بہترین امت کے بہترین اوصاف اور انکے حیرت انگیز فوائد
قرآن مجید میں امت محمدیہ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ:
”تم بہترین امت ہو جس کو انسانوں کے لئے برپا کیا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔“ (سورۃ آل عمران: 110)
اللہ تعالٰی نے انسانیت کا سلسلہ آدم علیہ السلام سے چلایا ہے۔ سب سے پہلے مٹی سے آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی پھر انکے بائیں پسلی سے ماں حوّا کی تخلیق فرمائی۔ اسکے بعد ان کے نسل سے نسل انسانیت کی افزائش فرمائی۔ آدم علیہ السلام دنیا کے سب سے پہلے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کے سب سے پہلے نبی بھی تھے۔ آدم علیہ السلام سے حضر ت محمد ﷺتک تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام اس دنیا میں مبعوث ہوئے۔ حضرت محمد ﷺ سب سے آخری نبی ہے۔ اور تمام نبیوں میں اشرف مقام کے حامل ہے۔ ان کو امام الانبیاء بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آخری نبی ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے افضل نبی بھی ہے اسی طرح ان کے امت کو اللہ نے پچھلی تمام امتوں پر افضلیت بخشی ہے۔ آدم علیہ السلام سے حضرت عیسٰی علیہ السلام تک کے تمام امتیں پہلے آنے کے باوجودامت محمدیہ سے افضل حیثیت کے حامل نہیں تھے۔
امت محمدیہ کے سب سے آخر میں آنے کے باوجود افضلیت بخشی گئی ہے۔ تو اس افضلیت کے پیچھے کچھ مقاصد و تقاضا بھی ملحوض رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا آیت شریفہ سے ظاہر ہے کہ اس امت کو خیرامت (بہترین امت) ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ انسانیت کے لئے برپا کی گئی ہے۔ جو انسانوں میں بھلائی کا کام کریگی اور منکرات سے پر ہیز کرے گی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ بھلائی کا حکم اور منکر سے روکنے کا کام (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) بھی کریگی۔ اور اس اعلٰی کام کی ادائیگی ایک اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے کرنا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب اللہ نے اس امت کو افضل بنایا ہے۔ بہترین امت (خیر امت) کے خطاب سے نوازا ہے تو اس کے چند غیر معمولی اوصاف بھی ہونگے جو ان کو پہلے کے دیگر امتوں یا قوموں کے مقابلے ممتاز بناتی ہیں۔ آئیے مندرجہ ذیل میں ان مخصوص اوصاف اور انکے نتائج پر نظر ڈالتے ہیں۔ یعنی یہ اوصاف اس امت کو کس طرح ایک امتیازی حیثیت سے نوازتی ہے اور افضلیت بخشتے ہوئے کیسے دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔ وہ امتیازی و افضل اوصاف یہ ہیں:۔
۱) مضبوط ایمان و یقین:۔ ہمارا ایمان و یقین جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی ہمار ا عمل جاندار ہوگا۔ ایمان کا سطح ہمیشہ یکساں نہیں ہوتا ہے۔ نبیوں کا ایمان ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے۔ فرشتوں کا ایمان ہمیشہ ایک سطح پر ہوتا ہے۔ لیکن ہم عام مسلمین کا ایمان کا سطح بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی ہے۔ ایما ن پر محنت ہوگا یعنی جتنا ایمان و یقین کی باتیں کہی جائیگی اور سنی جائیگی ایمان کا سطح اتنا بڑھے گا اور ایمان کی باتیں کہنا سننا چھوڑ دینے سے ایمان کا سطح گھٹتا ہے۔ ہمارا ایمان ہی ہمیں عمل پر کھڑا کرتا ہے۔ اپنے اعمال صالحہ کو تقویت بخشنے کیلئے ایمان کے سطح کو بڑھانا بہت ضروری ہے۔ اللہ کی قدرت، ربوبیت، الوہیت وغیرہ کے تذکرہ کرتے رہنے سے ایمان کا سطح بڑھتا رہتا ہے۔ اللہ ہمارا خالق، رب،رازق، نا فع وضار، والی، وکیل اور حسیب ہے۔ گویا کہ اللہ کی ذات ہی ہمارے لئے سب کچھ ہے اور ہمارے لئے کافی ہے۔ اللہ ہمارے گمان کے ساتھ ہے۔ اللہ پر مکمل یقین کرنا ہے۔ ہمیشہ اللہ کے ساتھ نیک گمان رکھنا ہمارے لئے مفید ثابت ہوتا ہے۔ گمان میں ذرّہ برابر بھی کمی آئی تو اللہ ہمارے کام میں مددگار نہ ہوگا کیونکہ حسن ظن میں کمی یعنی شرک کا ارتکاب کرنا۔ اس لئے مکمل یقین اللہ کے ذات پر ہو پھر دیکھے اللہ ہمارے کام کو کیسے آسان بناتا ہے۔ رسالت پر بھی مکمل یقین رکھنا بہت ضروری ہے۔ نبیؐکے سنت کو سنت سمجھ کر نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ بہت سارے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ فلاں کام فرض تو نہیں سنت ہے۔ اور اسطرح سنّت سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ یاد رکھئے۔ ہمارے نبیؐ نے فرمایا تھا کہ میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اسکو جو مضبوطی سے تھامے رکھے گا وہ کامیاب ہوگا۔ ایک قرآن شریف اور دوسرا میرا سنّت۔
ہم نے جو کلمہ لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ پڑھا ہے۔ اس میں بھی یہی دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہے ایک یہ کہ اللہ ہمارا معبود ہے اور محمد ﷺ ہمارے رسول ہے۔ یعنی اللہ کے تمام احکام کی فرمابرداری اور سنت رسولؐ کی اتباع۔ یہی ہماری زندگی کا عین مقصد ہے۔ اسی کا نام دین ہے۔ جس کے زندگی کے اندر مکمل دین ہوگا وہی کامیاب ہوگا۔ ناقص، دین پر اللہ کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔
اسطرح ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ کے احکام اور سنت رسول میں ہمارے لئے کامیابی چھپی ہوئی ہے۔ ان باتوں پر یقین کرتے ہوئے اس کو اپنے زندگی میں شامل کرنا بہت ضروری ہے۔ اللہ کے غیبی نظام یعنی فرشتوں کے ذریعہ تمام کائناتی نظام کے چلانے پر ہمارا مکمل یقین ہونا چاہیے۔ اللہ کے نازل کردہ آسمانی کتابوں خاص طور سے قرآن شر یف پر ہمارا مکمل یقین ہونا چاہیے۔ سورۃ بقرہ کے شروع میں ہی اللہ نے اعلان کر دیا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن آج ہم قرآن شریف کے احکامات پر کتنا عمل پیرا ہیں ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ قرآن شریف میں ہمارے زندگی گزارنے کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کر دیا گیا ہے۔ بس ضرورت ہے اس پر عمل کر کے اس سے مستفید ہونے کی۔ صحابہ کرام ؓ ان پر عمل کر کے ایسے کامیاب ہوئے کہ اس کی نظیر آج تک نہیں ملتی۔ آج کے طرح اس زمانے میں تعلیمی نظام بھی نہ تھا لیکن اسی قرآن شریف کے تعلیمات کے ذریعہ وہ دنیا میں اپنی خلافت جما کر چلے گئے۔ وہ قرآن سے قریب ہو کر کامیاب ہوئے اور ہم قرآن سے دور ہو کر رسوا ہو رہے ہیں۔
آج اس بہترین امت کے افراد کا حال یہ ہے کہ برسہا برس گزر جار ہے کہ لیکن اسے ایک دن بھی فرست نہیں کہ قرآن شریف کو کھول کر دیکھے۔ پڑھنے، سمجھنے اور غوروتدبر تو دور کی بات ہے۔ اللہ ہمارا خالق ہے۔ ہمارے لئے کیا فائدے مند ہے۔کون سی چیزیں ہماری زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے کلام یعنی قرآن شریف کو مضبوطی سے تھامے اور اللہ نے ہمارے لئے جس کو آئڈیل بنا کر بھیجا اس کے طرز زندگی یعنی اس کے سنتوں کو اپنی زندگی میں شامل کریں پھر دیکھیں کہ ہماری زندگی میں کیسا انقلاب آتا ہے۔ جس طرح اسلام کے اولین دور میں سرزمین عرب کی کایا پلٹ گئی تھی اسی طرح ہماری بھی کایا پلٹ جائیگی۔
