"حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو "
✒️: عین الحق امینی قاسمی معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے
یوم جمہوریہ ، ملک کے تئیں ہمارے اسلاف کی قربانیوں کو یاد کرنے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سنہرا موقع فراہم کرتا ہے اور جشن جمہوریہ کے ان حسین لمحوں میں اپنی متحدہ قوتوں کو یاد کرنے کے حوالے سے بھی یہ ایک ایسا تاریخی ویادگار لمحہ ہے ،جہاں ماضی کو حال سے جوڑنے اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کر ملک میں بسے تمام طبقات کے لئے دستوری حقوق سے آگاہی فراہم کرتا ہے،یہ ایسا حسین لمحہ ہے جہاں رک کر ہم اپنے سماج ومعاشرے کا احتساب بھی کرسکتے ہیں کہ ایک سوتیس کروڑ آبادیوں والا یہ ملک بھارت ،جہاں محبتوں کا ترانہ وردزباں ہوا کرتا تھا،
جہاں ہندو مسلمان شروع سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں ،آج کیوں نفرتوں کا مسکن بن گیاہے؟ یہی وہ پیاراملک ہے جس کی محبتوں کی مثال دی جاتی تھی ، جس کی جمہوریت کوآئڈیل مانا جاتا تھا ،یہی وہ ملک ہے ،جہاں اگر ہندوؤں نے مسلمانوں کو پھانسی کے پھندوں سے اتار نے کا کام کیا تھا تو وہیں مسلمانوں نے اپنے ہندو بھائیوں کوتختہ دار سے بچا کر خود پھانسی کے پھندوں میں لٹک جانا گوارا کیا تھا ،
یہ تو وہ ملک ہے جس میں ہندو مسلمان ایک ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھایا کرتے تھے ، جہاں مسلمان ، ہندو بیٹیوں کے لئے سات پھیروں کا نظم کر ان کے گھر بسانے کی خدمت انجام دیتا تھا اور ہندو اپنے مسلم بھائیوں کی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر ان کے لئےساز وسامان مہیا کراتا تھا ،اسی بھارت میں ہندومسلم مائیں ایک دوسرے کے چولہے پر کھانا تیار کرتیں ، ہندو کے گھر سے مسلمان کا کھانا آتا، تو مسلم کے گھروں سے ہندو بھائیوں کا کھانا جاتا تھا ،
مسلم مائیں اپنے ہندوپڑوسیوں کے بچوں کا مساج کرتیں تو ہندو بہنیں، مسلم بچوں کو لوریاں سناتیں۔ آج جب کہ نفرتوں کی کھیتی ہورہی ہے ،تب بھی مسلمانوں نے اپنی روش اور پروجوں سے ورثے میں ملی انسانیت کو زندہ رکھا ہوا ہے ، آج بھی ہمارے سماج میں مرنے والوں کی ارتھی کو کاندھا دینے کے لئے مسلم نوجوانوں کا ندھا تیار رہتا ہے ۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے دیش کو آزاد کرانے کی خاطر سفید فاموں سے لڑائی مول لی تھی ،کیا مسلمانوں نے ہی آزادی وطن کی خاطر انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیا تھا ،کیا دہلی کےچاندنی چوک سے لاہور تک مسلمانوں کی لاشوں کو درختوں پر نہیں جھلایا گیا تھا ، کیا مسلمانوں نے تحریک خلافت آندولن برپا کر پورے ملک میں ہندو مسلم ایکتا کی لہر پیدا نہیں کی تھی ،کیا مسلمانوں نے ہی ہندوستان کو راکٹ ساز نہیں دیا ،کیا مسلمانوں نے میزائل مین عبد الکلام جیسا سپوت نہیں دیا ،جس نے پڑوسی ملک کی پیشکش کو ٹھکرا کر ہندوستان میں اجنبی بن کر جینا گوارہ کرلیا۔ کیا مسلمانوں نے ہی اس ملک کو سونے کی چڑیا نہیں بنایا تھا اور کیا مسلم حکمرانوں کے دور میں دیش غلام تھا ،کیا اس دور میں ہندو مسلم کے درمیان کوئی ایسا نفرت آمیز چلن تھا،جہاں ہم روز مرتے ہیں ۔
