(مضمون اور اس میں جوا واقعہ نقل کیا گیا ہے وہ ذرا طویل ہے لیکن میری گزارش ہے کہ ایک بار ضرور پڑھیں. پورا مضمون پڑھنے سے قبل کوئی رائے قائم نہ کریں۔فیس بک پر میرے دونوں اکاؤنٹ ایک ماہ کے لئے بند کردیئے گئے ہیں اس لئے آپ میں سے جو چاہے جہاں چاہے اسے شئر کرسکتے ہیں اور ضرور کریں۔ بس میری خواہش ہے کہ یہ صورت بدلنی چاہئے)
آج کل بیشمار رنگ برنگے، نقش ونگار والے اشتہارات نگاہوں سے گزر رہے ہیں جن میں خطباء اور شعراء کے القابات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور ہنسی بھی آتی ہے ۔ ہر مقرر شعلہ بیاں ہے. ہر خطیب میدان خطابت کا بے تاج بادشاہ ہے۔ہر شاعر شاعر اسلام اور شہنشاہِ ترنم ہے. میری یہ تحریر پڑھ کر کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں دینی اجلاس اور اصلاح معاشرہ کا مخالف ہوں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بڑی عاجزی و انکساری کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ الحمدللہ میں بھی ایک مقرر شعلہ بیاں ہوں کبھی کبھی جلسوں میں جانا ہوتا ہے تو آگ لگاکر ہی واپس آتا ہوں۔جلسوں میں شرکت کرکے ہی یہ مشاہدہ کیا ہے کہ اسٹیج پر عوام کو صبر وقناعت اور حسن خلق کی تلقین کرنے والے بعض خطیب ذاتی زندگی میں کتنے بد اخلاق اور حریص ہوتے ہیں اور مائک پر جھوم جھوم کر نعت نبی پڑھنے والے بعض شاعر اور نقیب کتنے خبیث ہوتے ہیں. میں نے جملہ ذرا تلخ استعمال کیا ہے اس کے لئے معذرت! لیکن جو آنکھوں دیکھا واقعہ میں نقل کرنے جارہا ہوں اسے پڑھنے کے بعد شاید مجھ سے زیادہ تلخ جملے آپ استعمال کریں۔
غالباً 3 سال قبل کا واقعہ ہے. جسے بھلائے میں نہیں بھول سکتا. میرے گاؤں سے ذرا فاصلے پر ایک بستی ہے جو بڑی آبادی پر مشتمل ہے وہاں ایک صاحب چھوٹا سا مدرسہ چلاتے ہیں. اپنے مدرسہ میں انہوں نے اصلاح معاشرہ کا ایک جلسہ منعقد کیا چونکہ موسم سرما کی چھٹی تھی میں گھر پر ہی موجود تھا تو اتفاقاً اس نے مجھے بھی دعوت دیدی. منتظمین کی کمی تھی تو میں نے مستقل اسٹیج پر بیٹھے رہنے کے بجائے انتظام وانصرام میں ہاتھ بٹانا مناسب سمجھا. چند خطباء وشعراء قرب وجوار سے تشریف لائے تھے. ایک خطیب بے مثال وبا کمال ذرا دور سے آیا تھا انہیں لانے کے لئے ایک لگژری کار بھیجی گئی تھی۔ حضرت ہی اخص الخاص تھے اس لئے لوگ پلکیں بچھائے بیٹھے رہے. حضرت تاخیر سے تشریف لائے ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک اسٹیج پر چیخے چلائے، حدیث رسول کے نام پر من گھڑت قصے کہانیاں سنائی۔ سامعین کو خوب ہنسایا۔ تقریر ختم کرکے اسٹیج سے اترے۔کھانا تناول فرمایا اور جانے کی جلدی مچادی…
