محمد امام الدین ندوی
مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی
اسلام نے مردوزن کے لئے میدان عمل الگ الگ بنایاہے۔ان کے دائرۂ کارالگ ہیں۔ان کی ذمے داریاں بھی الگ ہیں۔جو کام مرد بہ سہولت انجام دے سکتے ہیں خواتین بہ مشکل بھی اسے انجام نہیں دے سکتیں ہیں۔اسی طرح جوکام خواتین انجام دے سکتی ہیں مرد اسے انجام نہیں دے سکتے ہیں۔
اللہ تعالی نے اندرون خانہ کی ذمےداری خواتین کے سپرد کی ہے اور بیرون خانہ کی ذمہ داری مردوں کے حوالے کیاہے۔مردلوازمات زندگی باہر سے گھر لاتا ہے اور خواتین انہیں گھر کا زینت بناتی ہیں۔مرد اہل و عیال کی خوشی،عیش و عشرت کےلئے دردر کی خاک چھانتا ہے
مختلف جتن کرتاہے۔روپے اکٹھے کرتاہے۔خواتین باحفاظت اس سے خانگی امور انجام دیتی ہیں۔مرد گھر کے باہر کا ذمہ دار ہے تو خواتین اندرون خانہ کی ملکہ ہیں۔
گھر کی خواتین بیدار ہونے سے لیکر سونے تک مختلف کاموں میں مگن رہتی ہیں۔انہیں فرصت نہیں ملتی ۔امورباورچی خانہ،کی ذمہ داری بہت بڑی ذمہ داری ہے۔یہ انہیں کے بس کا روگ ہے۔آنکھ کھلتے ہی چائے کی فرمائش پوری کرنا۔برتن کی صفائی کرنا۔بچوں کو اسکول جانے میں تاخیر نہ ہو۔اس کی فکر کرنا۔ انہیں وقت سے پہلے تیار کرنا۔ان کونہلانا۔کپڑے تبدیل کرنا۔گندے کپڑے کی صفائی،دھلائی کرنا۔ان کے لئے ناشتہ تیار کرنا۔ناشتہ کرانا۔ٹفن تیار کرنا۔انہیں مکتب،یا اسکول روانہ کرنا۔گھر کے دیگر افراد کے لئے ناشتہ تیار کرنا ۔انہیں کھلا،پلا،کر دفتر کے لئے ٹفن کے ساتھ رخصت کرنا۔دھوبن کی طرح کپڑے کے گٹھر کو دھلنا ان پر پریس(آئرن)کرنا۔اسے محفوظ جگہ رکھنا۔دوپہر کا کھانا بنانا گھر کے دیگر افراد کو کھلانا۔جوٹھے برتن کی صفائی کرنا۔بچوں کے اسکول سے واپسی پر ڈریس تبدیل کرنا۔انہیں کھلانا۔اسی میں چھوٹے بچوں کی مکمل دیکھ بھال کرنا۔ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا۔ہر گھنٹے پر چائے کی فرمائش پوری کرنا۔کھانا پکانے میں بھی مریض اور غیر مریض کا خیال رکھنا۔صبح و شام گھر میں جھاڑو پونچھا کرنا۔آنے جانے والوں کا خاص خیال رکھنا۔اس کے باوجود بال بچوں کے نخرے برداشت کرنا۔ان کے مطالبات پورے کرنا۔گھر کے بڑے بزرگ کی قدر کرنا بے وقت ان کی فرمائش کا بھی خیال رکھنا۔
آج دال،یاسبزی میں نمک تیز ہے۔یہ تو پھیکا ہے۔روٹی جلی ہے۔چاول تھوڑا کچا ہے۔اس میں مرچ تیز ہے۔یہ بہت کھٹا ہے۔اس طرح کے عیب اور نقص کو بیچاری ممتا کی ماری سہتی رہتی ہے ۔زبان پر شکایت نہیں لاتی ہے۔یا پلٹ کر جواب نہیں دیتی ہیں۔جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا دل چاہا تو کھایا ورنہ چپ چاپ چھوڑ دیا۔”ماعاب رسول اللہ طعاما قط اذا اشتہی اکل والا فلا”
