیں۔ان کی بقا امت کے ہر فرد پر لازم وضروری ہے۔ان کا انہدام امت مسلمہ کی تباہی و بربادی کا سبب ہے۔ان کی آبیاری،سرسبز و شادابی، میں ہی امت مسلمہ کی حیات پوشیدہ ہے۔ان مدارس کی بقا ہمارا بنیادی،وپیدائشی حق ہے۔

ہندوستان جیسے عظیم ملک میں مدارس کے جال بچھے ہیں۔یہ اس ملک اور یہاں کے مسلمانوں کی پہچان وخصوصیت ہے۔ ان کو بارآور و کارآمد بنانے کی ذمہ داری ہندوستان کے تمام شہری پر یکساں ہے۔جنگ آزادی میں ان مدارس کی قربانی لا ثانی ہے

علماء کرام انبیاءعلیھم السلام کے وارث ہیں۔نبوی علوم کے آمین ہیں۔ان مدارس کو چلانے کی ذمہ داری ان علماء ہی کے وناتواں کندھوں پر ہے۔یہ حضرات نئی نسلوں میں دینی غذا تقسیم کرنے کی فکر کرتے ہیں ۔نئی نسلوں کو ارتداد سے بچانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ۔زندگی کے عیش وطرب کو بالائے طاق رکھ کر، روکھی، سوکھی،غذا حلق سے نیچے اتار کر،ٹوٹی چٹائی پرمیٹھی نیند سوکر،اپنی اور اپنی اولادوں کی جائز خواہشات کو کچل کر مسلم معاشرے کے بچے،بچیوں،کو ارتدار سے بچانے کےلئے دردر کی خاک چھاب۔نتے ہیں۔

ان دنوں آسمان شرارے برسا رہاہے۔زمین توے کی مانند تپ رہی ہے۔گرم ہوا کے جھونکے جسم کو خشک کئے ہوا ہے۔لعاب دہن ختم ہوگیا ہے۔زبان وحلق سوکھے پتے کی مانند ہے۔تراوٹ ختم ہے۔ایسے میں ان مدارس کے خدام،و نائب رسول ہاتھوں میں بیگ لئے ،بوجھل قدموں سے اےسی میں بیٹھے اہل ثروت کے دروازے پر قدم رکھتے ہیں۔آواز بلند کرتے ہیں۔السلام علیکم، فلاں صاحب ہیں۔
آواز آتی ہے تھوڑی دیر بعد آئیے گا۔کل آئیے گا۔صاحب ابھی آرام فرما رہے ہیں۔بیچارہ مولوی مایوس لوٹتا ہے۔کل پھر جاتا ہے وہی سوال وہی جواب۔تھک کر چھوڑ دیتا ہے۔ تکلیف اس وقت زیادہ ہوتی ہےجب مولوی کو دیکھ کر دور سے ہی ہاتھ کے اشارے سے دھتکار دیا جاتا ہے۔بٹھانا تو دور کی بات۔بعض مخلص لوگ ہیں جو ٹال مٹول نہیں کرتے ہیں بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔۔کہیں گیٹ کے باہر بڑی لمبی لائن لگی ہے۔علماء دست بستہ کھڑے ہیں۔ان میں عام عالم بھی ہیں اور شیخ الحدیث بھی ہیں۔کہیں بورڈ لگا ہے نئے لوگ زحمت نہ کریں۔

علماء کی قدر کیجئے۔اگر آپ چند پیسوں سے ان کے مدرسے کا تعاون نہیں کرسکتے ہوں تو کوئی حرج نہیں پر میٹھا لب و لہجہ استعمال ضرورکیجئے۔ان کے ساتھ ٹال مٹول سے کام مت لیجئے۔جو دینا ہو دے دیجئے پر اس چلچلاتی دھوپ اور تپش میں انہیں مت دوڑائیے۔یہ آپ پر احسان کرتے ہیں۔آپ مالداروں کو مستحقین زکوت کو تلاش نے میں مدد کرتے ہیں۔آپ ٹھنڈے میں آرام کرتے ہیں۔یہ آپ کا کام آسان کرتے ہیں۔یقین جانئے جس دن یہ مدارس بند ہوگئے ہم سب کا وجود ختم ہوجائے گا۔ہم سب کی شناخت مٹ جائے گی۔اپنے علماء کا احترام کیجئے۔یہ نبی کے وارث ہیں ۔مدارس کا بھرپور تعاون کیجے۔یہ دین کے مضبوط ترین قلعے ہیں۔
۲۵رمضان ۱۴۴۳ھ
۲۷اپریل ۲۰۲۲ء
بروز بدھ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button