۲) تقوٰی:۔ تقوٰی کا لغوی معنی ’خدا کا خوف، پرہیز گاری، پارسائی اور اپنے آپ کو گناہ سے بچانا ہے۔ اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے قرآن شریف میں اللہ فرماتا ہے کہ:
”سنو جو اللہ کے دوست ہے، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوٰی کارویہ اختیار کیا، انکے لئے کسی خوف و رنج کا موقع نہیں ہے۔ دنیا و آخرت دونوں زندگیوں میں انکے لئے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتی۔ یہی بڑی کا میابی ہے۔“ (سورہ یونس: ۲۶۔۴۶)
مندرجہ بالا آیات میں اللہ والوں کی دو صفات بتائی گئی ہے۔ ایمان اور تقوٰی۔ جس کے پاس یہ ہوگا اس کو کسی طرح کا کوئی رنج و خوف نہیں ہے۔ نہ ہی دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں۔ ان دو صفات والوں کو دنیا اور آخرت کی بشارت یعنی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ اور اس کو سب سے بڑی کامیابی بتایا گیا ہے۔ اکثر آج کل کے مسلمانوں کا حال یہی ہے کہ وہ دنیا خراب ہو جانے کے ڈر سے اسلامی احکامات کو پس پشت رکھ کر زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پانچ وقت کا نماز ادا کرینگے تو ان کا وقت ضائع ہوگا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ زکوٰۃ صدقات ادا کرینگے تو ان کا مال ضائع ہوگا۔ اور ان سب فضول کے خیالات کے بنا پر وہ دینی احکامات کو ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ حالانکہ یہاں بتا دیا گیا کہ دنیا کی کامیابی بھی اسی تقوٰی کی روش میں مضمر ہے۔ اور آخرت تو ہے ہی متقیوں کے لئے۔
۳) اہتمام نماز:۔ جس کے پاس کامل ایمان ہو گا اور وہ اگر تقوٰی کی روش کو اپنانا چاہتا ہو تو ضروری ہے کہ اسلام کے احکامات میں سے سب سے مہتم بالشان عبادت نماز کو اپنی زندگی میں لازم کر لے۔ نماز ایک ایسی عبادت ہے جس کو اللہ نے نبیؐ کو معراج میں بلا کر تحفہ کے طور پر دیا ہے۔ باقی زیادہ تر اسلامی احکامات زمین پر جبرئیل ؑ کے وسیلے سے وحی کے ذریعہ سے آپ ؐ پر نازل ہوئے۔ اس طرح سے نماز کے اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نماز کو مومنوں کا معراج بھی کہا گیا ہے۔ نماز کی حالت میں اللہ اور بندہ کے درمیان کے تمام پردے ہٹا دیئے جاتے ہیں۔ اور بندہ براہ راست اللہ سے ہم کلام ہوتا ہے۔ نماز کا تحفہ لا کر جب آپ ؐ صحابہ ؓ کو دیئے تو صحابہ ؓ بہت خوش ہوئے کہ اللہ سے لینے کا ذریعہ مل گیا۔ نماز میں اللہ دنیا اور آخرت کے تمام مسائل کا حل رکھا ہے۔ نماز ادا کرنے والوں کو اللہ مدد کا وعدہ فرمایا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر ہے کہ:
”صبر اور نماز سے مدد لو“ (سورۃالبقرہ : ۵۴)
آج دنیا میں مسلمان معاش کمانے میں اور اپنا روزی کا مسئلہ حل کرنے میں اور دنیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں نماز جیسی عظیم دولت سے محروم ہے۔جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر ہے کہ: ”تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کے دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے۔ یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لب گود (قبر) تک پہنچ جاتے ہو۔ ہر گز نہیں (یہ کوئی بھلائی نہیں ہے) عنقریب تمہیں معلوم ہو جائیگا“۔ (سورۃ اتکاثر : ۱۔۳)
