اہم خبریںمضامین

یادوں کے چراغ

یادوں کے چراغ
الحاج عتیق احمد ناصری
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ ارباب حل وعقد، مدرسہ اسلامیہ شکر پور بھروارہ، مدرسہ رشیدیہ رسول پور نستہ دربھنگہ اور عیدگاہ کمیٹی بھروارہ کے رکن مدرسہ ناصر العلوم ناصر گنج کے بانی حاجی عتیق احمد(ولادت20/ دسمبر 1952) بن مولانا محمود عالم (م29/ مئی 1988) بن ڈپٹی عبد الصمد یاد علی بن وارث علی بن قاضی احمد ساکن ناصر گنج نستہ وایا بھروارہ ضلع دربھنگہ کا28/ جولائی 2021ء مطابق18/ ذی الحجہ1442ھ روز بدھ شام کے چار بیس پر انتقال ہو گیا، وہ عرصہ دراز سے صاحب فراش تھے، لیور نے کام کرنا بند کردیا تھا، پیٹ میں پانی بھر جاتاتھا، جسے وقفہ وقفہ سے نکالا جاتا تھا، تکلیف بے حد تھی، لیکن زبان پر کلمات شکر کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا، انتقال کے دن صبح صادق سے ہی غسل دلانے کے لیے اصرار کر رہے تھے، غسل دلانے کے بعد اور ادواذکار کے ساتھ فجر کی نماز لیٹے لیٹے ادا کی، ساڑھے چھ کے قریب کھڑکیاں کھولنے کو کہا، اور یہ بھی کہ پانچ مہمان آ رہے ہیں، لوگوں نے دیکھا تو کہیں کوئی نہیں تھا، سات بجے کے قریب کو ما میں چلے گیے اور شام میں جان جان آفریں کے سپرد کر دیا، انتقال کے وقت ان کی عمر انہتر سال تھی، چہرے پر ایک اطمینان اور سکون تھا، جیسے عمر بھر کی بے قراری کو قرار آگیا ہو، جنازہ رات کے دس بجے ان کے چچازاد بھائی اور بہنوئی مولانا حسین احمد ناصری سابق استاذ دار العلوم مؤ اعظم گڈھ نے پڑھائی اور قبرستان میں پانی بھرے ہونے کی وجہ کر اپنے آرامشین کے مشرقی حصے میں جو گھر سے متصل ہی ہے، تدفین عمل میں آئی۔ احقر محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور اکابر علماء نے بڑی تعداد میں شرکت کی، حضرت مولانا قاری شبیر احمد صاحب ان کے صاحب زادہ مولانا دبیر احمد قاسمی، مدرسہ اسلامیہ شکر پور بھروارہ اور قرب وجوار کے دیگر مدارس کے اساتذہ اور ذمہ داران کی شرکت نے لوگوں کے دلوں پر ان کی حکمرانی کو ثابت کردیا، ان کی وصیت تھی کہ جنازہ میں شریک کوئی آدمی بغیر کھائے نہ جائے، چنانچہ ان کے صاحب زادگان مولانا انوار رشادی اور مفتی محمد سلیم قاسمی نے پکڑ پکڑ کر کھانا کھلانے کا اہتمام کیا، اور دیر رات تک یہ سلسلہ جاری رہا، پس ماندگان میں چھ لڑکیاں، اہلیہ اور دو لڑکے کو چھوڑا۔شادی رکسیا رونی سید پور مظفر پور حسن توحید صاحب کے دختر نیک اختر سے تھی۔
حاجی عتیق احمد صاحب سے میرے تعلقات دور طالب علمی سے تھے، مولانا حسین احمد ناصری صاحب دار العلوم میں میرے مربی تھے، اس حیثیت سے میرا آنا جانا ناصر گنج نستہ لگا ہی رہتا تھا، عید، بقر عید کے ایام میں تو لازما حاضری ہوتی، ایسے ہر سفر میں ان سے ملاقات ہوجایا کرتی، کیوں کہ وہ عمر کے سولہویں سال سے ہی تجارت سے وابستہ تھے اور تجارت بھی چاہے دوکانداری ہو یا اینٹ بھٹے کی، لکڑی کا کام ہو یا بلڈنگ میٹریل کی فروختگی سب وہ اپنے گھر کے آس پاس ہی کیا کرتے تھے، دور طالب علمی کے علاوہ وہ باہر نہیں گئے اور نہ کہیں دوسری جگہ گاؤں چھوڑ کر قیام کیا۔
