Uncategorized

چاند رات               { افسانہ }

تحریر :- طفر امام

      چاندرات کا ہنگامہ،عید کا شور اور بچوں کی کلیلیں تھیں، فضا خوش گوار اور ہر طرف چہل پہل کا سماں تھا،ہر سمت مَن موہن نظارے تھے،مہینہ بھر روزہ رکھ کر مرجھائے ہوئے چہرے دَمک اٹھے تھے،لوگ ایک دوسرے کے یہاں جا جا کر عید کی مبارکبادیاں دینے میں جٹے تھے، خوشیاں بٹ رہی تھیں،مسکراکٹیں رقص کناں تھیں۔

مگر ان ہنگاموں سے یکسر بے نیاز ہوکر لائبہ بالکنی میں جا کر اسی سمت کو تَکے جا رہی تھی جس سمت سے سالوں پہلے اس کی ویران زندگی میں بہار کے پھول کھلا دینے والا اس کی پہلی اور آخری محبت کا پیکر گزرا تھا،جس کے وجود سے اس کے جسم کا انگ انگ جڑا تھا،جس کی پہنائی ہوئی انگوٹھی آج تک اس کی انگلی میں اس کے نام کو جاوداں بخشی ہوئی تھی، اور ایک جوان و رعنا بیٹے کی شکل میں جس کی یادگار اب بھی اس کے آنچل تلے پروان چڑھ رہی تھی۔
     

رات کا ابتدائی پہر تھا،دن بھر کی گھمس کے بعد اب رات کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے کیف انگیز جھونکے مشام جاں کو فرحت بخش رہے تھے،ہواؤں کے نرم جھونکے جب لائبہ کی زلفوں کو اڑا کر اس کے رخساروں پر بکھیرتے تو لائبہ کو اپنے چہرے پر اسی لمس کا احساس ہوتا جسے برسوں پہلے ماضی نے اپنی آغوش میں سمولیا تھا،اس احساس کے آتے ہی لائبہ کی پلکیں بھیگ جاتیں،پرندوں کی نگری میں خاموشی پسری ہوئی تھی مگر اس وقت بھی بالکنی سے ذرا پرے ہی امرود کے درخت کی ایک ٹہنی پر بیٹھا ایک خوش نما بُلبُل اپنی دلنواز لَے میں چہچہا رہا تھا جیسے وہ لائبہ کے دل کی ترجمانی کرتے ہوئے کہہ رہا ہو۔
                            

  اے چاند
                 جب وہ تیری طرف دیکھیں
                      تو انہیں کچھ یاد دلانا
                   مدُھر سے کچھ گیت سنانا
                              اور کہنا
                   تمہیں کوئی یاد کرتا ہے
              تیری آرزو، تیری اُمید کرتا ہے
                        کوئی آج بھی
                تمہیں دیکھ کر عید کرتا ہے

        رات کے گزرتے لمحوں کے ساتھ لائبہ بھی اپنے تخیلات کی رَو میں بڑی تیزی کے ساتھ بہی چلی جا رہی تھی،آن کی آن میں ہی اس کے تخیلات کی رَو نے اسے اس دن سے ہم کنار کرادیا جب پہلی بار اس کی ملاقات بازار سے سامان خرید کر لوٹتے ہوئے شارع عام کے کنارے عارض سے ہوئی تھی،اور ابتدائی ہیلو ہائے کے بعد اس پہلی ہی ملاقات میں دونوں ایک دوجے کے دل کی گہرائیوں میں اتر گئے تھے،لائبہ نے تو کچھ زیادہ ہی عارض کو اپنے وجود میں سمو لیا تھا،چند ملاقاتوں کے بعد کس طرح دونوں نے لَو میرج کا پَلان بنایا تھا اور دور دیس جاکر دونوں نے شادی رچالی تھی۔
    