شام ڈھلتی ہے۔ہلکے ناشتہ اور چائے کا انتظام کرتی ہیں۔پھر رات کے کھانے کے انتظام میں لگ جاتی ہیں۔کھانا تیار کرنا پھر سب کو کھلا پلا کر بستر جھاڑ کر سب کو سلاتی ہیں۔دروازہ بند ہوا کہ نہیں اس کی بھی فکر رہتی ہے۔اگر ساس زندہ ہے اور روایتی قسم کی ہے تو اس کی قیامت خیز طعن وتشنیع کو برداشت کرنا۔ان کے تمام مطالبات کی تکمیل کے بعد بھی بلا وجہ کی ان کی جھرکیوں کو سہنا اور برداشت کرنا۔نند کی منہ پھلی،کو دیکھ کر اندر ہی اندرگھلنا۔شوہر اور خسر کے وقار کو برقرار رکھنے کے لئے ساس ونند کی بیہودہ حرکتوں کو پی جانا۔اپنے شوہر کا خاص خیال رکھنا۔یہ سب باکمال خواتین کے بس کاہے۔
یہ بندوں کے حقوق کو پورا کرتے ہوئے حقوق اللہ کا بھی خیال رکھتی ہیں۔
رمضان المبارک میں خواتین کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ افطار تیاری کرتی ہیں۔اس میں انوع واقسام کے پکوان تیار کرتی ہیں۔گھنٹوں وقت لگتا ہے۔اگر کوئی ہاتھ بٹانے والا ہے تو غنیمت ہے ورنہ سب کام تنہا کرتی ہیں۔ایک تو روزے کی تھکاوٹ دوسرا کام کا بوجھ انہیں توڑ کے رکھ دیتا ہے۔دیر سے بستر پر جاتی ہیں۔آنکھ لگی نہیں کہ ننھا منا رونا شروع کیا۔پھر اس کو بہلایا۔پیشاب کردیا اس کے کپڑے تبدیل کیں۔تھوڑی آنکھ کیا لگی کہ مسجد کی آواز بہ ذریعہ مائک کانوں سے ٹکڑائی۔آنکھ بہ مشکل کھلی ساتھ میں بچہ بھی بیدار ہوگیا(جن خواتین کے پاس شیر خوار بچے ہیں)اب انہیں بھی سنبھالنا ہے اور سحری بھی تیار کرنی ہے۔بچہ دوسرے کے گود میں رہنے کو تیار نہیں۔گھڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں ہے۔
کبھی عبدل کو جگاتی ہیں تو کبھی ببلوکو،کبھی چندہ،کو توکبھی گڑیا کو۔کوئی برش لئے کھڑا ہے تو کوئی تولیہ لئے جھول رہاہے۔کوئی سر جھکانے بستر پر بیٹھا ہے۔تو کوئی اب تک بستر پر ہی پڑا ہے۔ادھر دسترخوان پر سب کے من مطابق سحری منتظر ہے۔سؤئی میں دودھ جذب ہوگیا ہے۔گوشت ٹھنڈا ہوگیا ہے۔روٹی پنکھے کی ہوا سے سخت ہوگئی ہے۔چینی میں چینٹی لگ رہی ہے۔دودھ کی مہک بلی کو مل گئی ہے وہ بھی دسترخوان کی جانب قدم بڑھا رہی ہے۔اسے بھی بھگاناہے۔اب سب دسترخوان پر براجمان ہیں۔کھانے میں عیب نکالا جارہا ہے۔کوئی تعریفی جملہ نہیں نکال رہا ہے۔سب کے سامنے دودھ کا گلاس ہے۔کوئی زیادہ شکر کی شکایت کررہا ہے تو کوئی کہتا ہے شکر کم ہے۔کوئی کہتا ہے دودھ میں لگتا ہے پانی ملاہے تو کوئی کہتا ہے چھالی غائب ہے۔کوئی جملہ کستا ہے کہ چھالی شاید بلی کے نذر ہوگئ۔تو کوئی بم پھوڑتا ہے کہ شاید بابو نے دودھ میں پانی ڈال دیا ہے۔بعض روایتی ساس پلیٹ میں جب تھوڑا کھانا بچ جاتا ہے تو بلاوجہ مارے غصہ کے پلیٹ پٹختی ہیں اور بڑبڑائے ہوئے اٹھتی ہیں ایسا ہی کھانا بنتا ہے؟۔نہ سواد نہ لذت؟۔ایسی حرکت سب گھروں می نہیں ہوتی ہیں۔ایک طرف ننھا بچہ پریشان کرتا ہے تو دوسری طرف بڑا شیطان۔خواتین اس سے دل برداشتہ ہوجاتی ہیں۔جو سمجھدار ہیں،شریف ہیں،اچھی تربیت یافتہ ہیں وہ خاموش رہتی ہیں۔ورنہ جھگڑا شروع ہوجاتا ہے۔
