گیتانجلی شری "Gitanjli Shree” کو مبارکباد
ہندوستان کی علمی اور ادبی حلقوں میں خوشی کی لہر ہے۔ گیتانجلی شری اپنے ہندی زبان میں لکھے گئے ناول ’ریت سمادھی‘، جس کا انگریزی میں ترجمہ ’ٹومب آف سینڈ‘ کے نام سے کیا گیا، کے لیے بین الاقوامی بکر پرائز حاصل کرنے والی پہلی ہندوستانی شہری بن گئی ہیں۔
گیتانجلی شری کی یہ کتاب ایک 80 سالہ خاتون کی اپنے شوہر کی موت کے بعد 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے دوران کہانی پر مبنی ہے۔ یہ ہندی زبان کی پہلی کتاب تھی جسے 50,000 پاؤنڈز کے انعام کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ امریکی مترجم ڈیزی راک ویل نے کیا تھا۔
بھارت کی مشہور مصنفہ گیتانجلی شری کا ترجمہ کردہ ہندی ناول ‘ٹامب آف سینڈ’ کو انٹرنیشنل بکر پرائز 2022 سے نوازا گیا ہے، یہ ہندی زبان میں لکھی جانے والی پہلی کتاب بن گئی ہے جسے 2022 کے انٹرنیشنل بکر پرائز سے نوازا گیا ہے۔ دراصل ہندی زبان میں ‘ریت سمادھی’ کے نام سے شائع ہوئی، کتاب کا انگریزی میں ترجمہ ڈیجی راک ویل نے کیا ہے۔ اس موقع پر گیتانجلی شری نے کہا کہ :
یہ کتنی بڑی پہچان ہے، میں حیران، خوش اور عاجز ہوں۔ میں نے کبھی بکر کا خواب نہیں دیکھا، کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کر سکتی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بکر پرائز ملنے کے بعد یقیناً یہ کتاب مزید بہت سے لوگوں تک پہنچے گی۔ ‘ٹامب آف سینڈ’ 13 طویل فہرست والے ناولوں میں سے ایک تھا جس کا 11 زبانوں سے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا تھا۔
ایوارڈ یافتہ کتاب ایک 80 سالہ خاتون کی کہانی بیان کرتی ہے جو اپنے شوہر کی موت کے بعد شدید ڈپریشن میں چلی جاتی ہے۔ آخر کار وہ اپنے افسردگی پر قابو پاتی ہے اور تقسیم ہند کے دوران اپنے پیچھے چھوڑے ہوئے ماضی کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔
جب بکر پرائز کے لیے نامزد کتابوں کی فہرست جاری کی گئی تو ججوں نے اس ہندی ناول کے بارے میں کہا کہ گیتانجلی شری کی اختراعی، پرجوش ریت سمادھی ایک 80 سالہ خاتون کی زندگی اور حیران کن ماضی کو مسلسل بدلتے ہوئے تناظر اور ٹائم فریم میں بیان کرتی ہے۔ ڈیجی راک ویل کا ترجمہ ناول کے متن کو مزید آسان بناتا ہے۔ یہ ایک شاندار اور منفرد ناول ہے۔مزید پڑھیں :
گیتانجلی شری کی پیدائش اترپردیش کے مین پوری میں ہوئی اور فی الحال وہ نئی دہلی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے تین ناول اور مختصر کہانیوں کے کئی مجموعے لکھے ہیں، جن میں سے بہت سے انگریزی، فرانسیسی، جرمن، سربیائی اور کورین زبانوں میں ترجمہ کیے گئے ہیں۔ ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے کے بعد انہوں نے کہا کہ لکھنا بذات خود ایک انعام ہے، لیکن بکر جیسی خصوصی پہچان ملنا ایک شاندار بونس ہے۔
گیتانجلی نے انعام وصول کرنے کے بعد اپنے پیغام میں کہا :
