معروف روحانی بزرگ ولئی مرتاض حضرت الحاج شاہ صوفی معین الدین صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں
سید محمد ریاض ندوی کھجناوری، رئیس! جامعة الحسنین صبریپور
صوفیاء اور خانقاہوں کی تعلیم روح کو صیقل اور باطن کو مزکی ومجلی کرتی ہے اور اس کا مقصد نفس کا تزکیہ،اخلاق کی تہذیب، باطن کی تطہیر،احسان وعرفان ومعرفت الہی پیدا کرنا ہوتا ہے،حقیقت میں یہی سنت و شریعت کی روح و مطالبہ اور اسلام کا عطر وجوہر، زندگی کا خلاصہ و نتیجہ اور دین اسلام کا بنیادی تقاضہ وضرورت ہے،اولیاءﷲ کی باتیں دلوں کی آبیاری اور سرسبزی کا ذریعہ بنتی ہیں، جس طرح پودوں کے لئے پانی، ان اہل دل کی صحبت کا یہ حال ہوتا ہے کہ ان کو دیکھ کر ﷲ یاد آتا ہے رسول اللہ کی تعلیمات پر عمل آوری کا جذبہ انسانی زندگی میں پیدا ہوتا ہے اور یہ بجھےدلوں کی شمع روشن کرتے ہیں،
بقول علامہ اقبالؒ ۔
مجسم حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق
بھلا اے دل کوئی ایسا حسیں بھی ہے حسینوں میں
جلا دیتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی
الہی کیا بھراہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں
اہل دل کی دکان ایسا میخانہ ہوتا ہے جہاں کا محروم بھی محروم نہیں رہتا،جہاں سےتشنہ کامان علم ومعرفت اپنے اپنے ظروف و ذوق اور وجدان و کیفیت کے بقدر سیرابی حاصل کرتے ہیں، عشق و محبت کے متوالے گوہرمراد سے اپنا دامن بھرتے ہیں،اس طرح کے مواقع کو اپنے لئے غنیمت اور سعادت سمجھنا چاہئے، خدارسیدہ صوفیوں، زاہدوں و شب زندہ داروں کی معیت ومصاحبت میں زندگی کے قیمتی لمحات واوقات گزارنا اقبال مندی اور دنیوی واخروی فوز و فلاح کی دلیل ہے، اس سے روح بیدار اور دل زندہ ہوتا ہے اور زندہ دلی ہی زندگی سے عبارت ہے، اگرروح بے جان اور قلب مردہ ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ انسان جانداررہتے ہوئے بھی مردہ ہے۔
مجھے ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگی عبارت ہے تیرے جینے میں
بلاشبہ اسلامی تاریخ کے ادوار میں کوئی دور ایسا نہیں جس میں صوفیاءکا انقلابی اقدام، ان کی رہنمائی، اور آہ سحر گاہی شامل نہ ہو، ہندوستان میں دینی، تعلیمی، سماجی، تبلیغی اور سیاسی شعور کی اصلاح و تربیت میں خانقاہوں اور انہیں بوریہ نشینوں کا اہم رول ہے، اور یہ خانقاہی وروحانی نظام بلا انقطاع تسلسل سے جاری ہے، اس کے اثرات اور یہاں پر براجمان علمائے با صفا کا فیض یہاں کے عوام و خواص میں جاری ہی نہیں بلکہ پورے بانکپن کے ساتھ موجود ہے یہاں کی سرزمین ان کے وجود مسعود سے چشمۀ نور بنی ہوئی ہے۔
ایسے ہی ایک صاحب کمال، درویش صفت بزرگ،عظیم روحانی پیشوا،ولئی مرتاض حضرت الحاج شاہ صوفی معین الدین صاحب دامت برکاتھم کی ذات گرامی ہے،جن کے جلو میں بیٹھ کر ﷲ یاد آتا ہے،دنیا کی بے ثباتی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے ،یہاں عشق ومحبت اور ایمانی سوز وحلاوت کےخم لنڈھائے جاتے ہیں،اکابرین کی آمد ورفت اور آپ کی بزرگان دین کے ساتھ معیت وصحبت خصوصااپنے وقت کے جلیل القدر بزرگ حضرت جی ملا عبد الکریم صاحبؒ بوڑیوی سے فیض اٹھانے کے عوض محبوبیت اس "میخانۀ شاہ”کو حاصل ہے،یہاں کے جرعہ نوشوں میں صاحب حال بھی ہیں اور صاحب فضل و کمال بھی ۔
