اہم خبریںمضامین

کربلا کا میلہ اور مسلم سماج کی بےحیائی

   عرصہائے دراز کے بعد دس محرم یعنی ” کربلا کے دن “ اس بار گھر پر رہنے کا اتفاق ہوا، کل شام یعنی دس محرم(یوم کربلا) کو گھر سے مدرسہ آرہا تھا،اتفاق سے جو راستہ ہماری آمد و رفت کا ہے،اس سے دس گز کی دوری پر ایک کربلا کا وقف شدہ میدان ہے،جس میں ہمارے علاقے میں کربلا کا میلہ لگتا ہے، جو کافی مشہور ہے،میں نے کل سے پہلے اس میلہ کو کبھی نہیں دیکھا۔
    مجھے چونکہ مدرسہ آنا ضروری تھا اس لئے یہ سوچ کر کہ اس راستے میں تو بھیڑ ہوگی، اس لئے تھوڑا دور کا چکر کاٹ کر میں نکلنے لگا،مگر کیا بتائیں آپ کو، یہ بتاتے ہوئے بھی حجاب محسوس ہوتا ہے کہ کربلا کے میدان سے لیکر اس راستے تک جس سے میں گزر رہا تھا،مردوں اور عورتوں کا مخلوط ہجوم کسی سیلابی دریا کی طرح اٹا ہوا تھا،بقول میری چھ سالہ بھتیجی عزیزہ ندا فردوس (وہ بھی میرے ساتھ تھی) کہ ”دوکانوں میں جتنے سامان نہیں ہیں ان سے کہیں زیادہ لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی ہے “بےحیائی کا بازار گرم تھا،سامان سے زیادہ حسن کی نمائش تھی،طوفانِ بدتمیزی کا ایسا ہولناک منظر قائم تھا کہ سر آپ ہی آپ جھک جاتا تھا،وہاں سے نکلنے میں مجھے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا، تقریبا بیس منٹ خوار ہونے اور میری گاڑی ٹھوکریں کھانے کے بعد بھیڑ میں سے نکل سکی،جبکہ اس راستے کو لوگ عام حالت میں دو منٹ میں قطع کرلیتے ہیں۔
   میں تو اس خواب و خیال میں تھا کہ شاید اب لوگوں کا شعور بیدار ہوگیا ہے، ہر گھر میں علم کا چراغ روشن ہوچکا ہے، علم کی روشنی شاید لوگوں کو بدعات و خرافات کی ان تاریکیوں سے نکال چکی ہے جو کبھی جہالت زدہ اور اجڈ قوم کا حصہ ہوا کرتی تھی،لیکن کل جب کربلا کے میلے کے اس ہوش ربا منظر کو دیکھا تو دل بے ساختہ کہہ اٹھا کہ نہیں کربلا ختم نہیں ہوا بلکہ کافی ترقی کرگیا ہے، بایں طور کہ پہلے طبل و ساز معمولی قسم کے ہوا کرتے تھے اب اعلی قسم کے بن گئے ہیں،پہلے سازندوں کو باہر سے بلانا پڑتا تھا اب ہمارے مسلم نوجوان بخوبی سازندوں کے فرائض انجام دے سکتے ہیں،قسم بخدا ڈھول بجاتے مسلم نوجوانوں کے چہروں سے ایسی نحوست ٹپکتی تھی کہ دیکھ کر دل پر ایک طرح کا انقباض پیدا ہوجاتا تھا،مسلم نوجوانوں کی اس ہیئتِ کذائی کو دیکھ کر جی تو یوں کرتا تھا کہ ایک ایک کو گھسیٹ کر باہر لاؤں اور شرم و غیرت کی ایسی گھٹی پلاؤں کہ زندگی بھر اس کی تلخی اپنے گلے میں محسوس کرے،لیکن افسوس کہ کارواں کی اس بھیڑ میں، میں تنِ تنہا ایسا مسافر تھا جس کے دل میں اس طرح کی بات پیدا ہوگئی تھی،باقی سب تو اسی قماش کے تھے۔
    افسوس زمانہ کہاں سے کہاں پہونچ گیا، لوگ ارضِ قمر سے بھی گھوم آئے اور ہمارا مسلم نوجوان ابھی ڈھولوں کی تھاپ اور رباب کے تار پر ہی اٹکا پڑا ہے۔
