تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
تحریر :- مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ رکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
اوقاف ملت اسلامیہ کا قیمتی سرمایہ ہیں، ماضی میں اسے ملت کے غیور، خود دار اور درد مند دل رکھنے والوں نے ملی ضرورتوں کے لیے وقف کیا تھا ، یہاں پر اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ بعض مخصوص حالات میں بعضوں نے وقف علی الاولاد کرکے اپنی جائیداد کے تحفظ کی کوشش بھی کی ، لیکن عموما جو مقاصد تھے وہ وہی تھے؛جس کا ذکر اوپر کیاگیا؛ یعنی سماج کے غریب ومحتاج اور نادار لوگوں کی مدد، مدارس اسلامیہ کے طلبہ کی کفالت ، مسلم سماج کی اجتماعی، تعلیمی، اصلاحی اور فلاحی کاموں کی انجام دہی میں تعاون ، ان کاموں کے لیے بڑی بڑی جائیدادیں وقف کی گئیں، پھر دھیرے دھیرے لوگوںکے مزاج میں تبدیلی آنے لگی ، دینے کا مزاج کم ہوا،زمینوں اور عمارتوں کی قیمتیں آسمان چھونے لگیں تو بہت سارے واقفین کے وارثوں نے ہی وقف جائیدا کو خرد برد کرنا شروع کر دیا ، جو اپنوں کے خرد بردکی دسترس میں نہیں آیا ،اس پر غیروں نے قبضہ کر لیا ، اورہماری بے حسی کی وجہ سے آج اوقاف کی بہت ساری جائیداد پر باہو بلی اور دبنگوں کا قبضہ ہے ، عالی شان عمارتیں کھڑی ہیں، کڑوڑوں کی جائیداد ہے، لیکن ملت کو اس کا فائدہ نہیں پہونچ رہا ہے، مختلف ریاستوں کی سرکاریں بھی اس کام میں پیچھے نہیں ہیں، مرکزی حکومت نے بھی پارک وغیرہ بنوانے کے لیے اوقاف کی بہت ساری جائداد پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے ، اس بات کا اعتراف اوقاف کے لیے قائم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے چیر مین لال جان پاشا نے کیا۔
ان کی رپورٹ کے مطابق ’’اوقاف کی زمین او رعمارتوں پر کئی جگہ حکومت بھی قابض ہے اور کئی جگہوں پر وقف کی زمین کے سلسلے میں حکومت ہند کے ساتھ مقدمات چل رہے ہیں‘‘۔ کہیں کرایہ کے نام کچھ رقم مل رہی ہے تو وہ بھی علامتی ہے، اسی جگہ واقع دو سرے دوکان اور مکان کا کرایہ ہزاروں میں ہے ؛ لیکن وہیں پر وقف کی جو جائیداد ہے، اس کا کرایہ سو دو سو سے زائد نہیں ہے ،بعضوں نے پارٹیشن کرکے اس میں اور دکانیں نکال لی ہیں اور ہزاروں روپے کرایے کے وصول کر رہے ہیں، حکومت بہار کے مطابق ’’وقف کی آدھی جائیداد سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی ، جن اثاثوں سے آمدنی ہوتی ہے،ا ن میں صرف تین فی صد ایسے ہیں ، جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ سے زائد ہے‘‘ ۔
اس صورت حال کا احساس وادراک بہتوں کو تھا ، لیکن بہار کی حد تک میری معلومات کے مطابق عملی اقدام کیلئے اللہ رب العزت نے جس عظیم شخصیت کا انتخاب کیا وہ ابو المحاسن مولانا محمد سجاد بانی امارت شرعیہ کی ذات گرامی تھی ، بہار میں 1938ء تک اوقاف کی حفاظت اورنگرانی کے لیے 1923ء میں انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون کے علاوہ ریاستی سطح پر کوئی قانون موجود نہیں تھا ،انگریزوں نے بہت سارے اوقاف ضبط کر لیے تھے، اور ان کو اس طرح اپنی ملکیت بنا لیا تھا کہ اس کی وقفی حیثیت کلیۃ ختم ہو گئی تھی ، الناس علی