میں رمضان ہوں۔اسلامی کیلینڈر کا نواں مہینہ ہوں۔میں خیرکثیر لیکر آیاہوں۔میری آمد سے مسجدوں میں بہار آجاتی ہے۔ہر سو چہل پہل نظرآتی ہے ۔خردوکلاں سب خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں۔میری آمد تراویح کو جنم دیتی ہے۔لوگ امام کی اقتداء میں مکمل قرآن سنتے ہیں۔میں رحمت،ومغفرت،اور جہنم سے خلاصی کا باعث ہوں۔میرے ابتدائی دس دن باعث رحمت ہیں۔اسے لوگ پہلا عشرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔دوسرےدس دن باعث مغفرت ہیں۔اسے لوگ دوسرا عشرہ کہتے ہیں۔اور تیسرے دس دن جہنم سے چھٹکارے کےہیں۔اسےلوگ آخری عشرہ کہتے ہیں۔
میں خیر کثیر لیکر آتا ہوں۔جو میرے سایہ میں ایک فرض نماز ادا کرتاہے اللہ اسے ستر(70)نمازوں کے برابر ثواب دیتا ہے۔جو ایک نفل ادا کرتا ہے اسے عام دنوں کے فرض کے برابر ثواب ملتا ہے۔میرا ہر پل قیمتی ہے۔عقل والے مجھے ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ایک ایک پل کو غنیمت سمجھتے ہیں اور کام میں لاتے ہیں۔
میرے آنے سے ایک اہم عبادت اور اسلام کے پانچ بنیادی ستونوں میں سے ایک اہم ستون روزہ کی ابتداء ہوتی ہے۔روزہ عبد ومعبود کا ذاتی معاملہ ہے۔ظاہری اعضاء سے اس عبادت کا اظہار نہیں ہوتا ہے۔
بندہ ہی حقیقت سے واقف ہوتا ہے۔کون روزہ ہے اور کون نہیں اس کا پتہ لگانا ممکن نہیں ہے۔روزہ کا بدلہ اللہ خود دیتا ہے یا اللہ خود ہی بدلہ ہوجاتا ہے۔روزہ دار کے منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مشک سے افضل ہے۔روزہ دار جائز خواہشات کی تکمیل سے اپنے کو روکتا ہے۔روزہ نہ رکھنے والوں کے حق میں بڑی وعید آئی ہے۔روزہ دار کودخول جنت کے لئےخاص دروازہ ہے جس کانام باب الریان ہے۔افطار کے وقت روزہ دار کی دعاء قبول ہوتی ہے۔افطار کے وقت کاسماں بھی عجب ہوتا ہے۔یہ قابل دید وقابل رشک ہوتا ہے۔روزہ دار کے سامنے انواع و اقسام کی چیزیں دسترخوان کی زینت ہوتی ہیں پر روزہ دار اسے قبل از وقت ہاتھ بھی نہیں لگاتا ہے۔
میرے آخری عشرہ میں اعتکاف جیسی عظیم نعمت ہے۔معتکف کے لئے بڑی خوش خبری ہے۔معتکف اللہ کے گھر اللہ کا مہمان ہوتاہے۔میرے اختتام پر وہ اپنے گھر لوٹتا ہے۔میں شب قدر کو بھی لاتا ہوں۔میرے آخری عشرے کی طاق راتیں( ۲۱،۲۳،۲۵،۲۷،۲۹،)شب قدر کی ہیں۔ان راتوں میں بیدار رہنا اور اللہ کی عبادت میں مصروف رہنا بڑے ثواب کا کام ہے۔اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی رات سے افضل ہے۔
مجھےلوگ غم خواری،صلہ رحمی،کا مہینہ بھی کہتےہیں۔اس لئے لوگوں کو اپنےاور اپنے بچوں کی طرف سےصدقہ فطر اداکرنے کا حکم دیاگیا ہے۔تاکہ غریبوں،محتاجوں،بیواؤں،یتیموں،
ضرورت مندوں،کی خوشی پھیکی نہ ہو۔ان کی عید بھی حقیقی عید بن جائے۔میرے آتے ہی اہل ثروت وتجارت اپنے مال کا حساب لگاتے ہیں اور زکوت ادا کرتے ہیں۔اس سے بھی ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔
میں از ابتداء تاانتہا خیر ہی خیر ہوں۔میرے قدرداں میرے آنے سے بہت خوش ہوتے ہیں اور میرے جانے سے مایوس واداس ہوجاتے ہیں۔میرے دامن شب میں سحری رکھی گئی ہے۔سحری نبی صلعم کی سنت ہے۔یہودیوں کی مخالفت ہے۔روزہ دار اس کا خاص خیال رکھتے ہیں۔سحری میں کچھ نہ کچھ ضرور کھاتے ہیں۔میری شام بہت انمول ہے۔اس میں افطار کا خاص مقام ہے۔افطار کرنا اور کرانا باعث برکت ہے۔دوسروں کو افطار کرانے کا بڑا ثواب ہے۔روزہ دار کے ثواب میں کمی نہیں ہوتی ہے۔اس لئے لوگوں کو اپنے پڑوسیوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ایسا نہ ہو کہ بعض لوگوں کے دسترخوان انواع و اقسام کے کھانے پینے کی لذیذ چیزوں سے مزین ہوں اور بعد افطار بچے کھچے سامان کوڑے کے نذر ہو جائے اور بغل کاپڑوسی صرف پانی پر اکتفا کرے۔
میں صبر کا مہینہ ہوں۔ہرطرح کا صبر مجھ میں شامل ہے۔کھانا ترک کرنا۔لڑائی جھگڑا بند کرنا۔نفسانی خواہشات قربان کرنا۔زبان کو چغلی،غیبت،جھوٹ،گالی گلوج،لایعنی باتوں،سے باز رکھنا۔
میں نیکیوں کا موسم بہار ہوں۔ذکرواذکار، درود پاک کی کثرت، سے میرے متعلقین اپنے دل کو منور کرتے ہیں۔کثرت استغفار سے دلوں کے زنگ کو دور کرتے ہیں۔
میرا تذکرہ قرآن میں ہے۔ میں نزول قرآن کا مہینہ ہوں۔اس لئے لوگ تلاوت کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔رات میں تراویح کی شکل میں قرآن سنتے ہیں۔
میں ۲۹یا ۳۰ دن کے لئے آتا ہوں۔جو میری اہمیت سمجھتے ہیں ان کا ہرلمحہ،ہر پل،میرے ساتھ گذرتا ہے۔جو مجھ سے سچی عقیدت ومحبت رکھتے ہیں وہ ہرحال میں میرا احترام کرتے ہیں۔
کچھ ایسے بھی محروم القسمت ہیں جن کےنزدیک میری کوئی وقعت نہیں ہے۔میری آمد سے اسے پریشانی ہوتی ہے۔ایسے لوگ اپنی آخرت برباد کرتےہیں۔
میری زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے۔جو اپنےقیمتی وقت کو لہو ولعب سے بچا کر یاد خدا میں صرف کرتاہے اور روزہ رکھتا ہےدام تقوی میں وہ گرفتار ہوجاتاہے۔
پتہ نہیں آئندہ سال کون رہے یا دنیا کو الوداع کہ دے۔یا زندہ ہو پر روزہ رکھنے کا اہل نہ ہو۔ویسےمیرا تو آنا جانا لگا ہی رہے گا۔میری نصیحت مانو ۔میرا مکمل احترام کرو۔ میری ناقدری نہ کرو۔
تراویح کی پابندی کرو۔سبحان اللہ، الحمدللہ،اللہ اکبر،لاحول ولاقوۃ الاباللہ،استغفراللہ،سےاپنی زبان کوترو تازہ رکھو۔اپنے نبی پر درود شریف کثرت سے پڑھو۔تلاوت کی پابندی کرو۔اپنی وسعت کے مطابق ضرورت مندوں کی مدد کرو۔تہجد کا خاص اہتمام کرو۔اپنے گناہوں پرندامت کے آنسو بہاؤ۔زبان کو بری باتوں سے بچالو۔کان کو بیہودہ باتیں سننے سے باز رکھو۔آنکھوں کی حفاظت کرو۔اپنے حلق میں حلال لقمہ ڈالو۔چاہے ایک ہی نوالہ کیوں نہ ہو۔اپنے نفسانی خواہشات کو مرضیات خالق پے چلاؤ۔نفس کشی کرو۔افطار میں پہلے کھجور،یا پانی کو ترجیح دو پھر اس کے بعد اللہ کی دی ہوئی دیگر نعمتوں کو ہاتھ لگاؤ۔
میں ۲۹/یا ۳۰/کو چلاجاؤں گا۔میرا دیا ہوا یہ سبق آخری سانس تک یاد رکھواوراپنی زندگی میں اتارو۔ایسا نہ ہو کہ میرے جانے کےبعد زندگی پہلی حالت پر چلی جائے۔ یہ روٹین پوری زندگی کے لئے مفیداورکارگرہے۔اس سے پہلوتہی زیبا نہیں۔اس وقت کا منظر کتنا حسین ہوگا جب تم باب ریان سے گزرو گے۔تمہارا رب خود تمہارے لئے روزے کا بدلہ بن جائے گا۔