حالانکہ رزق میں برکت اور زندگی میں برکت کا وعدہ اللہ نے اہتمام نماز میں رکھا ہے جسکا ذکر قرآن شریف میں ہے کہ: ”اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔ ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم تمہیں دے رہے ہیں اور بہتر انجام تو پر ہیز گاری ہی کا ہے۔“ (سورۃ طٰحٰہ : ۲۳۱)
یہاں نماز کے اہتمام پر زور دیا گیا ہے اور رزق کے حصول کے الجھن سے پرہیز کی تاکید ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ذریعہ معاش میں الجھ کر نماز کے اہتمام سے غافل ہو جاؤ۔ بلکہ نماز کا اہتمام ہو تا رہیگا تو رزق کی فراوانی بھی ہوتی رہے گی۔ یہاں رزق کے وسیع معنی کو بھی سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اسلام میں رزق کے معنی صرف کھانا، خوراک یا روپئے پیسے ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت جو انسان کو خوشیاں فراہم کرتی ہے وہ سب کے سب رزق میں شمار ہوتا ہے مثلاً غذا، لباس، صحت و تندرستی، نیک بیوی، نیک اولاد، مال و جائداد، عزت و شہرت، رتبہ وغیرہ سبھی رزق میں شامل ہے اور ان سب میں برکت نماز کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ ایک صحابیؓ نے اپنے تنگی رزق کی شکایت آپؐ سے کی تو آپؐ نے ان کو اپنے گھر کے صدر دروازہ پر پردہ لگانے کی ترغیب دی۔ صحابی ؓ نے ایسا ہی کیا۔ اسطرح ان کے گھر میں برکت ہونا شروع ہوگئی۔ نبیؐ سے اسکا خلاصہ معلوم کیا گیا تو نبی ؐ نے فرمایا کہ تمہارا گھر راستے کے کنارے واقع ہے جس میں بے نمازیوں کی نظر پڑتی تھی جس سے گھر میں برکت نہیں ہوتی تھی۔ تو بتائیے جس گھر میں خود بے نمازی موجود ہو اس میں بر کت کیسے ہوگی۔ عہد رسالت میں منافق بھی نماز قضا نہیں کرتے تھے اور آج کے مسلمان نماز چھوڑدیتے ہیں۔ اپنے حالت میں سدھار کے لئے اہتمام نماز بہت ضروری ہے۔ تا کہ زندگی با بر کت ہو سکے۔
۴) لغویات سے پرہیز:۔
قرآن شریف میں ایمان والوں کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ لغو یعنی بیکار باتوں یا کاموں سے پرہیز کرتے ہیں جن باتوں سے دنیا یا آخرت میں کوئی بھلائی حاصل نہیں کی جاسکتی اس کو لغو یا بیکار کہا جاتا ہے۔ اس بات کا ذکر قرآن شریف کے سورہ مومنو ن کے آیت نمبر ۳ میں کیا گیا ہے کہ: ”مومن لغویات سے دور رہتے ہیں“۔ لغویات سے پرہیز میں نماز سب سے بڑھ کر مددگار ثابت ہوتا ہے کیونکہ نماز کا خاصہ ہے کہ وہ بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔ قرآن شریف میں ذکر ہے کہ:
”یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے“ (سورۃ العنکبوت : ۵۴)
جب ہم لغویات سے منھ مول لیتے ہیں تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم صرف اور صرف کارآمد باتوں اور کاموں کی طرف ہی اپنا جی لگاتے ہیں جس سے ہماری دنیوی اور اخروی کامیابی آسان ہو جاتی ہے۔
۵) اخلاق حسنہ کی پابندی:۔
حدیث شریف میں ہمارے نبیؐ کا قول مبارک ہے کہ لوگ سب سے زیادہ جنت میں جن اعمال کے ذریعہ داخل ہونگے وہ دو ہیں: تقوٰی اور حسن اخلاق۔ اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حسن اخلاق یا اخلاق حسنہ کی ہمارے دین میں بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اخلاص، ایثار، صدقہ، قدر شناشی، شکر و احسان شناسی، عفت، صبر، حسن معاملہ، ایفائے عہد، عدل و انصاف، تواضع و انکساری، خدمت خلق، سادگی اور اعلیٰ ظرفی وغیرہ اور اس طرح کے اور بھی مکارم اخلاق انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ بننے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں جو ہماری دنیوی اور اخروی کامیابی کے ضامن ہیں۔