’میں نے کبھی بُکر کا خواب نہیں دیکھا، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں کر سکتی ہوں۔ یہ کتنی بڑی پہچان ہے۔ میں حیران، خوش، اور عاجز ہوں۔
انہوں نے مزید کہا :
’میرے اور اس کتاب کے پیچھے ہندی اور دیگر جنوبی ایشیائی زبانوں میں ایک بھرپور اور پھلتی پھولتی ادبی روایت ہے۔ عالمی ادب ان زبانوں کے چند بہترین ادیبوں کو جاننے کے بعد زیادہ مستفید ہوگا۔‘
ججوں کے پینل کے سربراہ فرینک وائن نے کہا کہ انہوں نے اس سے پہلے ’ٹومب آف سینڈ‘ جیسا کچھ نہیں پڑھا تھا۔ انہوں نے کہا: ’اس میں ایک جوش و خروش، ایک زندگی، ایک طاقت اور ایک جذبہ ہے۔
آن لائن خبر کا اعلان کرتے ہوئے بُکر تنظیم نے کہا: ’ہمیں یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بکر انٹرنیشنل پرائز برائے 2022 کا فاتح گیتانجلی شری کا ناول ’ٹومب آف سینڈ‘ ہے۔‘ گیتانجلی شری نے پانچ دیگر فائنلسٹ کو شکست دی جن میں پولینڈ کی نوبیل انعام یافتہ اولگا ٹوکارچوک، ارجنٹائن کی کلاڈیا پینیرو اور جنوبی کوریا کی مصنف بورا چنگ کو جمعرات کو لندن میں ایک تقریب میں انعام سے نوازا گیا۔ انٹرنیشنل بک پرائز جیتنے والوں کو پچاس ہزار برطانوی پاؤنڈ کی رقم دی جاتی ہے اس بار یہ رقم مصنفہ اور مترجم میں تقسیم ہو جائے گی۔
اس سال گیتانجلی کے ناول کے علاوہ دیگر پانچ کتابوں کو مقابلے کے لیے منتخب کیا گیا تھا، جن میں ادب کی نوبیل انعام یافتہ پولش خاتون ناول نگار اولگاتو کار چوک کی تصنیف بھی شامل تھی۔
مقابلے کی جیوری کے سربراہ فرینک واینر نے آن لائن کانفرنس میں ناول کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی تخلیق ہے۔ جسے ججز کی غیرمعمولی تعداد نے انعام کا حقدار قرار دیا۔ ناول کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ناول تقسیم کے موضوعات پر میرے مطالعے میں آنے والے تمام ناولوں سے مختلف ہے۔
ہندی زبان کا ناول’ریت سمادھی‘ وہ پہلا ہندی زبان کا ادب پارہ بن گیا ہے، جسے انٹرنیشنل بکر پرائز دیا گیا ہے۔ سرخ و سیاہ لباس میں ملبوس مصنفہ گیتانجلی شری جب سٹیج کی طرف بڑھ رہی تھیں، تو نئی تاریخ رقم ہو رہی تھی۔
گیتانجلی شری کے ساتھ سبز لباس زیب تن کیے ڈیزی راک ویل بھی موجود تھیں، جنہوں نے ریت سمادھی کو ہندی سے انگریزی میں ‘ٹومب آف سینڈز‘ کے نام سے منتقل کر کے یہ سنگ میل عبور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
جیوری کے سربراہ فرینک وائن نے کہا کہ ٹومب آف سینڈز کو ‘بھرپور بحث‘ کے بعد ‘کثرت رائے‘ سے اس سال کے انٹرنیشنل بکر پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس سے پہلے انہوں نے اس ناول جیسا کچھ نہیں پڑھا تھا۔