    کربلا کا میلہ چنڈال چوکڑیوں سے عبارت ہے،کربلا کے میلے میں وہی لوگ آتے ہیں جن کی فطرت میں آوارگی،بدقماشی،لفنگا پنی،بداطواری اور بیہودگی رچی بسی ہوتی ہے،کربلا کے میلوں کی چہل پہل اور رونق میں زیادتی نیم عریاں بےحیا مسلم دوشیزاؤں اور خواتین کے حسن کی نمائش کرتی ہے،میلے کے اس دن نہ جانے کتنی لڑکیاں لڑکوں سے اپنی عفت و عصمت کا سودا طے کرتی ہیں،حوا کی کتنی بیٹیاں آدم کے بیٹوں کے پھینکے ہوئے جال میں دانہ چگنے کے لئے داخل ہوتی ہیں اور مسلم سماج کی کتنی بہنیں غیروں کے ساتھ وہیں سے اپنے مستقبل کی منزلیں ہموار کر آتی ہیں،صد افسوس کہ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں بھی جاتا رہا،آئے دن کتنے انہونے واقعات ہمارے پردۂ سماعت سے ٹکراتے رہتے ہیں، لیکن ہمارے کانوں میں اب تک جوں نہیں رینگی،ہم اس کے باوجود بھی اپنی ان بیٹیوں، بیویوں اور بہنوں کو میلے میں جاکر اپنے حسن کی نمائش اور اپنی خوبصورتی سے مردوں کو رجھانے کی اجازت دے دیتے بلکہ اس کام میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جن کے لئے حکم تھا کہ ” وہ اپنے گھروں میں بیٹھی رہیں،اور زمانۂ جاہلیت کی بد اطوار عورتوں کی طرح بناؤ سنگار کرکے اپنے گھروں سے نہ نکلیں “۔
     آج اس تحریر کو لکھتے ہوئے میری آنکھیں تشکر کے آنسوؤں سے لبریز ہیں کہ ہمارے خاندان کے سرکردہ افراد اور سرخیل قسم کے لوگوں نے ہمارے بیٹھک سے اس کربلا کے میلے کو آج سے پندرہ سال پہلے ہی اکھاڑ کر پھینک دیا ہے،ورنہ آج سے پندرہ سال پہلے آج ہی کے دن ” بسیا کربلا “ ( باسی کربلا) کے نام سے ہمارے بیٹھک میں بھی میلہ لگا کرتا تھا جہاں عورتوں اور مردوں کا ہجوم ہوتا اور اکھاڑے آتے،ایک دوسرے پر لاٹھیاں چلاتے،کئی بیہوش ہوجاتے اور کئی ایک کے ہاتھ ٹوٹ جاتے۔
    میں اپنی اس تحریر کے ذریعے اپنے علاقے کے نوجوان لڑکوں،لڑکیوں، ماؤں،بہنوں بھائیوں اور باپوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ غمِ حسین میں کچھ نہیں رکھا،اگر رکھا ہے تو ان کے زندہ و جاوید نقوش میں رکھا ہے،ان واہیات کو چھوڑو ان کے راستے کو اپناؤ کامیاب ہوجاؤگے،ویسے بھی تمہارے اندر حسین کی محبت تھوڑوں ہوتی ہے، تمہیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ حسین کس چڑیا کا نام ہے،تم تو بس اتنا جانتے ہو کہ محرم کے مہینے میں لاٹھیاں کھیلنی چاہیے،یہ رسم تمہیں تمہارے آباء و اجداد کی طرف سے ورثے میں ملی ہے جسے تم نبھاتے چلے آ رہے ہو،خدا کی قسم تمہارے آباء و اجداد دھوکے میں تھے،مر کھپ کر ان کی آنکھیں کھل گئی ہیں، اگر تم اب بھی اپنے آباء و اجداد کے ایجاد کردہ ان جاہلانہ رسموں کو چھوڑ کر راہِ حسین اپناؤگے تو تمہارے آباء و اجداد کی مری ہوئی روحیں شاد ہوجائیں گی،اور تمہیں دعائیں دینگی،ورنہ یاد رکھو کہ تم اپنے ان کرتوتوں سے اپنے ساتھ اپنے آباء و اجداد کی روحوں کو بھی تکلیف پہونچا رہے ہو!
    اللہ تمام مسلمانوں کو سمجھ عطا کرے۔ آمین
     
                         ظفر امام، کھجورباڑی
                       دارالعلوم بہادرگنج
                       ١١/ محرم١٤٤٣؁ھ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button