۶) اخلاق رذیلہ سے پرہیز:۔
اخلاق رذیلہ یعنی بے حسی، ریا، نفاق، قول و عمل میں تضاد، مبالغہ آرائی، جھوٹ، گناہ، کبر، نفس پرستی، شہرت کی طلب، خودغرضی، بے حیائی، نفس پرستی، حب دنیا، عیش پرستی، تنگ ظرفی و تنگ دلی، عداوت، بخل، غصہ، سخت دلی، عیب، چغلی، حسد، کینہ، قطع رحمی، رشوت اور اس طرح کی تمام برائیاں ہمیں دنیا و آخرت میں رسوا کرتے ہیں۔
۷) علم و فن میں مہارت:۔ اس امت کے ایک ایک فرد کے اندر اللہ نے خدا داد صلاحیت رکھی ہے کیونکہ ان کو لوگوں کی بھلائی کے لئے چنا گیا ہے۔ بس ضرورت ہے کوشش و محنت کے ذرعیہ سے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کی۔ اپنی صلاحیتوں کو مدد نظر رکھتے ہوئے علوم و فنون میں سے کوئی ایک شعبہ اپنے لئے مختص کر کے اس میں مہارت حاصل کرنی ہے تا کہ ہمارے دنیوی اور اخروی مسائل حل ہو سکے۔ آج کا مسلمان تعلیمی میدان میں دیگر قوموں سے کافی پیچھے چل رہا ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ بھی یہی بات بتائی گئی تھی اور حالیہ دنوں میں Education Ministry حکومت ہند کی جانب سے کرائی گئی AISHE Survey 2020-21 کے مطابق بھی یہ رپورٹ سامنے آئی ہے کہ مسلم قوم ہائر ایجوکیشن میں SC، ST اور OBC سے بھی پیچھے ہو گئے ہیں۔ تو اگر ہم تعلیمی میدان میں پیچھے ہونگے تو بھلائی کا کام ہم کہا ں تک کر سکتے ہیں۔ نہ ہم اپنی بھلائی کر سکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کا۔
۸) صدقات کا اہتمام:۔ حدیث شریف میں ہمارے نبی ؐ نے فرما یا ہے کہ ”صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا ہے“ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والا ہاتھ سے بہتر ہے“۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے جتنا خرچ کیا جائیگا یا ان نعمتوں سے لوگ جب تک مستفید ہوتے رہیں گے تب تک نعمتوں میں اللہ اضافہ کرتا رہے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اپنے علم، دولت وغیرہ میں جائز طریقہ اختیار کر کے اضافہ کیا جائے اور مزید ترقی کے لئے خوب اسکو لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔ جو انسان جو کچھ بھی لوگوں میں تقسیم کریگا اللہ کا طریقہ ہے کہ اس کے اس نعمت کو بڑھائے گا۔ کیونکہ تقسیم کرنے والے کو پہلے ملے گا تب وہ دوسروں تک پہنچایا جائیگا۔ اسطرح سے صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اور صدقہ کرنے سے علم و دولت میں برکت ہوتی ہے۔ ہر آفت بلاء پریشانی سے اللہ حفاظت فرماتے ہیں۔ اسطرح سے ہمارے پاس اگر کم بھی ہے تو وہ محفوظ رہنے کی وجہ سے بڑھا ہوا معلوم ہوگا۔ ورنہ اگر زیادہ ہوا در کسی آفت بلاء کے وجہ سے لٹ جائے تو پھر وہ بھی کم معلوم ہونے لگے نگے اس لئے اپنے نعمتوں (علم و دولت)کو خوب تقسیم کرنا چاہیے۔ صدقہ کرنے سے سات سو اور اس سے بھی زیادہ اللہ کے طرف سے ملتا ہے۔ اسطرح ترقی میں صدقہ بہت معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ صدقہ کا دائرہ بھی اللہ کے طرف سے کافی وسیع کیا ہوا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ ”ہر بھلائی صدقہ ہے“۔