یہ بھی پڑھیں

عارض کو دل دے بیٹھنا اور اس کو اپنی روح کی گہرائیوں میں اتار لینا یہ لائبہ کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی، عارض کے بارے میں وہ نابلد تھی کہ وہ کس قماش کا انسان ہے، معاشرے میں وہ کس اسٹیٹس کا مالک ہے،اس کا اٹھنا بیٹھنا کن کن لوگوں کے ساتھ ہے،عارض جتنا اوپر سے وجیہ اور دلکش دِکھتا تھا وہ اندر سے اتنا ہی اخلاقی انارکی اور ذہنی گندگی کا شکار تھا، وہ کَلی کَلی کا بھونرا تھا،وہ اپنی مردانہ وجاہت اور دلبرانہ اداؤں سےمعصوم دوشیزاؤں اور نوخیز کلیوں کو بہت جلد دامِ عشق میں پھانسنے کا ہنر جانتا تھا،لائبہ سے پہلے وہ لائبہ جیسی کئی معصوم کلیوں کا رَس چوس چکا تھا۔
      مگر عارض کو اپنے دل کے نہا خانوں میں جگہ دے دینا یہ تنہا لائبہ کا ہی قصور نہ تھا بلکہ اس کے اس قصور میں وہ معاشرہ بھی برابر کا شریک تھا جس معاشرے میں اس کا گزر بسر ہوتا تھا،یہ وہ معاشرہ تھا جس نے اپنے اور سوتیلے کے درمیان ایک خط امتیاز کشید کر رکھا تھا،جو معاشرہ اپنوں کو تو پلکوں پر بٹھاتا تھا مگر سوتیلوں کےساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھتا تھا۔
      

لائبہ ابھی پاؤں چلنے کی عمر کو پہونچی ہی تھی کہ اس کی ماں کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا،اس کی ماں کا سایہ سر سے کیا اٹھا کہ اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے،باپ نے دوسری شادی کرلی،گھر میں سوتیلی ماں کے پہنچتے ہی نفرتوں کی شہنائی گونج اٹھی، سوتیلی ماں جسے سماج اپنی زبان میں ” ڈائن “ کے خطاب سے مخاطب کرتا ہے،لائبہ کی سوتیلی ماں سچ مُچ ڈائن ثابت ہوئی،اولِ دن سے ہی وہ معصوم لائبہ کے ساتھ خشونت بھرے لہجے سے پیش آنے لگی،معصوم لائبہ جب اپنی توتلی زبان سے ماں سے کوئی فرمائش کرتی تو اس وقت اس ماں کی سوتیلی رَگ پھڑک اٹھتی اور معصوم لائبہ کو اس انداز سے دھتکارتی کہ وہ سہم جاتی،جس عمر میں اسے پیار و محبت کی سیج پر سونا تھا اس عمر میں وہ نفرت و شقاوت کی چکی میں پِسنے لگی۔


   

چاند رات chaand raat

شروع میں بیوی کا یہ کُھردُرا لہجہ لائبہ کے باپ پر گراں گزرتا تھا،اور وہ کبھی کبھی دبے الفاظ میں اسے ڈانٹ بھی دیا کرتا تھا،مگر بیوی اس قدر گھاگھ اور عیار تھی اور اس کے دل میں سوتیلے رشتے کی نفرت اس حد تک بھری ہوئی تھی کہ اس نے شوہر کی بات پر کان دھرنے کے بجائے الٹا اسےبھی لائبہ پر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرنی شروع کردی، وہ اپنی اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوگئی،رفتہ رفتہ باپ کی نظریں بھی لائبہ سے پھرنے لگیں، اور جب اس بیوی سے اس کا پہلا بچہ پیدا ہوا تو اس کی توجہ لائبہ سے مکمل طَور پر ہٹ کر اپنے نویلے بچے پر مرکوز ہو کر رہ گئی،اب لائبہ کی حیثیت اس گھر میں ہاتھ کی چھٹی انگلی سے زیادہ کی نہ تھی،معصوم لائبہ سے تو سوتیلی ماں پہلے ہی سے خار کھائے بیٹھی تھی،اب جگرا باپ بھی سوتیلا جیسا بَن گیا۔
      

