Uncategorized

یہ فیصلہ تو ہونا ہی تھا : مفتی محمد نصر الله ندوی

حجاب مسئلہ پر کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ حیران کن نہیں ہے،تین ججوں کی بینچ نے پہلے ہی دن یہ آڈر دیا کہ،فی الحال حجاب کی اجازت تعلیمی اداروں میں نہیں ہوگی،اسی سے عدالت کا رخ صاف ہوگیا تھا،عام طور سے ایسے موقع پر عدالت "جوں کا توں صورتحال” برقرار رکھنےکا حکم دیتی ہے،مگر کورٹ نے عدالتی روایت سے ہٹ کر،نیا فرمان جاری کیا،جس سے اس کے ارادے صاف ہو گئے تھے،بحث مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا،شاید یوپی کے نتیجہ کا انتظار تھا، اگر چہ یہ نتیجہ بھی خلاف توقع ہے،اور بہت سے لوگوں کیلئے سمجھ سے پرے ہے،لیکن اس سے فرقہ پرست طاقتوں کو ایک نیا جوش مل گیا ہے۔۔

ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران،حجاب کی پیروی کرنے والے وکلاء نے بڑی محنت کی اور عدالت کے سامنے حجاب کے ضروری ہونے سے متعلق سارے ثبوت وشواہد پیش کئے،عدالت کے سامنے قرآن کریم کا مستند ترجمہ پیش کیا گیا،سورہ احزاب کی آیت نمبر 59 اور سورہ نور کی آیت نمبر 31 کا حوالہ دیا گیا،جن میں واضح طور پر چہرہ پر گھونگھٹ ڈالنے اور سینہ پر دوپٹہ ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے،ایک مسلمان کیلئے قرآن کا حکم ماننا فرض اور ضروری ہے،اس کے بغیر چارہ کار نہیں ہے،اسی طرح عدالت کے سامنے بخاری ومسلم کے مترجم نسخے پیش کئے گئے ،اور ان روایتوں کی نشاندہی کی گئی،جن سے پردہ کے لازم ہونے کا ثبوت ملتا ہے،لیکن حیرت کی بات ہے کہ،عدالت نے قرآن وحدیث کے واضح احکام کو نظر انداز کردیا

دوسری طرف حکومت کی نمائندگی کرنے والا ایڈوکیٹ جنرل مسلسل ایک ہی رٹ لگاتا رہا کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے،اپنے دعوی کی دلیل میں اس نے کوئی ثبوت بھی نہیں پیش کیا،لیکن عدالت نے اس کو قبول کر لیا،کہا جاتا ہے کہ عدالت میں صرف دلیل اور حجت کام آتی ہے،لیکن ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں ثبوت وشواہد کو بالکل نظر انداز کر دیا،کورٹ کے اس فیصلہ سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انصاف پسندوں کو بہت مایوسی ہوئی ہے،اور عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال کھڑا ہو گیا ہے!!

یہ معاملہ پہلے ہی سپریم کورٹ پہونچ چکا ہے،لیکن اس نے سماعت سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا تھا کہ،پہلے ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے دیا جائے،اب جب کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آگیا ہے،امید کہ سپریم کورٹ اس پر جلد از جلد سماعت شروع کرے گا،ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ میں مضبوط پیروی کی جائے اور اس کے سامنے تمام ثبوت وشواہد پیش کئے جائیں،سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک انتظار کیا جائے اور ٹی وی چیلنوں میں غیر ضروری بحث ومباحثہ سے اجتناب کیا جائے،اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ،ملت کے اہل ثروت اور مخیر حضرات لڑکیوں کیلئے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی طرف فورا توجہ دیں نیز مسلم خواتین اپنے گھر کے اندر اور باہر پردہ کے اہتمام کو یقینی بنائیں۔

اس فیصلہ کا مطلب صاف ہے کہ،اب شریعت میں عدالتوں کی مداخلت شروع ہو گئی ہے،آج حجاب کا مسئلہ ہے،کل اذان کا مسئلہ ہوگا اور پھر مسجد کا مسئلہ آئے گا،اور اس کے بعد نکاح وطلاق کا مسئلہ ،پھر یکساں سول کوڈ کا اعلان ہوگا،دھیرے دھیرے یہ مسئلہ وہیں تک پہونچے گا،اس لئے ہمیں اب شرعی مسائل کو عدالت میں لے جانے سے گریز کرنا ہوگا، اس لئے کہ اب عدالتیں بھی بابری مسجد کی طرح فیصلہ سنا سکتی ہیں،اس لئے اب عدالتوں پر زیادہ پر بھروسہ کرنے کے بجائے،سیاسی اعتبار سے اپنی طاقت کو مضبوط کیا جائے(سیاسی طاقت اور سیاسی پارٹی کا فرق ملحوظ رہے)اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیا جائے،پنچایتی الیکشن سے لیکر پارلیمنٹ تک اپنی نمائندگی بڑھانے کی کوشش کی جائے،ہمیں اس سلسلہ میں ملت کے اندر بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اسی کے ساتھ ساتھ اپنی حکمت تبدیلی کرنی ہوگی،نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کیلئے نئے طور وطریق اختیار کرنے پڑیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button