من کی دنیا من کی دنیا،سوزو مستی، جذب وشوق
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
ہمارے دماغ میں جو منفی جذبات ابلتے ، پلتے اور بڑھتے ہیں، اس کی وجہ فطری اور قدرتی اصولوں کو نظر انداز کرنا ہے، جس کی وجہ سے ہم چاہتے کچھ اور ہیں، ہو کچھ اور جاتا ہے، مزاج کے خلاف وجود پذیر واقعات ، حالات اور حادثات کبھی کبھی ہمیں اندر سے توڑ کر رکھ دیتے ہیں، ہمارے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں، احساس کی اس خنکی کا اثر ہمارے دل ودماغ پر پڑتا ہے اور ہمارے اندر سے گرمئی کردار جاتی رہتی ہے،
تصوف کی اصطلاح میں اسے قبض سے تعبیر کرتے ہیں اور جب جذبات میں گرمی ہوتی ہے تو انسان کے اندر بسط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں مسرت وشادمانی اور سرور وانبساط کی تیز لہر دل ودماغ میں دوڑتی ہے اور ہم انشراحی پوزیشن میں ہوتے ہیں، موقع کے اعتبار سے نہ قبض بری چیز ہے اور نہ بسط، دونوں خالق کائنات کی دو صفت کے مظہر ہیں، اللہ قابض بھی ہے اور باسط بھی ، اس لیے ہمیں دونوں کیفیات کو انگیز کرنا چاہیے اور بد دل نہیں ہونا چاہیے،
راضی برضائے الٰہی کا یہی مطلوب ومقصود ہے، اس کے باوجود اسباب کے درجہ میں ہمیں ان اصولوں کو اپنا نا چاہیے، جس سے انسان کے ذہن ودماغ میں انشراحی اور انبساطی کیفیت پیدا ہو سکے۔ اس کیفیت کو ختم کرنے میں سب سے اہم رول حسد کا ہے، کسی کی اچھی حالت کو دیکھ کر دوسرے کے لیے زوال نعمت کی تمنا کرنا حسد ہے، اور حاسدین کی قسمت میں دنیا اور آخرت دونوں میں جلنا لکھا ہے، دنیا میں اس جلن کے نتیجے میں وہ گھٹ گھٹ کر جیتا ہے اور آخرت میں جلانے والی آگ اس کے انتظار میں ہے۔ اللہ نے حاسدین کے حسد سے پناہ چاہنے کی تلقین کی ہے۔
حسد اور رشک میں بڑا فرق ہے، رشک کسی کی اچھی حالت دیکھ کر اپنے کو اسی حالت میں پہونچنے کی تمنا کرنا ہے، یہ اچھی چیز ہے، اس کی وجہ سے آگے بڑھنے اور مسابقہ کا مزاج پیدا ہوتا ہے ، حسد میں اپنے لیے حصول نعمت کے بجائے دوسرے کے زوال نعمت پر توجہ مرکوز رہتی ہے ، ایک لطیفہ سنئے:” ایک بزرگ کے پاس دعا کے لیے ایک شخص حاضر ہوا، بزرگ نے کہا کہ دعا تو میں کردوں گا، لیکن جو اللہ تمہیں دے گا اس کا دوگنا تمہارے پڑوسی کو مل جائے گا، اس شخص کا مزاج حسد کا تھا، اس لیے بہت پریشان ہوا کہ کس بات کی دعا کرائے، سوچتے سوچتے اس نے بزرگ سے درخواست کی کہ میری ایک آنکھ پھوٹنے کی دعا کر دیجئے،
اس کی سوچ یہ تھی کہ جب ہماری ایک آنکھ پھوٹے گی تو دوسرے کی دونوں پھوٹ جائے گی۔“ ہے تو ایک یہ لطیفہ ، لیکن اس میں بڑی عبرت کی بات پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ اگر دل میں حسد ہو تو انسان اللہ سے بھی دوسروں کا نقصان طلب کر بیٹھتا ہے، ایک بڑے مفکر کا قول ہے کہ لوگ اپنے د ±کھوں سے اس قدر دکھی نہیں ہیں، جتنا دوسروں کے سکھ دیکھ کر دکھی ہیں۔ ایسی سوچ رکھنا بہت بری چیز ہے، انسان کو ہمیشہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے خیر کا طلبگار ہو نا چاہئے۔اس لیے ضروری ہے کہ من کو حسد سے پاک رکھیے اور اپنے جذبات فکر اور سوچ میں ایک توازن رکھیے ،
بے اعتدالی سے ہمارے کام بگڑتے ہیں، بے اعتدالی یہ بھی ہے کہ ہر وقت دوسرے کی شکایت کرتے رہیے، اس کو مذاق کا موضوع بنائیے، استہزاءسے کام لیجئے، اس سے ہم سوائے اپنا مخالف پیدا کرنے کے کچھ حاصل نہیں کر پاتے اور لوگ ہم سے کٹ جاتے ہیں، آپ چند لوگوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر وقتی فوائد تو حاصل کر سکتے ہیں، لیکن اس طرز عمل سے آپ لوگوں میں محبوب اور مقبول نہیں بن سکتے، محبوب ومقبول بننے کے لیے توازن کے ساتھ لوگوں کی خدمات کو سراہنا اور ماحول کو خوش گوار بنائے رکھنا ضروری ہے ،