وقت ہواؤں کے زناٹوں کی طرح گزرتا چلا گیا،گزرتے وقتوں کے ساتھ لائبہ پر تشدد بھی بڑھتا گیا،لائبہ بچپنے کو بہت پیچھے چھوڑ کر جوانی کی دہلیز پر جا پہونچی،اس کی جوانی قدرت کی حسین شاہکارتھی،قدرت کی کاریگری اس کے سر و قد سے خوب جھلکتی تھی،وہ بچپنے کے خول سے یوں کھِل کر نکلی جیسے کوئی کَلی شاخوں سے پھوٹ نکلتی ہے،ایک دم گداز اور لوچدار،مگر لائبہ کی مصیبت ہنوز جوں کی توں برقرار رہی،بلکہ اور بڑھ گئی،اس کی اٹھتی ہوئی جوانی کو بوجھ سمجھا جانا یہ اس گھر کا ایک اضافی مسئلہ بن گیا۔
     اس بیچ لائبہ کے اور بھی کئی سوتیلےبھائی بہن پیدا ہوئے، لائبہ کی سوتیلی ماں اور اس کے باپ نے اسے اس گھر میں اپنے بچوں کی خدمت گاری کے لئے برداشت کئے رکھا،ورنہ تو کب کا ہی وہ اسے دھکے دے کر راندۂ در کردیتے،لائبہ  پیار کو ترس گئی،اس کے کان محبت کے دو بول سننے کو سراپا انتظار بن گئے،اس کا دل اس وقت خوب چرک اٹھتا اور آنکھیں درد سے چٹخ اٹھتیں جب اس کا باپ اپنے دوسرے بچوں کے لئے بازار سے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے رنگ برنگ سامان تو لاتا مگر لائبہ کی طرف نظر التفات تک نہ کرتا۔
    

  اور پھر ایک دن لائبہ کی سوتیلی ماں لائبہ سے یہ کہہ کر اپنے بچوں سمیت سیر کے لئے نکل گئی کہ ” بازار سے فلاں فلاں سامان لا کر رکھنا “ لائبہ کا دھیان اپنی سوتیلی ماں کے حکم کی طرف سے دوسری طرف بٹ گیا،وہ بروقت سامان نہ لا سکی کہ سوتیلی ماں گھر آ پہونچی،آتے ہی اس نے لائبہ سے سامان کا پوچھا،تب جاکر لائبہ کو یاد آیا،اپنی سوتیلی ماں کے سوال سے ہی وہ اندر سے لرز اٹھی،اس کے چہرے کا رنگ فَق ہوگیا،زبان توتلاگئی،سوتیلی ماں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اس کے بالوں کی لٹوں کو پکڑ کر اس زور سے جھٹکا دیا کہ لائبہ تیورا کر زمین پر گر پڑی،وہ سوتیلی ماں کے پاؤں پڑگئی اور معافی مانگنے لگی،مگر سوتیلی ماں کو اس پر ذرہ برابر بھی رحم نہ آیا،وہ اندر گئی اور زنبیل لاکر لائبہ کے سامنے پٹخنے کے انداز سے رکھ کر پُھنکار کر کہنے لگی ” اگر خیریت چاہتی ہے تو جلدی بازار سے جا اور سامان لے آ“ لائبہ اٹھی اور لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ بازار کی طرف نکل گئی۔
     

