تعلیم نسواں کیوں اور کیسے؟؟؟
ازقلم✧ محمد ساحل جمال صدیقی کیسریا بہار الھند
اس دار فانی کے اندر جتنی قومیں اور ادیان ومذاہب ظہور پزیر ہوۓ خواہ وہ یہود ونصاری ہوں، بدھ مت ہو یا مسلمان ہر قوم وملت کی ترقی کا ذریعہ اور ان کو بام عروج تک پہنچانے کا اولا زینہ تعلیم وتربیت ہے اور مذہب اسلام نے بھی تعلیم وتربیت کو مقصود کا درجہ دیا ہے اور کیوں نہ دیا جائے جبکہ ہمارے آقا ﷺ کے آنے سے قبل شرک وکفر کے دلدل میں پھنسے ہوئے لوگوں نے اپنے اندر تعلیم وتربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے طرح طرح کے خرافات اور گناہ میں مبتلا تھے،
مثلاً شراب نوشی؛ قمار بازی؛ زناکاری؛ اور ظلم وتشدد وغیرہ عام تھا اور یہی لوگ جب تعلیم وتربیت سے آراستہ ہوۓ تو پورے عالم عرب سے ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں وہ گئے ظلم و ستم کو عدل وانصاف سے بدکاری و فواحش کو نیکیوں سے بدل کر دم لیا؛ اس سے معلوم ہوا کہ جہالت کا قوم وملت کے اندر ہونا تمام برائی کا اصل سبب ہے اور تعلیم ان کو مٹانے کا ذریعہ ہے،
سوال ہے کہ کونسی تعلیم مراد ہے ؟یاد رہے تعلیم دنیوی ودینی دونوں ہی نفع بخش ہے ، ہاں دنیوی تعلیم کو بقدر ضرورت حاصل کرنا بھی ایک اہم فریضہ ہے لیکن دینی تعلیم کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ فکری اصابت درستگی اعمال اور اخلاق حمیدہ کا اصول اس کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ تعلیم کے بغیر نہ انسان اچھی تربیت پاسکتا ہے نہ اپنے کارواں کو آگے بڑھا سکتا ہے اور نہ عقل و فراست کے عروج کو حاصل کرسکتا ہے، بلکہ ان تمام چیزوں کی راہ حصول میں مانع علم و حکمت سے نا آشنائی ہے۔
الحاصل قوموں کی ترقی وتنزلی، اقبال وادبار تعلیم پر ہی موقوف ہے اور یہ جس طرح مردوں کیلئے ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ عورتوں کیلئے ضروری ہے اس لئے کہ جب تعلیم نسواں ہوں گی تو اس کی وجہ سے ان کے عقائد واعمال درست ہوں گے، ان کی گود میں پرورش پانے والے بچوں کی نشونما اچھی ہوگی ۔ کیونکہ ماں کی گود میں ہی بچے سب سے پہلے تعلیم پاتے ہیں اور یہ ان کے لئے پہلی تعلیم گاہ ہےجب بچہ اس دنیاۓ رنگ وبو میں آنکھیں کھولتا ہے تو سب سے پہلے اسے ماں کا واسطہ پڑتا ہے، اپنی ماں کی اخلاق وکردار کو دیکھ کر اپنے اندر لانے کی سعی کرتا ہے،
ماں کی تعلیم وتربیت کا ہی کا نتیجہ ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ غوث الوقت بنے ، مولانا اشرف علی تھانوی حکیم الامت بنے، مولانا عبدالرشید گنگوہیؒ فقیہ النفس وتصوف کے امام بنے، اور ان کی عزت و عظمت پر دنیا محو حیرت ہے، اور بچہ حرمان تربیت کے سبب رہزنِ زمن بن جاتا ہے اس لئے خواتین میں منظم تعلیم کا اہتمام کیا جائے ، آج جہالت نے انہیں خدا سے دور اور عبادت وریاضت سے برطرف کرکے ناچ گانا، فلم بینی میں مشغول کردیا ہے، صد حیف ہے مردوں پر کہ خواتین کیلئے عصری تعلیم کا نظم کیا اور دینی تعلیم کو پس پشت ڈال دیا جس کو انسان کو انسانیت کا درس ملتا ہے، جس کا برا نتیجہ ہمارے آنکھوں کے سامنے ہے،
چراغ وہی جلاؤ تو روشنی ہوگی
جس کو فضول سمجھ کر تم نے بجھادیا