ورنہ نا خوش گوار ماحول میں زندگی آپ کے لیے بھی دشوار تر ہوتی جائے گی اور مسائل ومشکلات سے نکلنا آپ کے لیے آسان نہیں ہوگا کیوں کہ فطرت اور قدرت کا روز ازل سے یہ اصول ہے کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے، آپ گیند کوجس قوت کے ساتھ دیوار پر مارتے ہیں اسی قوت کے ساتھ وہ اچھل کر آپ کی طرف آتا ہے، اسی کو دوسرے انداز میں شاعر نے کہا ہے کہ ”ہے یہ گنبد کی صدا، جیسی کہو ویسی سنو“۔
اس دنیا میں اتفاق کوئی معنی نہیں رکھتا ، سب بندھے ٹکے اصول کے مطابق ہوتا ہے، امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں اتفاقا کچھ نہیں ہوتا ،سب کچھ اللہ کے یہاں لکھا ہوا ہے، اسی کے مطابق واقعات ترتیب سے وقوع پذیر ہوتے ہیں، فرمایا کرتے: اتفاقا حادثہ ہو گیا، کا کوئی معنی مطلب نہیں ہے، اللہ کے نزدیک یہ حادثہ مقدر تھا اس لیے ہو گیا، اتفاق یہاں کہاں سے آگیا؟ حضرت کی یہ رائے تھی گو بول چال کی زبان میں اور حادثات کا علم بندے کو پہلے سے نہ ہونے کی وجہ سے اتفاق ہی معلوم ہوتا ہے،
حضرت اتفاقا سے حقیقی معنی ومطلب مراد لیتے تھے اور عام بول چال میں یہ مجازی معنی میں استعمال ہوتا ہے ، حالاں کہ حقیقت تو یہی ہے کہ کوئی کام اتفاقا نہیں ہوتا، سورج پورب سے نکلتا ہے، نکلے گا ، مغرب میں غروب ہوتا ہے ، غروب ہوگا، سردی، گرمی اور برسات کے اسباب بھی مقرر ہیں ، اس لیے ہم چاہ کر بھی الٹا چکر نہیں چلا سکتے کہ سورج مغرب سے طلوع ہونے لگے اور مشرق میں جا کر ڈوبے ، میں قیامت کی بات نہیں کر رہا، روز کے معمولات کا ذکر کر رہا ہوں۔
اگر آپ سب کی عزت نفس کا خیال رکھیں گے تو آپ کو عزت ملے گی، اگر آپ دوسروں کو ذلیل کریں گے تو خود بھی ذلیل ہوں گے ، قدرت کا مکافات عمل کا جو اصول ہے، آپ ا س سے بچ کر نہیں گذر سکتے، نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب بات کہی ہے کہ ”کیا خوب سودانقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے“ آج صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ ہمارے جذبات واحساسات اس قدر سرد پڑ گئے ہیں کہ لگتا ہے انسان مشین ہو گیا ہے، جس طرح خود کا ر مشینوں کو صرف کام سے مطلب ہوتا ہے، وہ بے حس ہوتی ہے ، اسی طرح ہم بے حس ہو گئے ہیں، مشینوں میں تو جذبات ہوتے ہی نہیں، ہم میں جذبات موجود ہیں، لیکن ہم جس سماج اور خاندان میں رہتے ہیں، اس نے ان جذبات کی پرورش صحیح انداز میں نہیں کی اور ہم اپنے جذبات کو سنبھالنے پر قادر نہیں ہو سکے، جو ان ہوئے تو زندگی مشینی انداز کی ہو کر رہ گئی،اور دیکھتے دیکھتے یہ اس قدر ہماری زندگی میں داخل ہو گیا کہ ہمیں جذبات واحساسات کی قدر کرنے اور اسے محفوظ رکھنے کا خیال ہی دل ودماغ سے جاتا رہا ، ہمارے پاس موبائل اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اطلاعات، معلومات کا اس قدر ذخیرہ جمع ہے کہ ہم انہیں میں الجھ کر رہ گیے ہیں، ہمیں جذبات کو منظم کرنے اور انہیں ترقی دے کر عملی زندگی میں داخل کرنے کا خیال ہی دل ودماغ میں پیدا نہیں ہوتا، آج ہمارے بچے ہی نہیں، جوانوں اور بوڑھوں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے، ساری معلومات تک ہماری پہونچ ہے، صرف بٹن دبا نا ہے، بٹن دبایا اور سب کچھ ہمارے سامنے ہے ، ہماری پوسٹ پر پسندیدگی کی مہر بھی لگ رہی ہے اور دوسرا بٹن دبا کر شیر بھی کیا جا رہا ہے، ایسے میں ہمارے اندر وہ کیفیت