حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی __آسان نکاح کا عملی نمونہ
✍️مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آقاصلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العز ت نے چار صاحبزادیاں عطا فرمائی تھیں، ان میں سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینبؓ ہیں، جن کی شادی مکہ میں حضرت خدیحہؓ کے خالہ کے لڑکے ابوالعاص بن ربیع کے ساتھ ہوئی،دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ اور تیسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ کا نکاح یکے بعددیگرے حضرت عثمان غنی ؓ سے ہوا، ان شادیوں کے جوتذکرے کتابوں میں ملتے ہیں، اس سے پتہ چلتاہے کہ ان صاحبزادیوں کونکا ح کے بعد ان کے شوہروں کے گھر پہنچادیاگیا، کسی بھی حدیث اور سیر وتاریخ کی کتاب سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ آپ نے ان صاحبزادیوں کوکچھ جہیز کے طور پردیا۔
حضرت فاطمہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں، جب آپ کچھ بڑی ہوئیں تو حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، آپ فداہ ابی وامی نے کم عمری کا عذر کیا اوربات ختم ہوگئی۔ کچھ دنوں کے بعدحضرت علیؓ شرماتے ہوئے دراقدس پر حاضر ہوئے اور جھجکتے ہوئے اپنا پیغام دیا۔(البدایة والنہایة 3/345)
حضرت علیؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے لڑکا تھے، عمرمیں کم وبیش حضرت فاطمہؓ سے چھ سال بڑے تھے، رہنے سہنے کاانتظام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علیؓ کے چچیرے بھائی اور سرپرست تھے۔(الاستیعاب ج 1 ص83،سیرت النبی ج 2ص367، سیرت سرورعالم 2021)
حضرت علیؓ کے اس پیغام کا تذکرہ پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ سے کیا، جب وہ شرم کی وجہ سے خاموش رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حکم سے اس رشتہ کوقبول کرلیااورحضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس فاطمہؓ کو دینے کے لیے کچھ ہے؟ حضرت علیؓ نے جوا ب دیا: جنگ بدر میں جوزرہ ہاتھ آئی تھی، وہ ہے، اور ایک گھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑا تمہارے کام کا ہے،البتہ زرہ بیچ دو، چنانچہ یہ زرہ چار سو اسّی درہم میں حضرت عثمان غنیؓ نے خریدلیا، حضرت علیؓ وہ رقم لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی میں سے کچھ رقم حضرت بلالؓ کو دیا کہ وہ خوشبو خرید کرلائیں۔ (زرقانی شرح مواہب اللدنیہ 2/413) اور بقیہ رقم حضرت انس کی والدہ ام سلیمؓ کودیاکہ وہ حضرت سیدہؓ کی رخصتی کا انتظام کریں۔(تواریخ حبیب الٰہ ص34 ) خادم خاص حضرت انسؓ کوحکم ہوا کہ جاکر حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، عثمانؓ،طلحہؓ،زبیرؓ اور انصاری صحابہ کی ایک جماعت کوبلالاﺅ ،یہ سب لوگ حاضر ہوگئے تو آپ نے مختصر سا خطبہ پڑھ کر نکاح کردیا، اور چھوارے تقسیم کرادیئے۔پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ام ایمنؓ کے ہمراہ حضرت فاطمہؓ کو حضرت علیؓ کے گھر بھیج دیا جوپہلے سے کرایہ پر حاصل کرلیاگیاتھا، بعد میں حضرت حارثہؓ بن نعمان نے اپنا مکان دے دیا توحضرت فاطمہؓ مسجد نبوی کے قریب اس مکان میں منتقل ہوگئیں۔
