محمد طاہر ندوی، امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جمشید پور
خدا وحدہ لاشریک کے بعد اگر کوئی ذات ، کوئی شخصیت یا کوئی انسان قابل عزت و تکریم، لائق مدح و تحسین ہے تو وہ انبیاء کی ذات اور شخصیت ہے اور یہ بات متفق علیہ ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ پھر انبیاء کرام میں سے بھی جس شخصیت کو سب سے اعلیٰ و ارفع مقام حاصل ہوا ، جس کو امام الانبیاء کہا گیا، امام الرسل کہا گیا، سید البشر کہا گیا، خاتم الانبیاء کہا گیا وہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت ہے۔
آپ ﷺ کو پوری کائنات کے ذرے ذرے کے لئے نبی و رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ آپ کی رحمت سے کائنات کی ہر مخلوق اور زمین کا ہر ذرہ مستفیض ہوا ہے۔ اللہ نے آپ کے نام کو بلند کیا۔ آپ کے ذکر کو بلند کیا۔ آپ کے اخلاق کو بلندی دی گئی۔ اللہ نے اپنے نام کے ساتھ آپ کے نام کو جوڑ کر ہمیشہ کے لئے آپ کے نام کو بلند کر دیا۔ آپ کو مقام محمود عطا کیا گیا۔ آپ کے سامنے پیش قدمی سے روکا گیا۔ آپ کے سامنے آواز کو بلند کرنے سے روکا گیا۔ آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کو اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اور آپ ﷺ کی نافرمانی کو اللہ کی نافرمانی قرار دیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات کے سب سے عظیم شخصیت ہیں۔ آپ کی شخصیت کو اللہ نے بنایا ہے سنوارا ہے اور نکھارا ہے اس لئے آپ سے محبت و عقیدت کا معاملہ رکھنا، آپ کا ادب و احترام کرنا، آپ کا نام ادب سے لینا، آپ کا تذکرہ خیر کے ساتھ کرنا، آپ کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا اہل ایمان کی ایمانی و دینی ذمہ داری ہے۔ اور آپ ﷺ سے نفرت کرنا، آپ کو تکلیف پہنچانا اور آپ کا مذاق اڑانا اہل کفر و شرک کی علامت اور پہچان ہے۔
ناموس رسالت پر حملہ کرنا، نبیوں کی شان میں گستاخی کرنا، ان کی شان میں نازیبا کلمات استعمال کرنا؛ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے بلکہ جب سے اس کائنات میں نبیوں کا سلسلہ جاری ہوا ہے اس وقت سے لے کر آخری نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی نبی اور رسول اس دنیا میں تشریف لائے، ان کی قوم نے ان کے ساتھ وہی معاملہ رکھا جو آج رسالت مآب ﷺ کے ساتھ ہے۔ جب آپ مکے میں تھے اس وقت بھی کچھ اوباش قسم کے لوگوں نے آپ پر کیچڑ اچھالا، آپ کی شان میں گستاخیاں کیں، ہجویہ اشعار کہے گئے، جب آپ مدینے تشریف لے گئے وہاں بھی ایسے بدبخت موجود تھے جو آپ کو اذیت دیتے تھے۔
رسالت مآب ﷺ کو اذیت دینا اور آپ کی شان میں گستاخی کرنا ایک ایسا سنگین جرم ہے جو ناقابل معافی ہے۔ زمانہ نبوت میں اس کے مرتکبین کو کبھی معاف نہیں کیا گیا یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن ناموس رسالت میں گستاخی کرنے والے عبد اللہ بن خطل کو جبکہ وہ کعبہ کی جالی کو تھامے ہوا تھا عین اسی حالت میں اسے قتل کیا گیا تھا اور اس کے بعد کے زمانے میں بھی جب کبھی کسی بدبخت نے ناموس رسالت کو داغدار کرنا چاہا انہیں کیفر کردار تک پہنچایا گیا ہے۔
جس طرح نبی پر ایمان لانا ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے اسی طرح نبی سے محبت کرنا، عقیدت و احترام کا معاملہ کرنا اور نبی کی ناموس کی حفاظت کرنا تکمیل ایمان کے لئے ضروری ہے اس کے بغیر نہ ایمان مکمل ہے نہ دین مکمل ہے ۔