فکر و نظر / مضامین و مقالات

پیلس آف ورشپ قانو ن کی آئینی حیثیت پر مرکزی حکومت کو جواب داخل کرنے کا حکم

جمعیۃ علماء ہند پیلس آف ورشپ قانو ن کا مضبوطی سے دفاع کریگی، گلزار اعظمینئی

دہلی 12/ اکتوبر 2022 : پیلس آف ورشپ ایکٹ یعنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے والی عرضداشتوں پرسپریم کورٹ آف انڈیا میں آج سماعت عمل میں آئی جس کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہو ئے ایڈوکیٹ ورندہ گروور نے بتایا کہ عدالت کے سابقہ حکم کے باوجود ابھی تک مرکزی سرکار نے اپنا موقف داخل نہیں کیا ہے اور مرکزی سرکار کا موقف جانے بغیر اس اہم معاملے کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

ایڈوکیٹ ورندہ گروور نے عدالت کو مزید بتایا کہ مرکزی حکومت کا جواب آنے کے بعد وہ اپنا جواب داخل کریں گی کیونکہ پیلس آف ورشپ قانو ن کو 1991 میں پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا اور آج اسی قانون کو چیلنج کیا جارہا ہے لہذا یہ مرکزی حکومت کا فرض ہے وکہ ناصرف جواب داخل کرے بلکہ وہ تمام دستاویزات بھی عدالت میں پیش کرے جوقانون بنانے کے وقت ضروری تھے۔

ایڈوکیٹ ورندہ گروور کی درخواست پر چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت نے عدالت میں موجود سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا کو حکم دیا کہ اگلی سماعت سے قبل عدالت میں مرکزی حکومت کا کیا موقف ہے اسے حلف نامہ کی شکل میں داخل کریں، عدالت نے تشار مہتا کو مزیدکہا کہ اگر وہ جواب داخل نہیں کرنا چاہتے ہیں اگلی سماعت پر یہ بھی واضح کردیں تاکہ عدالت پھر اس ضمن میں اپنی کارروائی آگے بڑھائے۔اس موقع پر تشار مہتا نے عدالت کو زبانی بتایا کہ ان کا ذاتی خیال ہے کہ بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون 1919کو تحفظ نہیں دیتا ہے۔

دوران سماعت مخالف گروپ سینئر ایڈوکیٹ راکیش دویدی نے عدالت کو بتایا پیلس آف ورشپ قانو ن 1991 کو بغیر کسی بحث کے پارلیمنٹ نے پاس کرلیا تھا اور بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں سپریم کورٹ کی جانب سے کیئے گئے تذکرے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔

ایڈوکیٹ دوید ی نے کہا کہ پارلیمنٹ پیلس آف ورشپ قانو ن بنانے کا اس وقت اختیار ہی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس قانون کو ناصرف بغیر بحث کے پاس کیا گیا بلکہ اسے نافذبھی کردیا گیا جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک مخصوص طبقہ کو خوش کرنے کے لیئے اس وقت کی سرکار نے پیلس آف ورشپ قانو ن بنایا تھا جو غیر آئینی ہے اس قانون کی وجہ سے اکثریتی فرقے کو شدید پریشانیوں کا سامنا ہے۔

اسی درمیان ڈاکٹر سبرامنیم سوامی(سابق ممبر آف پارلیمنٹ راجیہ سبھا بی جے پی) نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے بھی پلیس آف ورشپ قانو ن کو ختم کرنے کی عرضداشت داخل کی ہے لیکن مرکزی حکومت نے اس پٹیشن پر بھی جواب داخل نہیں کیا ہے لہذا مرکزی حکومت کو حکم دیا جائے کہ وہ ان کی پٹیشن پر بھی جواب داخل کرے۔

فریقین کی بحث کے سماعت کے بعد عدالت نے فریقین کو حکم دیا کہ 14 نومبر سے قبل کن موضوعات پر عدالت کو سماعت کرنا ہے تیار کرکے عدالت میں جمع کریں، عدالت ان موضوعات کو جانچنے کے بعد سماعت شروع کریگی۔
دوران سماعت عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ ورندہ گروور کے ہمراہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ سیف ضیاء و دیگر موجود تھے۔

واضح رہے کہ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل سول رٹ پٹیشن کا ڈائری نمبر 28081/2022 ہے، اسی کے ساتھ ساتھ جمعیۃ علماء ہند نے دیگر پٹیشن میں مداخلت کار کی درخواست داخل کی ہے جسے عدالت نے سماعت کے لیئے پہلے ہی منظور کرلیا ہے۔ان عرضداشتوں میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی مدعی بنے ہیں۔

آج کی سماعت کے بعد گلزار اعظمی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند پلیس آف ورشپ قانو ن کا مضبوطی سے دفاع کریگی اور مرکزی حکومت کے جواب کی روشنی میں ہمارے وکلاء اگلا لائحہ عمل تیار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت پڑھنے پر سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون کی خدمت حاصل کی جا ئے گی، ماضی میں ڈاکٹر راجیو دھون اس معاملے میں پیش ہوچکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button