  بازار سے اس نے مطلوبہ سامان خریدے اور سامان سے بھری زنبیل اٹھائے وہ شارعِ عام کے کنارے اپنی سوچ میں مستغرق قدم بڑھائے چلی جا رہی تھی،اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دھارے بڑی تیزی کے ساتھ ہمک ہمک کر اس کے رخساروں کو دھو رہے تھے،آنسوؤں کی روانی میں اس کی یادوں کی کشتی اسے کچھ پَل کے لئے اس کی ماں کی گود میں سلا آئی تھی،وہ تصور کی آنکھوں سے اپنی ماں کے چہرے کو دیکھ رہی تھی،اس کے ہاتھوں کے پیار بھرےلَمس اپنے وجود پر محسوس کر رہی تھی اور اپنی پیشانی پر اس کے راحت آگیں بوسوں کا گدازمحسوس کرکے سرشارہورہی تھی، پھر جب اسے اس شارعِ عام کے کنارے یہ احساس ہوتا کہ  یہ لمس اور بوسے سوائے سراب کے کچھ نہیں تو وہ وہیں کھڑے کھڑے زور زور سے رونا چاہتی تھی مگر جانتی تھی کہ رونے سے کوئی فائدہ نہیں،بس چند راہ گیر پاس آئیں گے اوراس کی بےچارگی پر چند آہیں بھر کر واپس چلے جائیں گے۔
     

وہ اپنے انہی خیالات میں گم چلی جارہی تھی کہ پیچھے سے  ایک آواز نے اس کے بحرِ خیال میں جیسے کنکری مار دی ہو، وہ اپنے خیالوں کے سحر سے باہر نکل آئی،پیچھے مڑکر دیکھا تو وہاں ایک خوبرو اور سجیلے نوجوان کو مسکراتا ہوا پایا،لائبہ کچھ دیر کے لئے اس کے وجود میں کھوگئی،اس کی آواز میں سمندر جیسی جو مٹھاس تھی اس نے لائبہ کے پیروں میں زنجیر ڈال دئے،چاہتے ہوئے بھی اس کے قدم نہ اٹھ سکے، نوجوان نے آگے بڑھ کر لائبہ کے سامنے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا” مجھے عارض کہتے ہیں،اور آپ؟“عارض کے اس پیار بھرے سوال میں لائبہ کو وہ چیز نظر آئی جس کی وہ برسوں سے متلاشی تھی،اسے یوں لگا جیسے دنیا جہان کا پیار اطراف عالم سے سمٹ کر اس میں سمو گیا ہو،یہ سوال جہاں اسے اپنے ہونے کا احساس دلا گیا وہیں زندگی میں پہلی بار اسے لگنے لگا کہ پیار کا ذائقہ کیا ہوتا ہے،وہ تو برسوں سے پیار کو یوں ترسی ہوئی تھی جیسے کوئی پنچھی پنجرے میں قید آزادی کی فضا کو ترسا ہوا ہوتا ہے،لائبہ کے ہونٹوں سے سرگوشی نکلی ” لائبہ “ ۔
    

   یہ تھی وہ ملاقات جو لائبہ کی زندگی کی نئی شروعات کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی،اس کے بعد لائبہ کے دن آنکھوں میں عارض کی تصویر بسائے گزرنے لگے،کئی رومانس بھری ملاقاتوں کے بعد ہی پیار کی ترسی ہوئی لائبہ نے عارض کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا،اپنے ساتھ ہورہے سوتیلی ماں اور سگے باپ کے ظلم و ستم کی داستان اسے سنا ڈالی،اور اپنے انجام سے بے خبر عارض سے کہنے لگی ” عارض!اگر تم مجھے اس جہنم سے نجات دلا دو تو میں ساری زندگی تمہارے قدموں میں سر رکھ کر گزار دوں گی “ عارض جیسے اسی کے لئے تیار بیٹھا تھا،فورا کہنے لگا، ”کیوں نہ ہم دونوں یہاں سے کافی دور ایک الگ دیس میں جاکر اپنا گھر بسائیں جہاں ہماری خوشیوں میں کوئی رخنہ ڈالنے والا نہ ہو،ہم پھولوں کی طرح مہکتے اور پرندوں کی طرح چہکتے ہوئے اپنے دن بتائیں،جہاں کبھی ہماری خوشیوں کی نہ شام ہواور نہ غموں کی صبح۔
   