لندن میں یہ اعزاز وصول کرتے ہوئے گیتانجلی شری نے کہا، ”میں نے کبھی بُکر پرائز کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا، میں نے کبھی سوچا تک نہ تھا کہ میں (یہ اعزاز حاصل) کر سکتی ہوں۔ کیسا عظیم اعتراف ہے یہ!‘ انہوں نے اپنی حیرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس عزت افزائی پر جیوری کا خصوصی شکریہ بھی ادا کیا۔آپ کی معلومات کے لیے بتاتے چلیں کہ اس کیٹیگری کا اعلان جون 2004 میں مین بکر پرائز کی طرف سے کیا گیا تھا، جو کہ فکشن کے لیے ایک بہت اہم ادبی انعام ہے، 2005 سے 2015 تک ہر دوسرے سال ایسے کسی مصنف کو دیا جاتا ہے ۔ جن کی تصنیف انگریزی یا انگریزی ترجمے کی شکل میں آسانی سے دستیاب ہوں ۔ چونکہ مین بکر پرائز دولت مشترکہ کے ممالک، آئرلینڈ اور زمبابوے تک محدود تھا، اس لیے اس بین الاقوامی انعام نے دیگر بین الاقوامی مصنفین کے لیے ایک نئی کھڑکی کھول دی۔ مین بکر پرائز: برطانوی مصنفہ ہیلری مینٹل کے نام پر
یہ ایوارڈ دیتے وقت مصنف یا مصنفہ کی ‘مسلسل تخلیقی صلاحیت، ترقی اور عالمی سطح پر افسانوی ادب میں مجموعی شراکت‘ مدنظر رکھی جاتی تھیں۔
2016ء میں انٹرنیشنل بکر پرائز کے ضوابط میں چند بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ یہ ایوارڈ سالانہ اور مجموعی کام کے بجائے ایک کتاب تک محدود کر دیا گیا۔ اب ضروری تھا کہ کتاب کی اصل زبان انگریزی نہ ہو، بلکہ یہ کسی بھی دوسری زبان سے انگریزی میں منتقل شدہ ہو، جس کی اشاعت برطانیہ یا آئرلینڈ میں ہوئی ہو۔ 2016ء سے جنوبی کوریا، اسرائیل، پولینڈ، عمان، نیدرلینڈز اور فرانس کے مصنفین بالترتیب یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے۔ اب اسی فہرست میں گیتانجلی شری نے بھارت کا نام روشن کیا ہے، جو پورے جنوبی ایشیا کے لیے فخر کی بات ہے۔
گیتانجلی شری کا ناول ریت سمادھی
سات سے آٹھ سال تک کی طویل محنت اور مسلسل لگن کے بعد یہ ناول ہندی میں پہلی بار 2018 میں سامنے آیا۔ ادبی ہنگامی خیزی سے نسبتاً الگ تھلگ رہنے والی گیتانجلی شری تب اپنی مترجمہ ڈیزی راک ویل کے نام تک سے واقف نہ تھیں۔ جب ڈیزی نے ابتدائی طور پر چند صفحات ترجمہ کر کے بھیجے، تو انہیں بہت اچھا لگا کہ اس ترجمے میں ان کی تصنیف کی ‘روح‘ برقرار تھی۔
اپنے تازہ ترین انٹرویو میں گیتانجلی شری کہتی ہیں، ”ہمارے ارد گرد ایسے بے شمار بوڑھے افراد موجود ہوتے ہیں، جو بظاہر ایک کونے میں بیٹھ کر موت کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول، ”ایسے کسی انسان کی بیزاری نے میرے اندر تجسس بیدار کیا کہ آیا یہ بیزاری کسی نئے وابستگی کا پیش خیمہ تو نہیںِ‘‘ بہت سی چیزیں پہلے سے ان کے اندر چل رہی تھیں کہ یہ امیج وہ تحریک ثابت ہوا، جس کے بعد انہوں نے ریت سمادھی لکھا۔یہ کہانی برصغیر کی تقسیم سے گزرتے ہوئے انسانی تعلقات، انسان اور کائنات کی مبہم کشمکش اور سماجی سطح پر قابل قبول اور ناقابل قبول رشتوں کی کہانی ہے۔
پولینڈ کی نوبل انعام یافتہ ادیبہ اولگا ٹوکارچوک، ارجنٹائن کی کلاؤڈیا پینیرو اور جنوبی کوریا کی مصنفہ بورا چنگ کو آخری مرحلے میں پیچھے چھوڑنے والی گیتانجلی شری کا ناول ٹومب آف سینڈز مقامی ثقافت کے مٹتے نقوش کو صفحات میں قید کرنے کی لازوال کوشش ہے جس کے چمک بین الاقوامی سطح پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔
بھارتی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی 65 سالہ گیتانجلی شری اب تک پانچ ناول اور کئی افسانے تحریر کر چکی ہیں لیکن ادبی منظر نامے پر ان کی بھرپور انٹری ‘مائی‘ سے ہوئی۔ یہ ناول ہندوستان کے مٹتے ہوئے مقامی رنگوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اس کا مرکزی کردار ایک خاموش طبع اور سر جھکا کر جینے والی ایک گھریلو خاتون ہے۔ مائی کے دو بچے سبودھ اور سونینا نئی نسل کا روپ اور روایتی ہندو گھرانے میں بغاوت کی آواز ہیں، جو مائی میں خاندانی بندشوں کے خلاف کوئی شعلہ بیدار نہیں کر سکتیں۔
معروف ادیب انتظار حسین کو مائی پڑھ کر سیتا جی یاد آئیں۔ وہ مائی کو سیتا جی کی طرح ‘ہندو تہذیب کی آدرشی عورت‘ کے طور پر دیکھتے تھے۔ان کے بقول ‘ہندو تہذیب نے جو نسوانی آدرش کا خواب دیکھا تھا، اس کا جلوہ اسے سیتا جی کی ذات میں نظر آیا۔ سو ہندو تہذیب میں جہاں جہاں عورت اس آدرش سے لگاؤ کھاتی نظر آئے گی، وہاں سیتا جی کی طرف دھیان بھی جائے گا۔‘‘
گیتانجلی شری کی ایک پہچان بطور نقاد بھی ہے، جس میں ان کی توجہ کا مرکز پریم چند ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ‘دو دنیاؤں کے درمیان: پریم چند کی فکری سوانح حیات‘ لکھی بلکہ پریم چند کے کام کو صنعتی، اقتصادی اور سماجی تاریخ کے آئینے میں پرکھنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم گیتانجلی شری کا بنیادی میدان فکشن ہی ہے، جس میں انہوں نے تازہ ترین معرکہ سر کیا ہے۔
آج اردو کی ادبی دنیا بشیر عنوان کی خاص طور پر ممنون نظر آئی کہ انہوں نے اس وقت گیتانجلی شری کو ‘مائی‘ کے ترجمے سے اردو قارئین میں متعارف کروایا، جب انہیں انٹرنیشنل بکر پرائز ملنے کا دور دور تک کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ مائی اردو میں کیسے ترجمہ ہوا، یہ بھی اپنی جگہ ایک دلچسپ قصہ ہے۔ دراصل انتظار حسین نے اس ناول کو ہندی میں پڑھا اور ابھی ختم ہی کیا تھا کہ آصف فرخی ان کے پاس آ پہنچے تھے۔ انتظار صاحب کے بقول،
”میں نے ان (آصف فرخی) سے کہا کہ تم ہندی فکشن کے بہت گن گاتے رہتے ہو۔ ذرا یہ ناول پڑھ کر دیکھو۔ اس عزیز نے کمال کیا۔ خاموشی سے اپنے بیگ میں رکھا اور کراچی چلا گیا۔ چند مہینوں کے بعد مجھے اس کی طرف سے ایک مسودہ موصول ہوا۔ یہ ناول کا اردو روپ تھا۔‘‘
یہ روپ بشیر عنوان نے دیا، جن کے بقول دونوں زبانوں کا بنیادی فرق سنسکرت اور عربی و فارسی تھا۔ وہ کہتے ہیں، ”سنسکرت آمیز زبان تقریباً پندرہ فیصد کے قریب تھی جسے اردو میں ڈھالتے ہوئے اچھی خاصی محنت کرنا پڑی۔‘‘ امید ہے کہ بہت جلد کوئی اشاعتی ادارہ یہ تہذیبی ذمہ داری ادا کرے گا۔ گیتانجلی شری کا ہر وہ قاری جس نے مائی پڑھا ہے، وہ ریت سمادھی کو بھی جلد از جلد اردو میں پڑھنے کے لیے بے قرار ہے ۔