حضرت ام سلیمؓ نے حضرت علیؓ کی زرہ والی رقم سے حضرت فاطمہؓ کی رخصتی کا جوسامان لیاتھا، وہ بھی حضرت فاطمہؓ کے ساتھ ان کے گھر بھیجودایا ، تذکروں میں ملتا ہے کہ یہ معمولی قسم کے گھریلو سامان تھے،جس میں دوچادریں، کچھ اوڑھنے بچھانے کامختصر سامان، دوبازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ ،ایک گھڑا اوربعض روایتوں میں ایک پلنگ کا تذکرہ بھی ملتاہے۔(مسنداحمد ج1 ص104، البدایة والنہایة 3/146)
یہ ہے حضرت فاطمہؓ کے نکاح کی پوری تفصیل جو کتب احادیث سیر وتاریخ میں عام طور پردیکھاجاسکتاہے،اس نکاح کو جس سادگی کے ساتھ کیا گیا اس میں امت کے لیے آسان نکاح وشادی کا عملی نمونہ ملتا ہے، اسے ایک بار پھر پڑھ لیں اورغورکریں تو تین باتیں بہت صاف طور پر آپ کے سمجھ میں آئیں گی:
1۔حضرت علیؓ بچپن سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے ،ان کی علیحدہ کوئی مستقل سکونت نہیں تھی،اورنہ ہی الگ سے کوئی گھریلو سامان تھا، اس طرح آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سرپرست تھے،مربی اور ولی تھے۔
2۔بحیثیت ولی اورسرپرست آپ کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ شادی کے بعد حضرت علیؓ کے گھردر کاانتظام کرتے، تاکہ حضرت علیؓ کی سکونت ورہائش جب آپ سے الگ ہوتو کسی قسم کی دقت روزمرہ کی زندگی میں پیش نہ آئے، اسی خیال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ضروری سامان حضرت علیؓ کے لیے مہیا کرایا،گویا ان چیزوں کی فراہمی آپ نے حضرت علیؓ کے لیے بحیثیت سسر نہیں، بلکہ سرپرست ہونے کے ناطے کیا۔
3۔یہ سامان کی فراہمی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رقم سے نہیں،بلکہ حضرت علیؓ کی زرہ بیچ کر جو رقم حاصل ہوئی تھی اس رقم سے کیا۔
یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پرعلماءامت نے بہت واضح اور صاف طور پرلکھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کو دیے گئے سامان سے جہیز کے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا استدلال صحیح نہیں ہے۔چنانچہ استاذ حدیث دارالعلوم ندوة العلماءحضرت مولانا برہان الدین سنبھلیؒ لکھتے ہیں:”جہیز کے موجودہ طریقہ کے سنت نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ گھریلو سامان جو حضرت فاطمہؓ کو آپ نے بوقت رخصتی(یا اس کے بعد) دیاتھا، جسے عوام جہیز دینا کہتے ہیں ،وہ خود حضرت علیؓ کی طرف سے فراہم کردہ رقم سے خریدکردیاتھا، جس کی صراحت اہل سیر نے کی ہے“۔ (جہیز یا نقد رقم کا مطالبہ ص 92)
حافظ محمد سعد اللہ صاحب لاہوری نے تو صاف لفظوں میں اسے خلاف شرع اور خلاف قرآن وسنت قرار دیاہے، لکھتے ہیں:”اس کو حضرت فاطمہ زہرہؓ کی پاک ذات کی طرف منسوب کرکے جو ایک مذہبی تقدس دیاجاتاہے، اور اس مذہبی تقدس کی آڑمیں جونمود ونمائش اور اظہار دولت کیا جاتاہے ، اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور برتری حاصل کرنے کی جو سعی نامشکور کی جاتی ہے وہ بہر کیف غلط ، ممنوع خلاف شرع اور قرآن وسنت ہے“۔(جہیز کی شرعی حیثیت بحوالہ سہ ماہی منہاج لاہور)
