پٹنہ

ہر بار الیکشن میں لگتاہے مسلم اتحاد کا نعرہ!!  تحریر : جاوید اختر بھارتی

( آئینہ سچائی کا)
  • ہر بار الیکشن میں لگتاہے مسلم اتحاد کا نعرہ!!  ( آئینہ سچائی کا) تحریر۔۔۔۔۔۔۔‌ جاوید اختر بھارتی

اترپردیش میں الیکشنی ماحول ہے صبح سے شام تک خوب تبصروں کی ہوا چلتی ہے اور اسی بیچ مسلمانوں کی زبان پر یہ لفظ بار بار آتا ہے کہ ہمارا کوئی قائد نہیں ہے، ہمارا کوئی سیاسی لیڈر نہیں ہے مگر کبھی بھی اس پہلو پر غور نہیں کیا جاتا ہے کہ کیا ہم کسی کو لیڈر تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں،، جب بھی الیکشن آتا ہے تو پسماندہ طبقات کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور پسماندہ مسلمانوں کی شناخت کو چھپانے کی پوری پوری کوشش کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے نام پر اتحاد کا نعرہ لگایا جاتا ہے جو ہوا ہوائی ثابت ہوتاہے اور مسلم قیادت منہ کے بل گرجاتی ہے پھر پانچ سال تک رونا رویا جاتا ہے مگر پھر بھی ذہن میں یہ بات نہیں بیٹھائی جاتی کہ حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے اور یہ نعرہ لگایا جائے کہ دلت پچھڑے ایک سمان چاہے ہندو ہوں یا مسلمان-

  جس طرح ہندؤں میں برادریاں ہیں اسی طرح مسلمانوں میں بھی برادریاں ہیں فرق یہ ہے کہ ہندو بیک ورڈ کے اندر سیاسی شعور و بیداری ہے اور مسلم بیک ورڈ برادری سیاسی بیداری سے محروم ہے اور خود مسلمانوں نے ہی بیک ورڈ مسلمانوں کو سیاسی بیداری سے محروم رکھنے کا جال بنا ہے اور نیت کا پتہ تب چلتا ہے جب سیاسی دولہا کی بات آتی ہے تو اسلام اور مسلمانوں کے نام پر اتحاد کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور جب روٹی بیٹی کے رشتے والے دولہا کی بات آتی ہے تو ذات برادری میں بانٹا جاتا ہے-

اترپردیش کے مختلف اسمبلی حلقوں میں مسلمانوں کی بیک ورڈ برادریوں کا فیصلہ کن ووٹ ہے مگر ساری لڑائی چیرمینی تک اس سے آگے آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں ہے اور یہی حال پورے اترپردیش کا ہے تیرہ فیصد مومن انصار برادری کی آبادی اور موجودہ پنجسالہ یعنی مارچ 2017 سے مارچ 2022 تک صرف ایک ممبر اسمبلی،، یہ کتنے افسوس کی بات ہے- اب سے پسماندہ مسلم برادریوں کو تہیہ کر لینا چاہیے کہ ہمیں مسلم ووٹوں کے سوداگروں کے چنگل سے آزاد ہو کر سماجی نعرہ لگائیں گے،، اور لال کارڈ والی سیاست چھوڑ کر لال بتی والی سیاست کریں گے،، تبھی بیک ورڈ مسلمانوں کا بھلا ہوگا اور پسماندہ مسلمانوں کی شناخت قائم ہوگی –

اترپردیش میں سیاسی درجہ حرارت کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہورہاہے سیاسی پارٹیوں کی اور پارٹی کے لیڈروں و کارکنوں کی جانب سے سہولیات و خوبیاں بیان کرنے کا سلسلہ زوروں پر ہے بس وعدہ ہی وعدہ زبان پر ہے باتیں ایسی کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ لیڈران قوم کی خدمت کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں اور کچھ تو ایسی باتیں کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ ان کی پیدائش ہی ملک کی عوام کے لئے بہت بڑا احسان ہے غرضیکہ اب سیاست کے گرتے ہوئے معیار کو بھی دیکھنا ہو تو آج کے دور میں سیاسی پارٹیوں کے پروگراموں میں لیڈران کی باتوں کو سن کر دیکھا بھی جاسکتا ہے اور یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کامیابی حاصل ہونے کے بعد عوام کی کتنی خدمت کریں گے دن پر دن سیاسی لیڈران کی زبان بے لگام ہوتی جارہی ہے کچھ پارٹیاں کامیابی کا آسان راستہ تلاش کرنے اور اختیار کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور آج میدان سیاست میں سب سے آسان کامیابی کا راستہ مذہبی نعرہ ہے اور یہ نعرہ لگ بھی رہا ہے اور اس مذہبی نعروں میں مہنگائی و بےروزگاری کا موضوع ہی غائب ہوگیا کچھ سیاسی رہنما ان کی ٹوپی ان کے سر تو ان کی ٹوپی ان کے سر پر اوڑھانے میں لگے ہیں تو کچھ مذہبی رہنما اتحاد ملت پر مبنی کمیٹیاں بناکر ملت کو اتحاد کا پیغام دے رہے ہیں جبکہ ایک خاندان اور ایک ہی گھرانے سے دو مذہبی شخصیات اور دونوں الگ الگ سیاسی پارٹیوں کی حمایت کررہے ہیں اب یہاں بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما کا سیاست کی دنیا میں کتنا وزن ہے اور خود انہیں کے نزدیک اتحاد کی کتنی اہمیت ہے اور ان کی حمایت کے اعلان کا کتنا اثر ہوسکتا ہے-

