کتابوں کی دنیا
نحومیر ہمارے مدارس میں عربی اول میں عموماً پڑھائی جاتی ہے،کتاب کی زبان فارسی ہے اور فارسی ہندوستان میں عموماً متروک ہوچکی ہے، اس لئے فارسی میں لکھی ان کتابوں کی تدریس کے لئے مدارس میں اعدادیہ یا فارسی کے درجات الگ سے رکھے جاتے ہیں؛ تاکہ فارسی میں لکھی گئی کتابوں کے ذریعہ نحو و صرف کے قواعد اصول اور مبادیات کا سمجھنا اور یاد رکھنا طلبہ کے لیے آسان ہوجائے۔
بعد کے دنوں میں درس و تدریس سے وابستہ اساتذہ کرام میں اس خیال نے زور پکڑا کہ کیوں نہ ان کتابوں کو اردو میں منتقل کیا جائے؛ تاکہ مادری زبان میں افہام و تفہیم کا کام کیاجائے؛ چنانچہ کتاب الصرف، کتاب النحو، تمرین الصرف، تمرین النحو، آسان صرف، آسان نحو وغیرہ کتابیں وجود میں آئیں، اور درس وتدریس کا سلسلہ ان کتابوں کے ذریعہ جاری ہوگیا،اسی ذیل میں فارسی کتابوں کو اردو کا لباس پہنانے کا کام بھی شروع ہوا اور نحومیر، علم الصیغہ، میزان، منشعب، فصول اکبری وغیرہ حذف واضافہ،ترمیم و تنقیح، مشق وتمرین اور تسہیل کے ساتھ ہمارے سامنے آئیں۔ان کتابوں میں عموماً تعریفات اور امثلہ اصل اور پرانی کتابوں کے باقی رہ گئے،ضرب زید کے ذریعہ بے چارہ زید کبھی مارتا ہے کبھی مار کھاتا ہے،یہ مثال اس قدر عام ہوا کہ لوگوں نے زید نام رکھنا ہی چھوڑ دیا،زید کا غلام اب بھی ہمارے بچوں کو مضاف مضاف الیہ سمجھاتا ہے؛ حالانکہ غلام کا رواج کب کا ختم ہوگیا،اب بچہ غلام کو جانتاہی نہیں ہے اور ولد سے ہم اسے بدل نہیں پارہے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طلبہ میں کتابوں کو رٹ کر امتحان نکالنے کا مزاج بن گیا بغیر سمجھے بوجھے ’رٹو مل“ ہونے سے کتاب تو نکل جاتی ہے؛ لیکن فن نہیں آتا ہے؛ حالانکہ مقصود کتاب پڑھانا نہیں فن پڑھانا ہے،فن پڑھے گا تو جاری مجری صحیح کی مثال میں ”دلو“ سے آگے بڑھ جائے گا مرکب منع صرف کی مثال میں بعلبک،معدیکرب اور حضر موت تک محدود نہیں رہ جائے گا۔
اس کے پاس انسانی اسماء کی سینکڑوں مثالیں ہوں گی؛ جنہیں وہ مرکب بنائی کے طور پر جانے گا اور پہچانے گا، فن پڑھانے کا یہ فائدہ فوری ہوگا اور اگر اس نے قواعد کو سمجھ کر رٹ لیا تو اسے ان علوم میں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا،فن پڑھاتے وقت طلبہ سے قرآن کریم کی آیتوں سے مثال اخذ کرانے سے زیادہ فائدہ ہوتاہے، قرآن کریم سے رغبت بڑھتی ہے اور قرآن مجید سے بہتر مثالیں اور کہاں مل سکتی ہیں، شاید باید کوئی قاعدہ ایسا ہوگا جس کی مثال قرآن کریم میں مذکور نہ ہو ضرورت شوق پیدا کرنے کی ہے۔
درس وتدریس کا یہ انداز جوہمارے یہاں رائج ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نصاب فہرست کتب کو کہتے ہیں؛ حالانکہ نصاب فہرست کتب کا نہیں ان ابحاث و موضوعات کا نام ہے، جن کو طلبہ کی ذہنی صلاحیت کے اعتبار سے اساتذہ کو پڑھانا ہے، اب یہ استاذ کا مسئلہ ہے کہ وہ کن کتابوں کی مدد سے بچوں کو صحیح طور سے سمجھا سکتا ہے،کتابیں بذات خود نصاب نہیں ہیں؛ بلکہ مباحث کو سمجھانے کے لیے معاون اور مددگار ہیں،اساتذہ اگر کتاب پڑھاتے وقت مباحث اور اس کی مشق پر توجہ مرکوز رکھیں تو طلبہ کی صلاحیتوں کو پر لگ سکتاہے،میں نے خود بھی بیس سال پڑھایاہے اس لئے دوران تدریس کے جو تجربات و مشاہدات ہیں وہ کاغذ پر پھیلتے چلے گئے۔
میرے سامنے مولانامفتی ماہتاب عالم ابو ناصحہ قاسمی ناظم تعلیمات مدرسہ حنفیہ عربی کالج جمیلا گیدرگنج مدھوبنی کی کتاب درس علم النحو ہے،اس میں انہوں نے نحومیر کو اردو قالب میں ڈھالا ہے، مثالیں وغیرہ بھی وہیں سے ماخوذ ہیں، کچھ جگہوں پر اس میں اضافہ بھی درج ہے۔
مفتی ابو ناصحہ قاسمی صاحب پڑھتے لکھتے ہیں، لکھنے کی دلیل تو یہ کتاب ہے اور پڑھے بغیر لکھا نہیں جاسکتا اس لئے معلوم ہوا کہ وہ پڑھتے بھی ہیں، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے ملحق مدرسے میں ہیں اس لیے پڑھاتے بھی رہیں، اس کی دعاء کرنی چاہئے۔یہ بات حفظ ماتقدم کے طور پر لکھ دیاہے؛ کیوں کہ پیش لفظ میں جو کچھ انہوں نے لکھاہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ طلبہ کو پڑھاتے بھی ہیں۔
درس علم النحو در اصل حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی سابق ناظم جامعہ عربیہ اشرف العلوم کی درسی افادات کا مجموعہ ہے، جسے مفتی صاحب نے درس کے وقت قلم بند کرلیا،پھرپڑھاتے وقت اس سے فائدہ اٹھایا اور اپنے تجربات کی روشنی میں اسے مرتب کرڈالا اب یہ طباعت کے لئے تیار ہے،زبان اگر مزید آسان کرسکیں؛جن جگہوں پر مثالیں درج نہیں ہیں،اسے درج کردیں جن اصطلاحات کی تعریف درج ہونے سے رہ گئی ہے، اس کو بھی شامل کتاب کرلیا جائے تو اس کتاب کی افادیت بڑھ جائے گی۔
ہمارے استاذ محدث کبیر حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ پہلے مرحلہ میں ہی یہ بات طئے کرلینی چاہئے کہ کتاب کس کے لئے لکھی جارہی ہے،اسلوب مثالیں وغیرہ اسی اعتبار سے لانی چاہئیے، میرا خیال یہ ہے کہ درس علم النحو اساتذہ کے لئے تو مفید ہے، طلبہ کے لیے مزید مفید بنانے کے لئے گراں بار نہ ہوتو اوپر جن امور کی نشاندہی کی گئی ہے،اس کے مطابق اس کتاب پر نظر ثانی کر لی جائے ۔ اللہ رب العزت سے دعاء ہے کہ وہ اس کتاب کو قبول عام اور افادہ تام نصیب فرمائے آمین