ہی پیدا نہیں ہو پاتی اور ہم ان معلومات کے دباؤ میں رہتے ہیں، ہمیں تحقیق کی جو خوشی ملتی تھی اس سے ہم محروم ہو گیے اور اس کے نتیجے میں صحیح، غلط کی تمیز بھی ہم سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔جذبات پر برف کی موٹی سل کے پڑنے اور زندگی کے مشینی ہونے کی وجہ سے رشتے اور تعلقات کی ڈور بھی انتہائی کمزور ہوتی جا رہی ہے ، ہماری زندگی سے بر داشت کی عادت ، مل جل کر رہنے کی ضرورت، بقائے باہم کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی ہے، یہ معاملہ اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ ہم اکسیڈنٹ ہونے پر متاثر کو مدد کے بجائے اس کی تصویر کھینچنے میں لگ جاتے ہیں، سڑک پر ظلم وزیادتی ہوتے دیکھ کر اپنی راہ لیتے ہیں کہ کیوں ہم دوسروں کے پھٹے میں ٹانگ اڑائیں، یہ بے حسی ہے جس کا ایک سرا کہیں بزدلی سے بھی ملتا ہے، یہ ہمارے حال کو تو تباہ کر ہی رہا ہے ، مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔
ہماری خواہش ہوتی ہے کہ سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق ہو، ایسا کس طرح ممکن ہے، اللہ رب العزت کی حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے کہ اس کی مرضی اور مشیت کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا، لیکن بندہ تو بندہ ہے، وہ خود محتاج ہے ایسے میں سارا کچھ کس طرح اس کی مرضی کے مطابق ہو سکتا ہے، حضرت ابراہیم نے نمرود کو یہی تو کہہ کر ہکا بکا کر دیا تھا کہ میرا رب سورج پورب سے نکالتا ہے تو پچھم سے نکال کر دکھا ، قرآن کی تعبیر ہے:”فبھت الذی کفر“ اللہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت بھی نہیں دیتا۔
جب کوئی کام ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتا تو ہمیں غصہ آتا ہے اور ہم اپنا توازن کھو دیتے ہیں، غصہ بھی جذبات کے زیر اثر آتا ہے ، لیکن منفی جذبات ، اس منفی جذبات کی وجہ سے ہم کسی حد تک جانے اور کچھ کر گذرنے کو تیار ہوتے ہیں، اپنے پرائے کی پہچان ختم ہوجاتی ہے، کیوں کہ جب ہم غصہ ہوتے ہیں تو ہمارے دماغ کا سوچنے والا حصہ ماو ¿ف ہو کر رہ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے فیصلے غلط ہونے لگتے ہیں۔
صحیح اور سچی بات یہی ہے کہ جذبات واحساسات ہی ہمیں انسان بناتے ہیں، من کی دنیا ایک الگ دنیا ہے، جس میں سوز ومستی جذب وشوق کی فراوانی ہوتی ہے،
من میں ڈوبنے کا ہنرخوشحال زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے ، اگر آپ اپنے جذبات کو سمجھنے کی پوزیشن میں ہوں گے تو آپ دوسروں کو سمجھ بھی سکیں گے اور خوش اسلوبی سے اپنی باتوں کو سمجھا بھی پائیں گے ، اگر ایسا نہیں ہو سکا تو ہمارا سلوک دوسروں سے جنگل راج کی طرح کا ہوجائے گا، ان حالات سے بچنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ ہم خود جذبات کو پروان چڑھانے کی فکر کریں ، نفسیاتی اطباءکی زبان میں اسے ”سیلف ٹرانزنٹ ایموشن “ کہتے ہیں اس کے ذریعہ آپ اپنے اندر قوت برداشت نرم مزاجی ، صبر اور حساسیت کی صفت پیدا کر سکتے ہیں،
اگر آپ یہ صفت بچوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بچوں کو دوسروں کی خدمت پر ابھاریں ان کو دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کی تربیت دیں، کوشش کریں کہ ملی ، تعلیمی ، سماجی ، مذہبی اور ملکی معاملات کے بارے میں وہ پورے طور پر حساس بنے رہیں، خود بھی ان کے ساتھ کچھ وقت گذاریں اور اپنے عمل سے ثابت کریں کہ آپ جیسا انہیں بنانا چاہتے ہیں، اس پر آپ خود بھی عامل ہیں۔