موصوف کو دوسرے دن بھی کسی پروگرام میں شرکت کرنا تھا اس لئے ہم لوگوں کی لاکھ کوشش کے باوجود وہ بضد رہے کہ نہیں…. جیسے بھی ہوتا ہے میرے گھر تک پہنچنے کا ابھی انتظام کیجئے. ساتھ ہی حضرت اپنی اجرت کو لے کر بھی چراغ پا ہورہے تھے. مسئلہ یہ ہوا کہ حضرت کی قیمت 5 ہزار متعین تھی؛ لیکن چندہ نہ ہونے کی وجہ سے بیچارے مہتمم صاحب انہیں 3 ہزار ہی عنایت کررہے تھے ساتھ ہی معذرت بھی کررہے تھے کہ میں بعد میں ادا کردوں گا یا آپ صبح تک ٹھہر جائیں تو…. لیکن خطیب بے مثال نے ہنگامہ کھڑا کردیا کہ ” اگر آپ لوگوں کی استطاعت نہیں تھی تو مجھے مدعو کیوں کیا؟ میں بنگال، اڑیسہ کہاں کہاں کا پروگرام چھوڑ کر یہاں آیا ہوں۔”
واللہ! میں تو سر پکڑ کے بیٹھ گیا کہ ایسے ہی لوگوں نے علماء اور واعظین کو بدنام کررکھا ہے. بڑی مشکل سے اس نے 4 ہزار پکڑا اور کار پر بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔
ایک مشہور شہنشاہِ ترنم کا نام بھی اشتہار میں تھا وہ بھی تشریف لا چکے تھے تشریف کیا لائے تھے کسی دوسری ریاست سے جلسہ اور پیسہ لوٹ کر آرہے تھے تو سوچا اس جلسہ کو بھی نپٹاتے ہی چلیں. وہ اکیلے نہیں تھے ان کے ساتھ ایک معروف نقیب جلسہ بھی تھا جن کا نام اشتہار میں نہیں تھا۔
جلسہ جب شروع ہوا تو کوئی مقامی عالم / طالب علم تھے جو نظامت کے فرائض بخوبی انجام دے رہے تھے. ہم چند لوگ مہتمم مدرسہ کے ساتھ آنیوالے خصوصی مہمانوں کی خاطر مدارات میں جٹے تھے. جب باضابطہ پروگرام کی فہرست ترتیب دی جانے لگی تو شہنشاہ ترنم نے کہا کہ جلسے کی نظامت انہیں (اپنے ساتھ لائے ہوئے معروف نقیب کو ) سونپ دیجئے. بہت اچھا نقیب ہے پورے ملک کے جلسوں اور مشاعروں میں نظامت کے لئے انہیں بلایا جاتا ہے۔ہم لوگوں کو بڑی خوشی ہوئی کہ یوں بھی یہ بیٹھے ہی رہیں گے کیوں نہ استفادہ کرلیا جائے۔
اس تاریخ تک میں کم از کم اس چیز سے ناواقف تھا کہ ایسے شاعروں اور ناظموں کا ایک گینگ ہوتا ہے جہاں کہیں سے جلسے کی دعوت آتی ہے ناظم جلسہ اپنے من پسند شاعروں کی سفارش کرتا ہے اور شاعر اپنے چہیتے ناظم کا نام اشتہار میں تلاش کرتا ہے تاکہ میری واہ واہی اور مدح سرائی میں کوئی کمی نہ رہے۔
خیر اسی معروف ناظم کو مائک سونپ دیا گیا. اس نے اپنے رٹے رٹائے جملوں سے شروعات کی اور سماں باندھ دیا. شہنشاہ ترنم کو دو سے تین بار گانے کے لئے مدعو کیا ایسے ایسے القابات و اوصاف بیان کیا (ہر جلسے میں یہی کرتا ہے) جسے میں یہاں بیان کروں تو مضمون خاصا طویل ہوجائے گا بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اس نے صرف واضح انداز میں یہ نہیں کہا کہ یہی حسان ابن ثابت ہیں۔
بمشکل دو گھنٹے اس نے نظامت کے فرائض انجام دئے یعنی جب تک جلسہ شباب پر رہا. جیسے ہی رات ڈھلنے لگی اپنے شاعر کے ساتھ اٹھا اور مہمان خانے میں دونوں بڑی دیر تک موبائل چلاتا، رہا قہقہے لگاتا اور پھر بے خبر سوگیا. جلسے کو بحسن وخوبی اختتام تک مقامی علماء اور طلباء نے ہی پہنچایا۔
اس معروف ناظم جلسہ اور شہنشاہ ترنم کے ساتھ جو دیگر مداح رسول اور آسمان خطابت کے درخشندہ ستارے سوئے تھے سب اٹھے اس وقت جب جلسہ گاہ کے پنڈالوں پر دھوپ چمکنے لگی تھی۔
ناشتہ ہم لوگوں نے سویرے تیار کررکھا تھا سب لوگوں نے ناشتہ کیا اپنا اپنا معاوضہ لیا اور چلتے بنے