دوبارہ سب بستر کا رخ کرتے ہیں۔ادھر خواتین دسترخوان سمیٹتی ہیں۔برتن اٹھاتی ہیں۔سب کو دھلتی ہیں۔بچہ ان کے گود میں ہوتا ہے۔اسی حالت میں چنا بھگونا ہے۔دال بھی بھگونا ہے۔اب بستر پر لیٹی ہی تھیں کہ دودھ والی آواز لگائی دودھ لیلو دودھ(دودھ لے لئجئے)اب انہیں کو اٹھنا ہے اور دودھ لینا ہے۔دودھ لیں ۔اسے گرم کیں۔تھوڑا آرام کیں تو کچھ روزہ خوربھی گھر میں پڑے ہیں ان کے لئے کھانا تیار کرنا ہے۔اب اس میں مصروف ہیں۔روزہ خوروں کا کھانا تیار کیں۔تلاوت کے لئے بیٹھی ہی تھیں پڑوس کی عقلا بوبو آئیں اور بیٹھ گئیں۔لایعنی باتوں میں مشغول ہوئیں۔غیبت کی مجلس سجی۔گھر گھر کے قصے شروع ہوئے۔جھوٹ کی بالادستی رہی۔خاتون کلام پاک لئے اٹھیں دوسرے کمرے میں چلی گئیں ۔آنے والی بوبو کو برا لگا۔پورے محلے میں اس کی شکایت کرنے لگی۔پھلنیہ ایسی ہے۔گھمنڈی ہے،اسے بڑے چھوٹے کی مہمیز نہیں ہے ۔ڈھیر ساری شکایتیں شروع ہوجاتی ہیں۔
شریف زادیاں گھر کی آواز باہر نکالنا نہیں چاہتی ہیں۔شوہر کی عزت،خاندانی وقار مٹی میں ملانا نہیں چاہتی ہیں۔ باپ اور بھائی کی شرافت پر آنچ نہیں آنے دیتی ہیں ۔اس لئے وہ ہر ناروا سلوک کو خندہ پیشانی سے قبول کرتی ہیں۔ایسی خواتین دنیاوی گھر کو تو جنت بناتی ہی ہیں آخرت میں بھی ان کا اعلی مقام ہے۔ایسی خواتین سے گھر کی فضاء معطر ہوتی ہیں۔سکون و اطمینان میسر ہوتا ہے۔ہنسی خوشی زندگی بسر ہوتی ہے۔رحمت خدا کا نزول ہوتا ہے۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خاندان کے ہر فرد کے دلوں میں وہ اپنی جگہ بنالیتی ہیں۔
خواتین کو خادمہ نہیں سمجھنا چاہئے۔گھر کا سارا بوجھ ان کے ناتواں کندھوں پر ڈالنا نہیں چاہئے۔بلکہ مل جل کر کام کرنا چاہئے۔کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانا چاہئے۔گھر کی دوسری بچیوں سے بھی کام لینا چاہئے تاکہ انہیں سیکھنے کا موقعہ ملے۔ان کی دل جوئی بھی ضروری ہے۔تعریفی کلمات بھی کہے جائی تاکہ ان کی ہمت افزائی ہو۔ان کے ساتھ بہتر رویہ اپنایا جایے۔یہ ہمارے گھر کی ملکہ ہیں۔ہماری آبرو ہیں۔ہمارا وقار ہیں۔ہمارے بچے، بچیوں کی تربیت کی ذمےدار ہیں۔ہمیں توازن عطا کرنے میں معاون و مددگار ہیں۔ان کے ساتھ بہتر سلوک کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے خِیارُکُم خِیارُکم لِاھلہ” تم میں اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہو۔استوصوا بالنساء خیرا۔