آپ کی پیدائش 1948ء کی ہے،جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل ہی اپنے والد محترم حضرت الحاج صوفی منظور احمد صاحب کے ہمراہ خانقاہ بوڑیہ میں موجود ولئی کامل حضرت جی ملا عبد الکریم صاحبؒ کے پاس باطنی استفادہ شروع کردیا تھا اور وہیں آپ کو جوانی کی عمر میں خرقۀ خلافت عطا کیا گیا، جو نسبت آپ کے والد محترم کو حاصل تھی وہی نسبت اس بزرگوار صاحبزادہ کو بھی حاصل ہوئی،اپنی آبائی بستی نلہیڑہ میں تقریبا تیس سال امامت فرمانے کے بعد آپ نے ایک ادارہ بنام جامعہ ضیاء العلوم، پٹھیڑ قائم فرمایا،جو ماشاءﷲ روز افزوں ہے،اور وہاں علوم نبویﷺ کی اشاعت میں مصروف ہیں،جہد و مجاہدہ،جفاکشی کی آپ مکمل تصویر ہیں، تقریبا چار دہائی سے آپ حضرت جی ملا عبد الکریم صاحبؒ کی اس روحانی میراث سے عوام و خواص کو سیراب کررہے ہیں،یہاں روزانہ صبح وشام ذکر واذکار کی مجالس منعقد ہوتی ہیں اور ﷲ ﷲ کی ضربوں سے دلوں کو دھویا پاک وصاف کیا جاتا ہے،ﷲ تعالی اس خانقاہ کے فیض کو ہمیشگی ودوام عطا فرمائے،
ایک لمبے عرصہ سے یہ خیال تھا اور دل میں یہ تمنا جنم لے رہی تھی کہ بہت روز ہو گئے ان نفوس قدسیہ پر نظر نہیں پڑی جن کی نظر میں خدا تعالی نے وہ تاثیر رکھی ہے جو دلوں کی دنیا بدل ڈالتی ہے،قلب کو سکون پہنچاتی ہے،انسانی زندگی میں جس کی ایک تاثیر ہے، جس کے اوپر وہ نظر پڑجائے اس کے شب و روز میں یک لخت تبدیلی محسوس ہوتی ہے، پھر یہ ہوتا ہے کہ عبادت میں مزہ آنے لگتا ہے تلاوت قرآن کے لئے انسان بےتاب ہو جاتا ہے، انسان کی معاشرت بھی سنورتی ہے معیشت بھی، اپنے علمی کاموں میں دوام کی توفیق میسر ہوتی ہے،پھر زوال نام کی کوئی شئی زندگی میں باقی نہیں رہتی،یہ اہل نظر انہیں میخانۀ علمی و روحانی میں فروکش ہیں،جن کو ہم خانقاہ کہتے ہیں ۔
کئی ہفتے گزرے کہ قطب دوراں حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحبؒ سے ملاقات و استفادہ کی خواہش نے پریشان کر رکھا تھا،اپنی کاہلی اور مشغولیات کے ہجوم کے سبب پروگرام نہ بن سکا بالآخر اس وقت دیدار نصیب ہوا،جب آپ دربار خالق کون ومکاں چل بسے،اور اپنی عالی خدمات کا صلہ پانے کے لئے دربار الہی کی چوکھٹ پر ہمیشہ ہمیش کے لئے محو استراحت ہوگئے،اور میں پھڑک اٹھا،چنانچہ رات ہی میں نکلنے کا پروگرام بنایا اور شب وہیں گزاری، ﷲ کیا سماں تھا،قبل الفجر جنازہ قیام گاہ سے باہر مدرسہ میں لایا گیا،درمیان میں جنازہ رکھا گیا،چاروں جانب ﷲ ﷲ کی ضربوں کا نعرہ بلند تھا،ایک جم غفیر ذکر میں مشغول تھا، مکان تھا لیکن مکیں اپنے رب کے جوار چل بسا تھا۔
اب انہیں ڈھونڈے کوئی چراغ رخ زیبا لے کر
کف افسوس ملتا رہ گیا۔