۹) خدمت خلق:۔ مشہور مقولہ ہے کہ ”خدمت انسان بندگی رب“۔ خلق خدا کی خدمت کرنے سے اللہ بہت خوش ہوتا ہے اور جس سے اللہ راضی ہو جاتا ہے اس کو نوازتا بھی خوب ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اس لئے وہ اپنے شان کے مطابق نوازتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ”تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کریگا“۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ”تم کسی کی ایک ضرورت کو پورا کرو گے اللہ تمہاری بہتّر ضرورتوں کو پورا کرینگے“۔ انسان کی خدمت کا مقام اعلیٰ تو ہے ہی کسی بھی ذی روح مخلوق کی خدمت ہمارے لئے بے فائدہ نہیں ہے۔ مشہور ہے کہ ایک فاحشہ عورت کی بخشش ایک کتے کو پانی پلانے سے ہوگئی۔ اور ایک عبادت گزار عورت کو عذاب اس وجہ سے نصیب ہوئی کہ وہ اپنے پالتو بلّی کو غذا صحیح وقت پر فراہم نہیں کیا کرتی تھی۔
۰۱) دعوت و تبلیغ:۔ یہی وہ کام ہے جس کے لئے اللہ نے ہمیں یعنی امت محمدیہ کو اس دور میں پیدا فرما یاہے۔ جیسا کہ شروع میں بیان کیا گیا ہے کہ امربالمعروف و نہی عن منکر (بھلی باتوں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا) اس امت کو ختم نبوت کے صدقے میں ملی ہوئی ہے۔ جب یہ امت دین کی مدد اس دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے کرے گی تو سب سے پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ دین لوگوں کے زندگیوں میں باقی رہیگا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ ہوگا کہ اللہ کی مدد ہمارے ساتھ شامل حال ہوگی۔ جیسا کہ قرآن شریف میں ہے کہ:
”تم میرے دین کی مدد کرو میں تمہاری مدد کرونگا“ (سورہ محمد : ۷)
اب بتائیے کہ جب اللہ اس امت کی مدد کی ذمہ داری دعوت تبلیغ کے کام کے عوض اٹھا رکھا ہے تو بھلا اس امت کو کون دنیا و آخرت میں پچھاڑ سکتا ہے۔ اللہ سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہے۔ جب یہ طاقت ہمارے ساتھ ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ذلت و خواری میں مبتلا ہے۔ وجہ اس کا یہی ہے کہ ہم اپنے منصب کی ذمہ داری نبھانے میں کوتاہی برت رہے ہیں۔
ا للہ نے قرآن میں وعدہ فرمایا ہے کہ:
”جو تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کئے ان کو ضرور روئے زمین کا خلیفہ بنائے گا“۔ (سورہ نور : ۵۵)
”حق ہے ہم پر مدد ایمان والوں کی“۔ (سورہ الروم : ۷۴)
”اور تم ہمت مت ہارو اور رنج مت کرو اور غالب تم ہی رہوگے اگر تم پورے مومن رہے“۔ (سورہ ال عمران : ۹۳۱)
”اور اللہ ہی کی ہے عزت اور اس کے رسول ؐ کی اور مسلمانوں کی۔“ (سورہ منافقون:۸)
مندرجہ بالا آیات کو مد نظر رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عزت، شان و شوکت، سر بلندی و سر فرازی اور برتری صرف مومنوں کے لئے یعنی امت محمدیہ کی ایک ایک فرد کے لئے ہی ہے۔ لیکن آج کے امت محمدیہ کی اکثر یت کا حال یہ ہے کہ وہ نماز جیسی مقدم عمل صالحہ سے بھی لا پرواہی برت رہی ہے۔ اپنے اوقات کو فضول مشغلوں میں ضائع کر رہی ہے۔ لغویات سے پرہیز نہیں کر رہی ہے۔ فرست کے اوقات کو سیر و تفریح میں گزار رہی ہے۔ غیروں کی نقالی میں فخر اور سنت رسول کی اتباع میں شرم محسوس کر رہی ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کا جنازہ نکلتا جا رہا ہے۔ جس امت کو اللہ نے دنیا میں Contributor بنا یا تھا وہ آج Recepient بنی بیٹھی ہے۔ داعی کم مدعو زیادہ بنی ہوئی ہے۔ تو ایسے حالات میں ذلت و خواری نصیب نہ ہوگی تو اور کیا ہوگی۔ الئے ضروری ہے کہ مندرجہ بالا اوصاف کو اپنی زندگیوں میں زندہ کیا جائے اور دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل کی جائے۔