کوئی بھی مذہبی رہنما اگر یہ چاہتا ہے کہ میں جسے کہوں اسے ہی میری قوم ووٹ دے یعنی میری حمایت پر پوری قوم لبیک کہے تو پہلے اس مذہبی رہنما کو قوم کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر ہمیشہ چلنا چاہئے اور اپنی قوم کو بتانا بھی چاہیے کہ ہم نے کس معاہدے کی بنیاد پر حمایت کی ہے اور ہماری حمایت کے نتیجے میں قوم کا کیا بھلا ہوگا اور کتنا بھلا ہوگا اور خود اپنا بھی محاسبہ کرنا چاہیے کہ جب ہم ایک گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود الگ الگ پارٹی کی حمایت کررہے ہیں تو ہم عوام کو اتحاد کا پیغام دے رہے ہیں یا اتحاد کے نام پر کھیل تماشہ کررہے ہیں-

یہ بات بھی قابل ذکر ہے ساتھ ہی ساتھ تلخ بھی ہے، سچائی بھی ہے اور قابل غور بھی ہے کہ جب الیکشن آتا ہے تبھی مسلمانوں میں اتحاد کا نعرہ کیوں لگایا جاتا ہے اور جب روٹی بیٹی کے رشتے کی بات آتی ہے تب مسلمانوں کے نام پر اتحاد کا نعرہ کیوں نہیں لگا یا جاتا اس سے تو یہی ثابت ہوتاہے کہ جب ووٹ لینا رہے تو ہر مسلمان بھائی بھائی اور باقی دنوں میں برادری برادری،، اگر مسلم سیاسی رہنماؤں کی سوچ اور ذہنیت یہی ہے تو پھر بی جے پی اور آپ کی سوچ میں کوئی فرق نہیں ہے


کیونکہ بھارت کے آئین نے جتنی بھی سہولیات دی ہے وہ ذات برادری اور سماج کے نام پر دی ہے مذہب کے نام پر نہیں،، اس لئے ہر مقام پر صرف دوسروں کے سر اپنی ناکامی کا ٹھیکرا پھوڑنے سے کام نہیں چلنے والا ہے اور یہ یاد رکھیں کہ جب تک سماج کا نعرہ نہیں بلند ہوگا تب تک سیاست میں مسلمان کامیاب نہیں ہوسکتا،، جس طرح ہندؤں میں مختلف برادریاں ہیں اسی طرح مسلمانوں میں بھی مختلف برادریاں ہیں تو جب ہم ہندؤں کی برادریوں کا نام لے کر ان کی تعداد بتاتے ہیں اور ان کی آبادی کا تناسب بتاتے ہیں تو پھر مسلمانوں کی تمام برادریوں کا نام لے کر آبادی کا تناسب بتانے میں کیوں شرم آتی ہے آخر سچائی پر پردہ ڈال کر کب تک مسلمان ہو کر مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاتا رہےگا اور یہ بھی سچائی ہے کہ مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں میں بہت سی ایسی برادریاں ہیں کہ جن کی حالت دلتوں سے بدتر ہے لیکن سارے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر بتاکر خود مسلمان ہی بھولے بھالے مسلمانوں کو بیوقوف بنارہے ہیں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب کچھ غیر مسلم سیاسی لیڈران بھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں بھی ذات برادری ہے ، بیک ورڈ فارورڈ ہے کیونکہ انہوں نے بھی سچر کمیٹی کی رپورٹ کو پڑھا ہے اور وہ بھی بھارت کی سرزمین پر سب کچھ دیکھ رہے ہیں اس لئے ہواؤں میں اڑنے والا اتحاد کا نعرہ لگانا بند کرکے اب سے سماج کا نعرہ لگانا شروع کیا جائے اسی میں بھلائی ہے-

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button