ابتدائی تعلیم مدرسہ محمود العلوم دملہ سے پائی جہاں ان کے والد بزرگوار ان دنوں استاذ تھے، پھر مدرسہ امدادیہ دربھنگہ گئے، وہاں سے دار العلوم اور مفتاح العلوم مؤ اعظم گڈھ جانا ہوا، اور عربی پنجم تک کی تعلیم پانے کے بعد گھریلو حالات کے پیش نظر تجارت میں لگ گیے اور زندگی کے آخری دم تک تجارت کو ہی ذریعہئ معاش بنائے رکھا، وہ اسلامی افکار واقدار کے سلسلے میں غیر معمولی حساس تھے، مال ودولت کی فراوانی کے باوجود انہوں نے اپنی بچیوں کو اسکولی تعلیم سے دور رکھا، اور دونون صاحب زادگان کو بھی مدرسہ میں تعلیم دلائی، ۲۹۹۱ میں گاؤں میں ہی مدرسہ ناصر العلوم قائم کیا، تاکہ علاقہ میں تعلیم کو فروغ نصیب ہو، اپنے بچوں کو تجارت کے ساتھ مدرسہ کے لیے فکر مندی بھی سکھائی، وہ انتہائی مخیر اور مدارس کے لیے فکر مند انسان تھے، ان کے دروازہ سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا، مہمانوں کی ضیافت ان کی عادت تھی اور عطر ان کے یہاں کا مخصوص تحفہ، بیماری کی حالت میں بھی اس کا بے پناہ خیال تھا، انتقال سے چند دن قبل میں حاضر ہوا، تو بے حد تکلیف میں ہونے کے باوجود مختلف قسم کے اشیاء اکل وشرب صاحب زادگان کو لانے کو کہا، اور جب تک کھلا نہیں لیا،ہٹنے نہیں دیا، یہ ان کا خاص مزاج تھا۔
اسلامی اقدار کا یہ حال تھا کہ تصویر کشی سے حد درجہ اجتناب کرتے، گھر کی دیواریں اورکھڑکیاں اس انداز کی لگائی تھیں کہ اچٹتی ہوئی نگاہ بھی کسی کی گھر تک نہ پہونچے، آخری حد تک شرعی پردہ کا خیال رکھتے۔
اللہ رب العزت نے انہیں بے پناہ جرأت دی تھی، وہ ہر ابتلاء وآزمائش کا مردانہ وار مقابلہ کرتے، غیروں میں ان کا رعب ودبدبہ ایسا تھا کہ آنکھ اٹھانے کی جرأت کسی کی نہیں ہوتی تھی، یہ حالت اچانک نہیں ہو گئی تھی، اس کے لیے انہوں نے سخت مزاحمت کی تھی،اسی مزاحمت کے نتیجے میں بھروارہ میں ان کی کروڑوں روپے مالیت کی دوکان لٹ گئی، کئی عدد مقدمات ان کولڑنے پڑے تھے لیکن حق گوئی وبیباکی ہمیشہ قائم رہے، کبھی کبھی بعض معاملات میں فون وغیر کرانے میں میرا بھی استعمال کرتے اور مجھے ان کے کام آکر خوشی محسوس ہوتی۔