دین ملوکہم کے تحت بہت سارے لوگ جو اصلاً اوقاف کی زمین اور مکان کے کرایہ دار تھے، مالک بن بیٹھے ، اس طرز عمل نے اوقاف کو سخت نقصان پہونچا یا ،مسلمانوں نے انگریزوں سے اس کے تحفظ کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ کیا، انگریزوں کے نزدیک غلام ہندوستان کے اس مطالبہ کی حیثیت ہی کیا تھی، پھر بھی 1923ء میں انگریزوں نے مسلم وقف ایکٹ بنایا ، اور اسے نافذ کر دیا ، یہ ایکٹ ظاہر ہے اسلامی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھا، مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒنے امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کی رہنمائی میںایک مسودہ قانون تیار کرایا اور اسے بہار مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کے ذریعہ اسمبلی میں پیش کرایا ،چونکہ یہ مسودہ مولانا کی نگرانی میں مرتب ہوا تھا ، اس لیے اس بل میں اسلای قوانین وقف کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی تھی ، بعد میں حکومت بہار نے اسی مسودہ کی روشنی میں ایک وقف بل پیش کیا؛ جو بڑی حد تک اسلامی اصول وقف کے مطابق تھا ، یہ بل اسمبلی میں منظور ہوا ، اوقاف کے تحفظ کی یہ پہلی کوشش تھی جو امارت شرعیہ کے ذریعہ بہارمیں قانون بنوا کر کی گئی ۔
اس طرح امارت شرعیہ نے مولانا کی نگرانی میں اوقاف کی جائیداد کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرانے کی کامیاب جد وجہد کی ، اسمبلی میں ’’زرعی جائیدادوں ‘‘ پر جب ٹیکس کا قانون لایا گیا اور اغراض حکومت کی تکمیل کے لیے ٹیکس لگایا گیا تو اس میں اوقاف کی جائیداد بھی شامل تھی ، ظاہر ہے یہ اسلامی قانون وقف سے میل نہیں کھاتا تھا، مولانا محمد سجاد نے انڈی پنڈنٹ پارٹی کے ذریعہ اس میں ترمیمات پیش کرائیں ،مولانا نے صاف طور پر یہ بات کہی کہ
’’ اسلام میں وقف کی تقسیم خیراتی وغیر خیراتی قطعا نہیں ہے ، جتنے اوقاف ہیں سب ہی خالصتاً لوجہ اللہ ہیں اور اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وقف علی الاولاد والاقارب پر جدید زائد ٹیکس لگایا جا سکتا ہے ، جو وقف سے پہلے نہیںتھا، او ردوسرے اوقاف پر نہیں لگایا جا سکتا یہ تفریق اسلامی قانون میں مداخلت بے جا ہے،جو کسی طرح درست نہیں۔ ( قانونی مسودہ :48)
مولانا نے آخر میں حکومت کو متنبہہ کیا کہ ’’ وہ زرعی ٹیکس سے تمام اسلامی اوقاف کو مستثنیٰ کرکے اپنی دانش مندی کا ثبوت دے ، اور یہ کہ وہ اپنے کو اور مجھ کو کسی آزمائش میں مبتلا نہ کرے، ‘‘ ( ایضا 52)
چنانچہ تمام زرعی اوقاف کو اس قانون سے الگ رکھا گیا ۔
یہ دور انگریزوں کا تھا ، اس دورمیں بہار میں اوقاف کے کنٹرول اور تحفظ کی ذمہ داری ہر ضلع میں ضلع جج کی تھی، آزادی کے بعد بہار میں وقف ایکٹ 1947ء بنایا گیا ، جس کا نفاذ 3؍ مارچ 1948ء سے ہوا ، بعد میں 1954ء میں مرکزی حکومت کی طرف سے وقف ایکٹ لایا گیا اور اسے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن مسلمان اس سے مطمئن نہیں ہوئے او رترمیم کے مطالبات جاری رہے ، ان مطالبات کے نتیجے میں 1954ء کے وقف ایکٹ میں 1959، 1969ء میں جزوی ترمیمات کی گئیں ، 1984ء میں اس ایکٹ میں وسیع پیمانے پر ترمیمات کی گئیں ،مسلمانوں نے اس ترمیم کی مخالفت کی اور مسلم تنظیموں کے ذریعہ اسلامی اصول وقف کی روشنی میں سوالات اٹھائے گئے ، ان سوالات کی روشنی میں مرکزی حکومت نے وقف ایکٹ 1995ء پاس کیا ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے2013ء میں اوقاف کے تحفظ کے لیے امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ ( جو اس وقت نائب امیر شریعت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری تھے )کی قیادت میں ترمیمات کے لئے کامیاب جد وجہد کیا ، اوقاف کی تعریف وغیرہ میں بھی بنیادی ترمیم کرائی گئی ، غیر رجسٹرڈ اوقاف کو بھی حکومت نے وقف کے زمرے میں رکھا ،یہ ایک بڑی کامیابی تھی جو اوقاف کے تحفظ کے لئے مسلمانوں کو حاصل ہوئی ، اس ترمیم سے قبل لال جان پاشا کی قیادت میں قائم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا ایک وفد مرکزی حکومت کی جانب سے مسلم اداروں کی ترمیمات اور وقف ایکٹ پر ان کے اشکالات جاننے اور اوقاف کی حالت کاجائزہ کے لیے تین روزہ دورہ پر پٹنہ وارد ہوا تھا ،
امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ کے حکم پروقف ایکٹ میں ترمیمات کا خاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے پیش کردہ ترمیمات کی روشنی میں احقر نے مرتب کیا تھا ، اور حضرت کے حکم کے مطابق وفد کے سامنے امارت شرعیہ کی نمائندگی بھی احقر( محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) نے ہی کی تھی جو ترمیمات پیش کی گئی تھیں، اس کی تفصیل درج ذیل ہے،میں نے لکھا تھا کہ
1- 1954ء اور 1984ء کے قانون وقف میں ہندوستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر کسی غیر مسلم کی جانب سے قائم کردہ وقف کو قف تسلیم کیا گیا تھا، لیکن 1995ء کے قانون میں وقف کی تعریف میں صرف مسلمانوں کے قائم کردہ وقف کو ہی وقف تسلیم کیا گیا، (دیکھئے R وقف ایکٹ 1995ء) البتہ ایک دوسری دفعہ کے تحت کسی وقف یعنی مسجد، عیدگاہ، امام باڑہ، درگاہ، مقبرہ، قبرستان یا مسافر خانہ کی مدد کے لئے غیر مسلم کی جانب سے قائم کئے گئے وقف کو تسلیم کرنے کی گنجائش نکالی گئی ہے۔ (دیکھئے دفعہ 104؍ وقف ایکٹ 1995ء) ہماری تجویز یہ ہے کہ 1954ء کی تعریفات کو بحال رکھتے ہوئے غیر مسلموں کی جانب سے قائم کردہ وقف بھی وقف، شمار کئے جائیں۔
2- 1984ءکے وقف قانون میں ’’ معافیاں، خیراتی، قاضی خدمات اور امداد معاش، کو بھی وقف کی تعریف میں شامل کیا گیا تھا، کیونکہ یہ حکمرانوں، جاگیرداروں اور رئیسوں کی جانب سے مختلف علاقوں میں دیئے جانے والے مذہبی خدمات سے مشروط انعامات کی اصطلاحیں ہیں، اسے وقف قانون 1984ء کے مطابق ہی سیکشن R 3میں باقی رکھنا چاہئے۔
3- ایک تجویز تعریفات (Definations) میں منشاء وقف کو متعین کرنے کی ہے کہ اس سے مراد وہ مذہبی اور خیراتی مقاصد ہیں، جن کا ذکر وقف کی دستاویز ات میں کیا گیا ہے، یا جن کا اظہار وقف کی نوعیت اور اس کے استعمال سے ہوتا ہے، وقف کی دستاویز سے یا اس کی نوعیت سے منشاء وقف واضح نہ ہونے یا منشاء وقف ناقابل حصول ہوجانے کی صورتوں میں عام مسلمانوں کی عام بہبودی کو اس وقف کا منشاء تصور کیا جانا چاہیے۔
