وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
مولانا محمد قمرالزماں ندوی، جنرل سیکریٹری/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
تقریر و تحریر اور وعظ و نصیحت سے زیادہ موثر انسان کا عمل اور کردار ہوتا ہے، کسی کی تقریر اور تحریر سے انسان پر اتنا زیادہ اثر نہیں پڑتا جتنا انسان پر کسی کے عمل اور کردار کا اثر پڑتا ہے ۔ حفیظ میرٹھی مرحوم نے بالکل سچ اور درست فرمایا ہے کہ :
تقریر سے ممکن نہ تحریر سے حاصل
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
اس لئے ایک داعی اور مبلغ کو تقریر و تحریر سے کہیں زیادہ اپنی شخصیت اور کردار و عمل پر زیادہ محنت کرنی چاہیے، تاکہ سامنے والا اس کے اخلاق اورکردار و کریکٹر سے متاثر ہو ۔ حسن اخلاق اور اچھے کردار کی ضرورت تو ہر شخص کے لئے ہے لیکن خاص طور پر ایک داعی اور مبلغ کو حسن اخلاق کا پیکر ہونا چاہیے کیونکہ حسن اخلاق اور حسن کردار دعوتی میدان اور تبلیغی کاز میں نہایت ہی موثر پیغام رکھتا ہے ۔ اس کے لئے اس کی حیثیت ایک سائلنٹ میسیج خاموش پیغام کی ہے ۔ آج تقریروں اور تحریروں کی بھرمار ہے، کتابیں اور مضامین سینکڑوں کی تعداد میں روزانہ چھپ رہے ہیں ، اجلاس اور سیمیناروں کی کمی نہیں ، ہر روز بڑے بڑے جلسوں اور سیمیناروں کے اشتہارات سے اخبارات پٹے پڑے ہیں، مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس کی خوب تشہیر کی جاتی ہے ۔ لیکن ان سیمیناروں ، جلسوں اور اجتماعات کا کما حقہ فائدہ، نتیجہ اور ریزلٹ سامنے نہیں آتا اس کی بنیادی وجہ اقوال و افعال میں تضاد اور کہنی اور کرنی میں فرق ہے ۔ شاعر نے ہماری اسی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ
بے عمل دل ہو تو جذبات سے کیا ہوتا ہے
کھیت گر بنجر ہو تو برسات سے کیا ہوتا ہے
ہم اپنی تقریروں اور تحریروں میں جو کچھ کہتے اور لکھتے ہیں ہمارا خود عمل ان باتوں اور تحریروں پر نہیں ہوتا ۔ لوگ جب یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا خود عمل اپنی تقریر و تحریر پر نہیں ہے تو وہ بدظن ہوجاتا ہے اور وہ اس سے وہ گہرا تاثر اور مضبوط اثر نہیں لیتا جو اس کو لینا چاہیے ۔
لیکن جب ہم اپنے اسلاف کی سیرت و سوانح اور ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کے یہاں یہ چیز خاص طور پر ملتی ہے کہ وہ جس چیز کی دعوت دیتے تھے اور جس عمل پر لوگوں کو ابھارتے اور ترغیب دیتے تھے ، اس پر پہلے خود عمل کرتے تھے اور اس کو اپنی زندگی میں نافذ کرتے تھے ۔ اس لئے ان کی تقریر و تحریر میں زبردست تاثیر و تاثر پایا جاتا تھا ۔ ان کی تقریر و خطاب کا حال یہ ہوتا تھا کہ :
دیکھنا تقریر کی لذت کے جو اس نے کہا
میں نے یہ سمجھا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
وہ آج کے ہمارے جیسے واعظ بے عمل نہیں تھے جو ا ایھا اللذین آمنوا لم تقولون مالا تفعلون (اے ایمان والو! ایسی باتیں کیوں کہتے اور کرتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے) ۔ کے مصداق ہوں ۔
واعظ کا ہر ارشاد بجا تقریر بہت دلچسپ مگر
آنکھوں میں سرور عشق نہیں چہرے پہ یقیں کا نور نہیں
آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اسلاف اخلاق و کردار کے کس مقام اور کس بلندی پر فائز تھے اور وہ اپنی اخلاقی بلندی اور کردار کی عظمت سے کس طرح فریق مخالف کے دل کو جیت لیتے تھے اور اس پر کیسے غالب آجاتے تھے ۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوری رح فرماتے ہیں کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رح جب آخری حج سے تشریف لا رہے تھے تو ہم لوگ اسٹیشن پر شرف زیارت کے لئے گئے ،اس وقت حضرت کے متوسلین و متعلقین میں سے ایک شخص محمد عارف جھنگ سے دیوبند تک ساتھ گئے ،ان کا بیان ہے کہ ٹرین میں ایک ہندو جنٹلمین بھی تھا ،جس کو قضاء حاجت کے لئے جانا تھا ۔ لیکن جاکر الٹے پاؤں بادل ناخواستہ واپس آیا ،حضرت مدنی رح سمجھ گئے ،فورا لوٹا لے کر پاخانہ گئے اور سگریٹ کے خالی ڈبے جمع کرکے اسے اچھی طرح صاف کرکے واپس آگئے ۔ پھر اس ہندو دوست سے فرمانے لگے : آپ قضاء حاجت کے لئے جانا چاہتے تھے تو جائیے! بیت الخلا بالکل صاف ہے ۔ قصہ مختصر وہ اٹھا اور جاکر دیکھا تو پاخانہ بالکل صاف تھا ،بہت متاثر ہوا اور قضاء حاجت کے بعد بھر پور عقیدت سے عرض کرنے لگا : یہ حضور کی بندہ نوازی ہے ،جو سمجھ سے باہر ہے ۔ اس واقعہ کو دیکھ کر ٹرین میں سوار خواجہ نظام الدین تونسوی مرحوم نے ایک ساتھی سے پوچھا کہ یہ کھدر پوش کون ہیں؟ جواب ملا کہ یہ مولانا حسین احمد مدنی ہیں ۔
تو خواجہ صاحب فورا حضرت مدنی رح سے لپٹ گئے اور رونے لگے ،حضرت مدنی رح نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ تو کہا سیاسی اختلاف کی وجہ سے میں نے آپ کے خلاف فتوے دیے اور برا بھلا کہا،آج آپ کے اعلیٰ کردار اور اخلاق کو دیکھ کر تائب نہ ہوتا تو شاید مر کر سیدھا جہنم میں جاتا ۔ اس پر حضرت مدنی رح نے فرمایا: میرے بھائی! میں نے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا اور وہ سنت یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ایک یہودی مہمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر رات پاخانہ کردیا اور صبح اٹھ کر جلدی چلا گیا اور اپنی تلوار وہیں بھول گیا ،جب اپنی بھولی ہوئی تلوار لینے آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اپنے دست مبارک سے بستر دھو رہے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اعلی اخلاق کو دیکھ کر وہ یہودی مسلمان ہوگیا ۔(ماہنامہ الرشید مدنی نمبر / کتابوں کی درس گاہ میں )
مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رح حضرت مدنی کے اعلی اخلاق و کردار کی گواہی اور شہادت دیتے فرماتے ہیں :
میں نہ مولانا کا شاگرد ہوں ،نہ مرید ،نہ پیر بھائی ،ان کے مجاہدانہ کارناموں کی وجہ سے مجھے ان سے محبت و عقیدت ہوگئ تھی ،میں ایک مرتبہ لکھنئو سے گاڑی پر سوار ہوا ،میری طبیعت خراب تھی چادر اوڑھ کر سیٹ پر لیٹ گیا، بخار تھا،اعضاء شکنی تھی ،اس لئے کراہتا تھا مجھے معلوم نہیں کہ کون سا اسٹیشن آیا اور کون مسافر سوار ہوا ،بریلی کے اسٹیشن کے بعد ایک شخص نے میرے پاؤں اور کمر دبانا شروع کی،مجھے بہت راحت ہوئی ،چپکا لیٹا رہا اور وہ دباتا رہا ،مجھے پیاس لگی ،پانی مانگا تو اس نے صراحی سے ایک گلاس پانی دیا اور کہا لیجئے میں نے اٹھ کر دیکھا تو مولانا مدنی رح تھے ،مجھے ندامت ہوئی اور معذرت کی ، لیکن انہوں نے اس درجہ مجبور کیا کہ پھر لیٹ گیا اور وہ رام پور تک برابر مجھ کو دباتے رہے ،پھر میں اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ (اہنامہ الرشید مدنی نمبر)
مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رح مولانا مدنی رح کے اخلاق عالیہ کا ایک اور واقعہ( جو خود ان کے ساتھ پیش آیا) لکھتے ہیں فرماتے ہیں : کہ یوپی میں ایک جگہ میری تقریر تھی، رات تین بجے تقریر سے فارغ ہوکر لیٹ گیا،ابھی نیم غنودگی کی حالت میں تھا کہ مجھ کو محسوس ہوا کوئی میرے پاوں دبا رہا ہے ،میں نے کہا کہ لوگ اس طرح دباتے رہتے ہیں، کوئی مخلص ہوگا ،مگر اس کے ساتھ معلوم ہو رہا تھا کہ یہ مٹھی تو عجیب قسم کی ہے ،باوجود راحت کے نیند رخصت ہوتی جارہی تھی ، سر اٹھایا تو دیکھا کہ حضرت شیخ مدنی رح ہیں، فورا پھڑک کر چارپائی سے اترا اور ندامت سے عرض کیا حضرت! کیا ہم نے اپنے لئے جہنم کا خود سامان پہلے سے کم کر رکھا ہے کہ آپ بھی ہم کو دھکا دے کر جہمنم بھیج رہے ہیں ،شیخ نے جوابا فرمایا: آپ نے دیر تک تقریر کی تھی ،آرام کی ضرورت تھی اور آپ کی عادت بھی تھی اور مجھ کو سعادت کی ضرورت، ساتھ ہی نماز فجر کا وقت قریب تھا ، میں نے خیال کیا کہ آپ کی نماز نہ چلی جائے تو بتائیے حضرت میں نے کیا غلطی کی ۔ ( الرشید مدنی نمبر / بحوالہ کتابوں کی درس گاہ میں صفحہ ۱۴۵)
حضرت مدنی رح کے اخلاق عالیہ کے ان تینوں واقعات کو ذہن میں رکھئے اور پھر غور کیجئے کہ ہمارے اسلاف اور اکابر سید القوم خادمھم (قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے) کی کیسی سچی اور ہو بہو تصویر تھے اور کس قدر اعلی اخلاق و کردار کے حامل تھے ۔
ماضی قریب کے ایک ولی زمانہ اور درویش وقت حضرت قاری صدیق احمد صاحب باندوی رح کے بارے میں حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ العالی (صدر شعبئہ شریعہ واستاد حدیث دار العلوم ندوةالعلماء لکھنئو) نے لکھا ہے کہ جب میں جامعہ عربیہ ہتورا باندہ میں تدریس سے وابستہ تھا تو وہاں اساتذہ اور طلبہ کے لئے بیت الخلا ایک جگہ تھا اور روزانہ صبح صبح کو وہ باکل صاف ستہرا ملتا تھا ، رات کو کوئی اچھی طرح سے صاف کردیتا تھا ، یہ تقریبا روزانہ کا معمول تھا اور معلوم نہیں پڑتا تھا کہ کون دیر رات میں اس کی صفائی کر ددیتا ہے ۔ ایک رات نیند کھلی میں استنجا کے لئے جب گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت قاری صاحب رح بنفس نفیس تمام استنجا خانوں اور بیت الخلا کو صاف کر رہے ہیں ، جب میری نظر پڑی تو میں ہکا بکا رہ گیا اور مجھ پر عجیب کیفیت و تاثر ہوا اور جب قاری صاحب رح نے مجھے دیکھ لیا تو فرمایا کہ وعدہ کیجئے کہ کسی سے تذکرہ نہیں کریں گے ۔ میں نے حضرت قاری صاحب کی زندگی میں اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا ، حضرت کی وفات کے بعد میں نے اس راز کو فاش کیا اور حضرت قاری صاحب رح پر جب مضمون لکھا تو اس واقعہ کا بھی تذکرہ کیا ۔
اہل اللہ اور اکابر کی بافیض زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے یہاں گفتار سے زیادہ کردار و عمل کو اہمیت تھی، وہ جو کچھ کہتے تھے اس پر خود پہلے عمل کرتے تھے ۔ اس لئے ان کی باتوں تقریروں اور تحریروں میں خاص تاثیر پائی جاتی تھی اور ان کی مجلس و صحبت میں بیٹھنے والوں کی زندگی میں تبدیلی اور انقلاب آجاتا تھا اور بے راہ اور گمراہ لوگوں کو ہدایت و رہنمائی ملتی تھی ۔
آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایمان و یقین کی درستگی کے بعد ہم اخلاق و کردار کی آراستگی پر زیادہ توجہ اور دھیان دیں اور پہلے خود عملی نمونہ پیش کریں تاکہ ہماری تحریر و تقریر میں تاثیر پیدا ہو اور لوگ اس میں ایک کیف محسوس کریں ۔
اللہ تعالٰی ان باتوں پر عمل کرنے اور اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