وہ شہنشاہ ترنم اور معروف نقیب جلسہ بھی رخت سفر باندھنے لگا. شہنشاہِ ترنم کی جو اجرت طے تھی ادا کردی گئی. باقی بچا معروف نقیب جلسہ.. جیسا کہ اوپر آپ نے پڑھا ہے یہ اتفاقیہ آگئے تھے اشتہار میں نام تھا اور نہ ہی انہیں مدعو کیا گیا تھا اس لئے ان کی اجرت بھی طے نہیں تھی. شاعر کے کہنے پر ہم لوگوں نے سوچا تھا یہ خالی ہی بیٹھے رہیں گے بہتر ہے موقع دے دیا جائے. دیدیا گیا تھا۔
وقت رخصت مہتم صاحب نے کہا کہ کچھ دیر ہی سہی انہوں جلسے کی نظامت کی ہے. ہزار روپے بطور تحفہ انہیں بھی عنایت کردیتے ہیں. مجھے اور خود مہتمم مدرسہ کو بھی یہ امید تھی کہ یقیناً یہ روپیہ قبول نہیں کریں گے بلکہ یہ کہتے ہوئے لوٹا دیں گے کہ یہ میری طرف سے مدرسہ میں رکھ لیجئے میں تو بڑے بڑے جلسوں اور مشاعروں سے لاکھوں کماتا ہوں. آپ کا مدرسہ چھوٹا ہے چندہ بھی بہت کم ہوا ہے. ویسے بھی میں نے تو کچھ دیر بس شوقیہ نظامت کے فرائض انجام دیدئے۔
ایسا ہی ہوا۔روپیہ تو اس نے لوٹایا؛ لیکن یہ کہتے ہوئے کہ مجھے ایک نہیں بلکہ 3 ہزار چاہیے. ویسے میری فیس 10 ہزار بنتی ہے؛ لیکن یہاں میرا پروگرام چونکہ طے نہیں تھا اس لئے….
یہ سن کر میرے پاؤں تلے زمین کھسک گئی. شہنشاہِ ترنم بھی ان کی ہاں میں ہاں ملارہا تھا. مجھے گھن آنے لگی ان لٹیروں سے. مہتم صاحب ہاتھ میں روپے لئے ان کا منھ تکنے لگے. بڑی مشکل سے دوہزار لینے پر وہ راضی ہوا اور ناک منھ بسوڑتے ہوئے اپنی قیمتی ٹرالی اٹھائے گاڑی پر سوار ہوگیا. وہ ہمارے مہمان تھے اور ہم پر احترام لازم تھا اس لئے چاہتے ہوئے بھی ہم انہیں کچھ سنا نہیں سکے۔
آج بھی اکثر اجلاس میں مذکورہ بالا بہروپیوں ( بے مثال خطیب، شہنشاہ ترنم اور معروف نقیب) کو بلایا جاتا ہے. جب میں اشتہار میں لمبے چوڑے القابات کے ساتھ ان پیشہ وروں کا نام دیکھتا ہوں تو خون کھول اٹھتا ہے کہ کیسے سیدھے سادے عوام کو یہ لوگ بیوقوف بنارہے ہیں. ان جیسے اور نہ جانے کتنے بہروپئے علماء اور واعظین کی بھیس میں قوم کو لوٹ رہے ہیں۔
ان سب کو رخصت کرکے میں نے بھی اپنی بائیک اسٹارٹ کرلی. مہتم صاحب سامنے کھڑے تھے. ان کے باریش چہرے پر رات کی تھکن اور ان ناہنجار مہمانوں کی گری ہوئی حرکت کا اثر صاف جھلک رہا تھا. مٹھی میں ان کے کچھ روپے تھے جو بڑے خلوص سے مجھے عنایت کررہے تھے. میں نے اپنی مٹھی نہیں کھولی. ان کی باتوں میں جو شفقت اور لبوں پر جو دعائیں تھیں وہی میرے لئے کافی تھیں. والدین کے ساتھ ساتھ انہیں بزرگوں کی دعائیں آج زندگی کے سفر میں کام آرہی ہیں. اس دن مجھے شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ یہ چھوٹے مکتبوں اور مدرسوں کے اساتذہ اور ذمہ داران کتنی محنت کرتے ہیں؛ لیکن ہوائی جہازوں پر سفر کرنے اور کاروں پر گھومنے والے پیشہ ور خطباء وشعراء جلسے کے موقع پر انہیں لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔
ذمہ دارن مدارس ومساجد اور منتظمین اجلاس سے ایک درد مندانہ گزارش!