4- وقف کے سروے سے متعلق دفعات میں ’’قانون کے نفاذ کے آغاز کے وقت موجود اوقاف‘‘ کے سروے کی بات کہی گئی ہے، اس سلسلہ میں ہماری تجویز یہ ہے کہ وقف سروے کمشنر کو ریاست میں پائی جانے والی تمام اوقاف کی جائداد کے سروے کا اختیار دے دیا جائے، اور سروے کو قانون کے نفاذ کے وقت موجودہ جائدادوں تک محدود نہ کیا جائے۔
5- 1995ء کے قانون میں درج ہے کہ ایک مرتبہ سروے ہونے کے بعد کم از کم بیس سال بعد دوسرا سروے کیا جاسکتا ہے، ہماری تجویز یہ ہے کہ اس میں ترمیم کیا جائے اور لکھاجائے کہ جب ریاستی حکومت ضرورت محسوس کرے تو وہ ایک نئے سروے کا حکم دے سکتی ہے، تاکہ پہلے سروے کے نقائص کو دور کرنا جلد ممکن ہوسکے، ورنہ بیس سال تک وہی ناقص سروے نافذ رہے گا۔
۶- ریاستی وقف بورڈ کی تشکیل میں وقف بورڈ کے کم سے کم تین چوتھائی ارکان مسلمانوں کے مختلف شعبوں، جیسے مسلم ڈاکٹرس، چارٹر اکاؤنٹس، فینانشیل منیجرس اور ریاستی بار کونسل میں رجسٹرڈ ارکان میں سے منتخب کئے جائیں،بار کونسل کے’’ منتخب ارکان‘‘ کی قید ہٹالی جائے، کیونکہ صورت حال یہ ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں میں بار کونسل کے لئے ایک بھی مسلم ایڈووکیٹ منتخب نہیں ہوتے ہیں۔
٭ اوقاف پر ناجائز قبضہ کو ختم کرانے کے لئے وقف ایکٹ میں وہی دفعہ درج کی جائے جو سرکاری زمینوں کو خالی کرانے کے سلسلہ میں پہلے سے موجود ہے۔
٭ بہار میں بہت ساری اوقاف کی جائداد پر غیر قانونی قبضہ ہے، اس سلسلہ میں مرکینٹائل بینک، رضوان بلڈنگ فریزر روڈ، اور بی بی جان کے احاطہ کا نام خصوصیت سے لیا جاسکتا ہے، غیر قانونی قبضہ کی زد میں مساجد، قبرستان، امام باڑہ، اور عیدگاہ کی زمینیں بھی شامل ہیں۔ اور یہ سلسلہ پوری ریاست میں پھیلاہوا ہے، اس قبضہ کو ہٹانے کے لئے فوری کوشش کی جانی چاہئے۔
٭ بہت ساری ایسی مساجد جو سرکاری مفادات کی توسیع کی زد میں ہیں ، اور جن میں سے کئی کو مسمار کیاجا چکا ہے، کمیٹی سے میری درخواست ہے کہ ان مساجد کی بازیابی کے لئے بھی وہ سرکار پر دباؤ ڈالے، ایسی مسجدوں میں دمساجد کا تذکرہ مثال کے طور پر کررہاہوں، ایک دانا پور کینٹ کی مسجد اور دوسری بازار سمیتی حاجی پور کی مسجد، ان دونوں کی دیواریں منہدم کردی گئیںاور ان کا نام ونشان مٹادیا گیا ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ ان تجاویز میں سے کئی کو نئے وقف ایکٹ میں شامل کر لیا گیا ۔
اس طرح امارت شرعیہ نے اوقاف کے تحفظ کے لیے اس موقع سے بڑا کام کیا، اور مسلمانوں کو قدرے اطمینان ہوا۔
لیکن اوقاف کے سروے کے کام میں انتہائی سست رفتاری تھی اور یہی وہ چور دروازہ تھا جس سے حکومت اوقاف کی زمینوں پر قبضہ کر سکتی تھی، حکومت کا عملہ جو سروے کمشنر کی ما تحتی میں اس کام کو کر رہا تھا، اس کی دلچسپی اس کام سے نہیں تھی، چنانچہ موجودہ امیر شریعت مفکر ملت ، حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم نے امارت شرعیہ میں اس کام کے لیے الگ سے شعبہ اوقاف قائم کیا، حضرت کی خصوصی نگرانی اور دلچسپی سے ہزاروں ایسی جائیداد کی شناخت کی گئی ، جو وقف ہیں، اس کے دستاویزات کی فراہمی کی کوشش بھی جاری ہے، اسے فہرست بند کرلیا گیاہے اور جلد ہی اس کی مدد سے ان اوقاف کے سروے کا کام مکمل کر لیا جائے گا۔