سرزمین ہند پر مسلمانوں کے اثرات واحسانات کو گنا نا اور تاریخ کی ورق گردانی کرنا مقصد نہیں ،بلکہ سرسری احساس کو جگانا ہے کہ اتنی جلدی ہمارے ملک کو گہن کیسے لگ گیا ،اس کی روشن تاریخ پر نفرتوں کی کائی کیوں کر جم گئی ؟ان تمام سچائیوں کے باوجود فاصلہ بنانے کے نام پر ملک کی چاٹوکار گودی میڈیا نے جس طرح ہمیں خانوں میں بانٹ کر سماج میں زہر گھول نے کا کام کیا ہے ،اس سے ملک کا تانا بانا بکھر رہاہے،ہمارادیش بدنام ہو رہا ہے ،سماج کا سنجیدہ طبقہ شرمسار ہے ،ان کے پاس بولنے کوالفاظ نہیں ،رونے کو آنسو نہیں ،وہ تنگ آ چکے ہیں ،
ایسا نہیں ہے کہ یہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز بنانے والے بے چارے ہیں ،ںلکہ یہ سب کچھ سوچی سمجھی سازش اور پری پلان کیا جارہا ہے ،ان زہریلے سماج خوروں کی پشت پر مضبوط ہاتھ ہے ،جس سے شہ پاکر یہ اتپات مچا رہے ہیں ،آئے دن موب لیچینگ ،عصمت دری اور انسانیت سوز حرکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور ہمارا ذمہ دار طبقہ چپکی سادھے تماشہ دیکھ رہا ہے ،سماج کو توڑنے والے ان غنڈوں کو لگام دیا جاسکتا ہے ،مگر مشکل یہ ہے کہ اسی پر تو اقتدار کی کرسی ٹکی ہوئی ہے ،کرسی بچانے اور دیر تک براجمانی کے لئے ہی تو یہ سارا ڈرامہ رچاجارہا ہے ،جب قاتل ہی منصف ٹھہرے تو انصاف کہاں اور کیوں کر !
یوم جمہوریہ 26/جنوری ،راشٹریہ پر و اور جشن جمہوریہ کے موقع پر ہم دیش کے ان تمام معماروں اورامن کے پیغامبروں کو سلام کرتے ہیں اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ،جنہوں نے ملک کی تعمیر وترقی کے لئے اپنی قربانیاں پیش کیں اور جمہوری تانے بانے کو مضبوط اور مستحکم رکھنے کے لئے ملک کو عظیم دستور وآئین دینے کا تاریخی کام کیا۔
ضرورت ہے کہ سنجیدہ طبقہ سامنے آئے ،ملک سے سچی پکی محبت کرنے والے آگے آئیں ،آپسی محبتوں کے بیچ نفرتوں کی کھڑی دیوار کو بھسم کر دلوں کو جوڑنے کی مخلصانہ کوشش کریں ،تعلیم ،دعوت اور تنظیم کی راہوں ں سے انسانیت ،آدمیت اور اخلاقیت کے پیغام سے ایک ایک فرد کو جوڑنے کے لئے عملی سطح سے پہل کیا جائے ، ایک دن محبت ،پیار اور امن کی جیت یقینی ہے ،نفرت کو محبت سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے ،برد باری اور تحمل ہی ملک کو جوڑنے کا راستہ ہے، خدمت خلق، جو مضبوط پلیٹ فارم ہے ،اس سے بہر حال سماج کو فائدہ پہنچایاجائے ،۔
اسی طرح سنجیدہ منصف مزاج طبقے کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپس میں ماضی کی طرح پیار ومحبت اور انسانیت کا ماحول بنائے رکھیں،دکھ سکھ میں ساتھ رہیں اور اپنے ملک کی ترقی اس کی بھلائی کے لئے ہم سے جو کچھ بھی ہوسکتا ہو اس میں پیچھے نہ رہیں ،ترقیاتی امور میں حکومت کا ساتھ دیں،ان کی طرف سے ہونے والے اچھے کاموں کی سراہنا کریں ،تعلیم کو عام کریں ،اسکول وکالج قائم کر غریبوں ، مزدوروں کسانوں کے بچوں کو بھی طاقت فراہم کریں ،عدلیہ کی مدد سے قانون کی بالادستی سب کے لئے یکساں ہونا چاہیئے ،
انصاف کا حصول جلد اور آسان ہو ،مہاتماگاندھی اوردیگرمجاہدین آزادی کے خوابوں کا ہندوستان بنانے کے لئے بھیم راؤامبیڈ کر کے ذریعے لائے گئے ” آئین ہند” کو ہر حال میں شرپسندوں سے بچایا جائے، شر پھیلانے والوں کی کوششیں ضرور ایک دن ناکام ونامراد ہوں گی ،حق اور سچ کی محنت رنگ لائے گی ۔
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جر م نہ ہو ز ند گی وبا ل نہ ہو