جن علاقوں میں کثرت سے جلسے منعقد ہوا کرتے ہیں ان میں ہماری ریاست بہار اور ہمارا علاقہ سیمانچل سر فہرست ہے اس لئے بطور خاص میں وہاں کے ذمہ داران مساجد ومدارس سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ آپ جلسے ضرور کریں؛ لیکن ایسے خطباء کو اس میں مدعو کریں جو محض گفتار کا غازی نہ ہو کردار کا بھی غازی ہو. وہ جو کہتا ہو اس پر خود عمل کرنے والا ہو. پابند شرع ہو. قرآن وحدیث کی باتیں خلوص دل سے اصلاح کے مقصد سے کرتا ہو. نام ونمود، نذرانہ یا اجرت ان کااصل مقصد نہ ہو. ایسے مداح رسول کو بلائیں جو رسول پاک کی سنت وسیرت کا حامل ہو. جو نعت نبی فلمی نغمے کی طرز پر نہ گائے بلکہ نہایت ہی ادب اور عقیدت سے گنگنائے. ایسے صالح خطباء اور باشرع شعراء آپ کو اپنے گاؤں اور علاقے میں مل جائیں گے جنہیں ساتھ لے کر آپ اصلاحی نشستیں اور جلسے منعقد کرسکتے ہیں یقیناً یہ میلے ٹھیلے والے ان عظیم الشان جلسوں سے سو فیصد زیادہ مؤثر اور مفید ثابت ہوں گے جن میں دور دراز سے کرایے کے مقرروں اور گویوں کو بلا کر نمائش لگائی جاتی ہے. رنگ برنگے اشتہار چھپتے ہیں. دو مہینے قبل سے اعلانات پر پیسے خرچ کئے جاتے ہیں۔ یقین جانئیے ان عظیم الشان جلسوں سے کچھ حاصل نہیں ہورہا ہے بس آپ لوگوں کی محنت اور قوم کا قیمتی سرمایہ ضائع ہورہا ہے اس پر مستزاد یہ کہ سیرت رسول کے اسٹیج پر کامیڈی کرنے والے مولویوں اور گویوں کو بٹھا کر خدا و رسول کی ناراضگی مول لے رہے ہیں۔اس لئے خدارا! جشن وفیشن، ریاکاری اور تصنع سے بچیں۔ قوم مسلم نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ تعلیمی اور معاشی ہر اعتبار سے پسماندہ ہے اس لئے ان بے مثال خطیب، شہنشاہ ترنم اور معروف نقیب جیسے بہروپیوں اور لٹیروں کو ہوائی جہازوں اور کاروں سے لانے میں اور انہیں انواع واقسام کے کھانا کھلانے میں قوم کا پیسہ ہرگز ضائع نہ کریں. انہیں روپیوں سے آپ اپنے ائمہ ومؤذنین، مدرسین وملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کریں. آپ 30 سے چالیس ہزار میں دور سے کسی ایک پیش ور مقرر یا گوئے کو بلاتے ہیں جبکہ مجھے پتہ ہے آپ کی بستی، شہر اور گاؤں میں ان سے بہترین خطیب اور مداح رسول موجود ہوتے ہیں جو بیچارے اس دور مہنگائی میں معاشی تنگی کے بھی شکار ہوتے ہیں آپ انہیں بلائیں، ہوائی جہاز، ریل، کار اور سفر کے دیگر اخراجات بھی بچیں گے. یہ رقم بطور نذرانہ کے ان علاقائی علماء اور شعراء کو عنایت کریں اسی بہانے ان کی مالی معاونت بھی ہوجائے گی اور جلسے کا جو اہم مقصد ہوتا ہے (اصلاح معاشرہ، تعلیمی بیداری ) اس کی تکمیل بھی انشاءاللہ بحسن وخوبی ہوگی۔