۹۸۹۱ء میں ہم لوگوں نے ایک ساتھ حج کی سعادت حاصل کی تھی، سفر میں وہی سادگی کاندھے پر ایک کپڑے کا جھولا، ضرورت کے کچھ سامان اور بس، سارا وقت حرمین شریفین میں گذار ا، اوقات کی حفاظت کی اور بہت کچھ ثواب اپنے ساتھ لے آئے، عام دنوں میں بھی اور اد واذکار اور تلاوت قرآن کا خاص معمول تھا، ہر نماز کے بعد تسبیحات کا خصوصی اہتمام کرتے، بیعت طریقہ نقشبندیہ میں مولانا محمد طلحہ نقشبندی خلیفہ ومجاز پیر ذو الفقار صاحب نقشبندی سے تھے، اکثر وبیشتر نمازوں میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ با جماعت نماز کا اہتمام کیا کرتے تھے،وہ مجھ سے عمر میں کچھ بڑے تھے، لیکن تعلقات میں بے تکلفی تھی، پہلے ہم عمری کی وجہ سے اور بعد میں میرے داماد کے ماموں ہونے کی وجہ سے، جب انقلاب میں میرا مضمون شائع ہوتا تو فون پر اپنی رائے دیتے، خوشی کا اظہار کرتے کبھی کبھی بعض موضوعات پر مضامین لکھنے کے لئے ترغیب بھی دیتے۔
امارت شریہ کے وفد کے دورہ کے موقع سے خصوصا بیت المال کے استحکام کے لیے فکر مند ہوتے خود بھی دیتے اور دوسروں کو بھی ترغیب دینے سے باز نہیں آتے تھے، ترکہ کی تقسیم کا انہیں خاص خیال تھا، بہنوں کا حصہ ادا کیا اور اس مسئلہ میں شریعت کی پاسداری پورے طور پر ملحوظ رہی۔
سیاست میں بھی ان کی اچھی پکڑ تھی، اور گاہے گاہے، وہ انتخاب کے موقع سے اپنے پسندیدہ امیدوار کے لیے اپنے صرفہ سے دورہ بھی کرتے تھے، وہ پارٹی نہیں امیدوار دیکھتے تھے، امیدوار ٹھیک ہے تو وہ کسی بھی پارٹی کی حمایت کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔
ڈاکٹروں کو دکھانے کے لیے ان کا آنا جانا پٹنہ لگا رہتا تھا، بعض دفعہ امارت شرعیہ میں قیام کی نوبت آئی، وہ اپنا کھانا گھر سے بنواکر لیتے آتے اور انہیں معلوم ہوتا کہ میں امارت میں ہوں تو میرے حصہ کا کھانا بھی ساتھ لاتے اور ممکن ہوتا تو میری پسندیدہ ڈش کی رعایت بھی ملحوظ رکھتے۔
عتیق بھائی کا خانوادہ ہر اعتبار سے اس علاقہ کا ممتاز خانوادہ ہے، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کی بنیاد پہلے نستہ میں ہی پڑی تھی، حاجی منور حسین، مرید خاص حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ کا تعلق اسی خانوادہ سے تھا،بعد میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ منتقل ہوا، علم کے سوتے یہاں سے پھوٹے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہاں بڑی تعداد میں علماء پائے جاتے ہیں، جن کی خدمات کا دائرہ ملک ہی نہیں بیرون ملک میں بھی پھیلا ہوا ہے۔
اس کے با وجود اثر ورسوخ، رعب ودبدبہ، مال وثرت میں اس گاؤں ان جیسامیں کوئی دوسرا نہیں ہے، ان کے جانے سے بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، اللہ رب العزت ان کے صاحب زادگان کو اس خلا کو پُر کرنے اور اس مقام کو باقی رکھنے کا حوصلہ اور توفیق عطا فرمائے اللہ رب العزت حاجی عتیق صاحب کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبرجمیل سے نوازے، اب یہی دعا ان کے کام آنے والی ہے، اللہ بس باقی ہوس(بشکریہ نقیب)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button