   اس کے بعد کئی رومانس بھری ملاقاتیں اور ہوئیں اور ایک دن دور دیس جاکر دونوں نے لَو میرج کر لی،شادی کے بعد دونوں کے دن خوشیوں کے ساتھ گزرنے لگے،عارض نے ایک پرائیوٹ فرم میں نوکری کرلی،دیکھتے ہی دیکھتے شادی کے دو سال ہوگئے،دو سال بعد پہلی بار لائبہ کی گود ہری ہوئی اور ایک چاند جیسے بچے کی آمد نے ان کی خوشیوں میں چار چاند لگادئے،لائبہ مکمل طَور پر اپنے ماضی کے دُکھ بھول کر نئی زندگی میں مَگن ہوگئی۔
    

بچہ کی آمد نے گھر کے خرچ میں اضافہ کردیا،پرائیوٹ نوکری میں عارض کی تنخواہ اتنی تھی نہیں کہ گھرکےکرائے، راشن اور دیگر گھریلو اخراجات کے ساتھ بچے کی ناز برداریوں کو بھی برداشت کر پاتی،ایک سال اور گزرے کہ اپنی قلتِ تنخواہ سے پریشان عارض نے ایک دن لائبہ سے کہا کہ ” لائبہ! کیوں نہ میں کچھ سالوں کے لئے باہر چلا جاؤں،اس تنخواہ پر گزارہ مشکل ہورہا ہے،پھر خدا نے چاہا تو ڈھیر سارے پیسے اکٹھے کر کے ہم اپنا الگ گھر بنائیں گے جس میں تم زندگی بھر رانی بن کر رہوگی اور ہمارا بچہ شہزادہ“۔
      

  عارض کے اس وِچار کو سن کر لائبہ کو یوں لگا جیسے کسی نے اس کے اندر سے دل نکال لیا ہو،اس کے وجود سے پیار کا پَودا جڑ سے کاٹ دیا ہو،برسوں پیار کے لئے ترسنے کے بعد تو اسے تھوڑا سا پیار ملا تھا اب وہ بھی جدا ہونے کی تیاری کر رہا تھا،جدائیگی کے تصور سے ہی وہ لرز اٹھی،وہ روہانسی ہوگئی،عارض نے اس کے رخسار تھپکتے ہوئے کہا ” گھبراؤ نہ لائبہ بہت جلد میں واپس آؤں گا،تمہاری خاطر ہی تو جا رہا ہوں،بات بھی معقول تھی اس لئے لائبہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس جدائیگی کے لئے تیار ہوگئی۔
       

اور پھر ایک دن وہ آیا جب عارض گاڑی پر سوار لائبہ اور اپنے ننھے بچے کو الوداع کہہ رہا تھا،لائبہ آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ اسے ٹَکر ٹکر دیکھے جا رہی تھی،جذبات کی شدت نے اس کی زبان گنگ کردی تھی،وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کہہ کچھ بھی نہیں پارہی تھی،اس کے ہونٹوں پر خموشی نے پہرے لگادئےتھے،پھر عارض کی گاڑی اسٹارٹ ہوئی اور لائبہ کے آنسوؤں کی اوٹ میں غائب ہوگئی۔
      

شروع شروع میں عارض گھر سے باہر جاکر پابندی سے لائبہ سے باتیں کرتا رہا اور ہر ماہ لائبہ کے نام باقاعدہ منی آرڈر بھیجتا رہا،مگر رفتہ رفتہ باہر کی رنگا رنگ اور گلیمر دنیا کو دیکھ کر وہ مبہوت ہوگیا،ادھر اس کی بھنورا والی رگ بھی بیدار ہو اٹھی،شاید لائبہ سے اس کا دل بھر چکا تھا،وہ اب کسی دوسری نو شگفتہ کلی کا رَس چوسنا چاہتا تھا،سو اس نے آہستہ آہستہ لائبہ کو فون کرنا کم کردیا،پہلے منی آرڈر ہر ماہ بھیجا کرتا تھا اب دو مہینے تین مہینے میں بھیجنے لگا۔
     