حضر ت مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:”ہمارے زمانہ میں جہیز کوجس طرح نکاح کالازمی جزو قرار دیا گیاہے، جس طرح اس کے بغیر لڑکی کی شادی کو ناک کٹوانے کامرادف سمجھ لیاگیا ہے،اورجس طرح اس کی مقدار میں نام ونمود اور دکھلاوے کی خاطر روز بروز اضافہ کیاجارہا ہے کہ غریب سے غریب انسان قرض لے کر رشوت اور مال حرام استعمال کرکے اس مقدار کوپورا کرنا ضروری سمجھتا ہے اور جب تک اس پر قدرت نہ ہولڑکیاں بغیر نکاح کے بیٹھی رہتی ہےں، یہ پورا طرز عمل سنت کے قطعی خلاف ہے“۔(جہیز کی حقیقت ، البلاغ کراچی نومبر 1987ء)
مولانا وحید الدین خاں کی بہت ساری فکر سے امت کو اختلاف ہے ، لیکن یہ بات ان کی صد فی صد صحیح اور شرعی تقاضوں کے عین مطابق ہے کہ ”کچھ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ جہیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی صاحبزادی فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے کیاتو ان کوا پنے پاس سے جہیز بھی عطا کیا اس قسم کی بات دراصل غلطی پرسرکشی کااضافہ ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکچھ دیااس کو کسی طرح بھی جہیز نہیں کہا جاسکتا، اوراگر اس کوجہیز کہاجائے تو ساری دنیا میں غالباً کوئی ایک مسلمان بھی نہیں جو اپنی لڑکی کویہ پیغمبرانہ جہیز دینے کو تیار ہو“۔
اس کے بعد ایک جگہ لکھتے ہیں:”اگرجہیز فی الواقع آپ کی مستقل سنت ہوتی تو آپ نے بقیہ صاحبزادیوں کوبھی ضرور جہیز دیا ہوتا، مگر تاریخ اورسیرت کی کتابوں میں نہیں ملتا ہے کہ آپنے بقیہ صاحبزادیوں کو بھی جہیز دیا ہو“۔(خاتون اسلام ص 163)
مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوریؒ لکھتے ہیں:”حضرت فاطمہؓ کی شادی کے موقع پر آپ کی طرف سے دونوں کو جو کچھ دیاگیااس کوجہیز کی مروجہ ملعون رسم کے ثبوت میں پیش کرنا بالکل غلط اور نادرست ہے“۔(جہیز اسلامی شریعت میں، ماہنامہ’محدث‘ بنارس ، اپریل 1985ء)ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:”لینے اور دینے کی یہ رسم چاہے اس کا جو بھی نام رکھ دیاجائے، شرعاً ناجائز اور واجب الترک ہے“۔(جہیز اسلامی شریعت میں، ماہنامہ’محدث‘ بنارس ، اپریل 1985ء)
حافظ محمد سعد اللہ جونپوری ریسرچ آفیسر مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور نے جہیز سے متعلق اپنے تفصیلی مقالہ” جہیز کی شرعی حیثیت“ میں تمام روایات کاجائزہ لینے کے بعد بالکل صحیح لکھاہے:”قرآن مجید میں، کتب احادیث میں، متقدمین فقہاءکی کتابوں میں مروجہ جہیزکاوجود ہی نہیں،صحاح ستہ، معروف کتب احادیث اورچاروں ائمہ فقہاءکی امہات الکتب میں ”باب الجہیز“ کے عنوان سے کوئی باب نہیں، اگر یہ کوئی شرعی حکم ہوتا توکوئی وجہ نہ تھی کہ جہاں نکاح سے متعلق دیگراحکامات مثلاً نان نفقہ، مہر، بہتر معاشرت ، طلاق، عدت، وغیرہ تفصیلاً بیان ہوتے ، وہاںجہیز کابیان نہ ہوتا“۔(جہیز کی شرعی حیثیت ،سہ ماہی ’منہاج‘ لاہور)
اگر آج بھی آسان نکاح وشادی کو رواج دینا ہے تو حضرت فاطمہ ؓ کی اس شادی کو عملی نمونہ بناکر کام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