ابھی سہ روز قبل اکابرین کے منظور نظر،اورفیض یافتہ، صلاح وصلاحیت کے پیکر، نوجوان عالم دین جناب مفتی محمد جابر صاحب پالن پوری دامت برکاتہم استاد حدیث وفقہ جامعہ قاسمیہ عربیہ کھروڑ بھروچ گجرات سے فون پر بات ہوئی، چند منٹ کی گفتگو ایک مخصوص مقصد سے تھی جس نے آپ کے اعلی اخلاق اور انسانیت نوازی و فروتنی کے سبب قلب میں انسیت و محبت کا روپ دھار لیا، مفتی صاحب دام ظلہ نے فرمایا، اس میخانۀ معرفت گئے ہیں جہاں کے ہم بھی مئےکش ہیں، میں نے اپنی کاہلی کے سبب نہ جانے کو بتلایا، اسی فون پر ہوئی گفتگو سے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ کیوں نہ جلد ملاقات کی جائے،چنانچہ آج صبح بتاریخ6 فروری 2023ء کے لئے پروگرام بنایا گیا، تقریبا ساڑھے گیارہ بجے حضرت شاہ صوفی صاحب دامت برکاتھم کے قائم کردہ ادارہ میں حاضر ہوا،جو پٹھیڑ میں لب سڑک واقع ہے،آپ اس وقت چند مہمانوں کو رخصت کررہے تھےان سے فارغ ہونے کے بعد سلام ومصافحہ ہوا،پوچھا، کہاں سے آئے ہو، بتلایا کھجناور سے، حضرت نےعلی الفور اپنے لائق و فائق بیٹےمولانا محمد صادق صاحب مظاہری مدظلہ العالی کو کھانا کھانے کھلانے کے لئے بولا، آپ اپنے ہمراہ ایک کمرہ میں کھانا کھلانے کے لئے لے گئے،تقریبا 45منٹ مولانا محمد صادق صاحب محو گفتگو رہے،اور اپنا قیمتی وقت دیا، اور ان کی علمی و تجرباتی اور تاریخی باتوں، نیز خانقاہ کے احوال وکوائف سے ہم محظوظ ہوتے رہے،
آپ ایک صالح نوجوان،علمی وعملی صلاحیت سے لیس،بزرگوں کے خدمتگار ہیں،اس کے بعدوہ موقع بھی آن پہونچا جس کا بے صبری سے انتظار تھا اور خلوت میں حضرت شاہ صوفی صاحب دامت برکاتھم سے ملاقات کرائی،آپ مسجد کے صحن میں ایک مصلی پر تشریف فرماتھے،جہاں ایک جانب اگر ذکر الہی کی حرارت قلوب کو گرما رہی تھی، وہیں دوسری جانب موسم سرما میں دھوپ بھی اپنا لطف دے رہی تھی،ظاہری شکل وصورت ہی اوصاف نبویﷺ سے متصف نہ تھی بلکہ باطنی رازہائےشریعت بھی پیشانی پر چھلک رہے تھے،شریعت وطریقت کی ملی جلی تصویر ہمارے سامنے تھی راتوں کاگداز،آہ سحر گاہی اور قلبی خوں گشتگی کے منظر ہویدا تھے، ان کی باتوں میں اثر، لہجہ میں بلا کی نرمی، اپنائیت کا احساس عیاں تھا،ﷲ اور اس کےرسول ﷺکی تعلیمات کی آبشار لنڈھائے جارہے تھے تعارف ہوا،اور عام نہیں بلکہ حضرت نے اس انداز سے معلوم کیا جیسے آج ہی اس در پر حاضری ہو (کاش وہ دن جلد آئے)میری مشغولیات، مدرسہ،خاندان اور دیگر امور پر گفتگو فرمائی،دو مسودے جو زیر تصنیف ہیں ان کو دیکھا اپنی کتاب "اپنی دنیا آپ پیدا کر ” پیش کی بڑے خوش ہوئے اور دعاؤں سے اس خالی جھولی کو بھرا،میرے قارئین سوچ رہے ہوں گے اور کیا باتیں ہوئیں، جی ہاں! وہ بھی سپرد قلم کئے دیتا ہوں، فائدہ ہوگا،
میں نے نصیحت کی فرمائش کی، آپ نے فرمایا، جو کچھ لکھ رہے ہو، یہ اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر نہیں،بل کہ ﷲ کا فضل ہے،اس کا کرم ہے، وہ کام لے رہا ہے، ہم کسی قابل نہیں، جو کام لے رہا ہے اس کی عطاءہے، دینی،علمی وتصنیفی کاموں سے جڑے رہنے کی دعا سے نوازتے ہوئے ایمان کی سلامتی کی دعا فرمائی جو سب سے اہم ہے، اور جس پر تمام زندگی کا دارومدار ہے،اس موقع پر عزیز شاگرد حافظ محمدثاقب ساتھ تھے، حضرت والا دامت برکاتھم نے عزیز سلمہ کے سرپر دست شفقت رکھا،اور کامیابی کی دعائیں دیں،یہ ملاقات حضرت مفتی صاحب دام ظلہ کی رہین ہے کہ آپ کی ترغیب پر یہ پروگرام بنا،ﷲتعالی جزائے خیر عطافرمائے،اور بزرگان دین کی حیات میں ان سے استفادہ کی توفیق ارزانی فرمائے۔آمین