دیکھتے ہی دیکھتے اسے گھر سے باہر نکلے ایک سال ہوگئے، ادھر عارض کا رویہ دیکھ کر لائبہ کو کچھ کچھ تشویش ہونے لگی،اس کی چھٹی حس نے اس کے کانوں میں سرگوشی کی ” شاید کچھ اتھل پتھل ہونے والا ہے“ اس خیال کے آتے ہی اس کا دل دھڑکنے لگتا،ایک سال پورا ہونے کے بعد لائبہ نے عارض سے کہا ” دیکھو جی!میں روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لوں گی،مگر اب تمہاری جدائی برداشت نہیں کرسکتی،اس جہاں میں میرا تیرے سوا اور ہے ہی کون؟ اور اگر تم بھی مجھ سے یوں سالوں سال بچھڑے رہوگے تو میں کسے دیکھ کر جیوں گی،بہت ہوا تم اب گھر لوٹ آؤ مجھے پیسوں کی نہیں تمہاری ضرورت ہے“عارض نے جواب دیا،بس کچھ دن اور جانی،اس بار کی چاند رات کو میں لوٹ آؤں گا،اور پھر کچھ سالوں تک عارض اپنے آنے کو اگلی چاند رات تک ملتوی کرتا رہا،سالوں گزر گئے مگر عارض کو نہ آنا تھا نہ آیا۔
      

چند سال اور گزرے تو عارض نے مکمل طور پر لائبہ اور اپنے بچے سے ناطہ توڑ لیا،لائبہ کے کان عارض کی آواز سننے کو ترس گئے،آہیں،آنسو اور درد اس کی زندگی میں ایک بار پھر لوٹ آئے،اس کا درد اس وقت فراواں ہوجاتا اور آنسوؤں کی جھڑیاں لگ جاتیں جب اس کا بچہ اس سے پوچھتا ” ماں میرے ابو کب واپس آئیں گے“ اس وقت اس کے پاس کوئی معقول جواب نہ ہوتا سوائے آنسو بہانے اور اپنے بچے کو دلاسہ دینے کے۔
     

عارض نے تو لائبہ سے ناطہ توڑ لیا مگر لائبہ عارض کی محبت سے دستبردار نہ ہوسکی،اس کے دل میں عارض کی محبت کی جل رہی جَوت کسی طور مدھم نہ ہو پائی،سالوں بیت گئے،لائبہ بڑھاپے کی عمر کو پہونچ گئی،اس کا بیٹا بھرپور جوان ہوگیا،مگر اس کا یہ معمول بنا رہا کہ جب بھی چاند رات آتی وہ رات کے پہلے پہر ہی بالکنی پر جا بیٹھتی اور ٹَکر ٹکر اس راہ کو تکتی رہتی جس راہ سے آخری بار عارض کا گزر ہوا تھا اور ہر بار ناکام و نامراد لوٹ آتی۔
     

اس چاند رات بھی وہ عید کے تمام ہنگاموں سے بے خبر بالکنی پر جا بیٹھی تھی،اور اس راہ کو تَکے جا رہی تھی،وہ دل ہی دل میں اس دن کو کوسے جارہی تھی جس نے اس سے اس کے عارض کو چھین لیا تھا،چاند رات کا چاند اپنی مختصر سی جھلک دکھلانے کے بعد کب کا ہی افق کی اوٹ میں چھپ چکا تھا،رات اب اپنے آخری پہر میں داخل ہوچکی تھی، پرندے اب تک اپنے آشیانوں میں پڑے سو رہے تھے،اس خوش نما بُلبل کی خوش نوائی بھی خاموش تھی جو رات کے ابتدائی پہر امرود کی ٹہنی پر بیٹھ کر چہچہا رہی تھی،لائبہ کا انتظار ایک بار پھر دَم توڑ گیا،اس کے سینے سے ایک درد انگیز آہ نکلی جس نے اس کی آنکھوں سے آنسو نکال کر اس کے رخساروں پر ڈھلکا دئے۔
   
                                    ظفر امام، کھجورباڑی
                                   دارالعلوم بہادرگنج
                              ۳۰/رمضان ؁۱۴۴۳ھ
       

یہ بھی پڑھ سکتے

قومی ترجمان کا ٹیلیگرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button