مسلمان سے ہندو بننا اس خاندان کے لیے کیسا رہا، کیا ہندوؤں نے انہیں اپنایا؟- گراؤنڈ رپورٹ
مسلمان سے ہندو بننے والوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ؟
باغپت میں 2018 میں ایک مسلم خاندان کے 13 لوگ ہندو بن گئے۔
ہندو بننے کے بعد انہیں ذات پات کے محاذ پر مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
مسلم سے ہندو بننے والے یوپی شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی بھی پریشان ہیں۔
وشو ہندو پریشد کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان ہندو بن گئے تو انہیں آباؤ اجداد کی ذات ملے گی۔
چار سال کی بچی مذہب کے بارے میں کیا جانتی ہوگی؟ اگر اسے زویا کے نام سے پکارا جاتا تو بھی وہ شاید ہی سمجھ پاتی کہ اس کے والدین مسلمان ہیں، اس لیے یہ نام رکھا ہے۔
بچوں کا مذہب کیا ہوگا، یہ ان کی پسند سے طے نہیں ہوتا۔ پوری دنیا میں والدین ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کا مذہب کیا ہوگا۔ اگر والدین اپنا مذہب تبدیل کرتے ہیں تو بچوں پر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ ماں باپ کا مذہب اختیار کریں۔
اتر پردیش کے باغپت ضلع کے بدرکھا گاؤں میں جب ایک چار سالہ بچی سے اس کا نام پوچھا گیا تو اس نے اپنا نام زویا بتایا۔
نام بتانے کے بعد زویا نے شرماتے ہوئے اپنی چھوٹی انگلیاں منہ پر رکھ لیں۔ اس کے پاس بیٹھی اس کی بڑی بہن زویا کو کہنی سے مارتی ہے اور کہتی ہے کہ تمہارا نام گڑیا ہے۔ اپنی بہن کے کہنے پر وہ پھر اپنا نام گڑیا بتاتی ہے۔
اسی دوران زویا کے بھائی کو محلے کا ایک بچہ انس کے نام سے پکارتا ہے۔ سات سالہ انس اپنے والد دلشاد کو دیکھ رہا ہے۔
دلشاد اس بچے کو ڈانٹتا ہے اور کہتا ہے – اسکول میں اس کا نام امر سنگھ ہے اور اسے اسکول ہی کے نام سے ہی پکارو ۔ دلشاد کے جواب سے وہ بچہ دنگ رہ گیا اور خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔
ہندو بننے کا مقصد؟
دراصل دلشاد کے خاندان کے کل 13 لوگ 2018 میں مسلمان سے ہندو بن گئے تھے۔ ان میں تین بھائی نوشاد، دلشاد اور ارشاد کے علاوہ ان کی بیویاں اور بچے بھی شامل تھے۔
اس کے ساتھ ان کے والد اختر علی بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ ہندو بن گئے۔ پھر انہوں نے شکایت کی کہ مسلمانوں نے مشکل وقت میں ان کا ساتھ نہیں دیا، اس لیے انہوں نے اسلام چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ خاندان ہندو بنا تو زویا صرف چھ ماہ کی تھی۔
یہ پورا خاندان مزدوری کرکے اپنی روزی روٹی کماتا ہے۔ نوشاد راج مستری ہیں۔ دلشاد کپڑے بیچنے کے لیے گاؤں گاؤں گھومتا ہے۔ ارشاد پھیری لگاکر کپڑے بیچتا ہے۔ ان کے والد اختر علی بھی یہی کام کرتے تھے لیکن اب وہ بوڑھے ہو چکے ہیں۔
اختر علی کے چھوٹے بیٹے گلشن کی لاش 2018 میں مشکوک حالت میں ملی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بیٹے کو قتل کیا گیا اور برادری کے لوگوں نے تعاون نہیں کیا۔
یوا ہندو واہنی کے لوگوں نے اس کی مدد کی اور بعد میں اس نے اسلام چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہندو مذہب اختیار کرنے کے بعد گاؤں کے جگبیر سنگھ نے اپنا گھر دے دیا تھا۔ گاؤں میں ان کا گھر خالی تھا کیونکہ ان کا پورا خاندان میرٹھ میں رہتا ہے۔
لیکن مسلمان سے ہندو تک کا سفر پورے خاندان کا زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔ اس کے گھر کی عورتوں کا ہندو بننے کا ارادہ نہیں تھا۔
ہندو بننے کے بعد نوشاد کی بیوی رقیہ اپنے ماں کے گھر چلی گئی۔ اس نے کہا کہ یہ شادی ہندو بننے کے بعد ٹوٹ گئی ہے اور اب وہ واپس نہیں آئے گی۔ نوشاد کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اکیلا رہنا بہت مشکل تھا کیونکہ بچے بھی بیوی کے ساتھ گئے ہوئے تھے۔
تین میں سے دو بھائی دوبارہ مسلمان ہو گئے ہیں لیکن دلشاد (بائیں) اب بھی ہندو ہے۔
ہندو بننے سے کیا ملا؟
نوشاد نے دو ماہ کے اندر دوبارہ اسلام قبول کر لیا اور اس نے دوبارہ اپنی بیوی سے شادی کر لی۔ اسی طرح ارشاد بتاتے ہیں کہ یہ سوچ کر کچھ حاصل نہیں ہوا کہ وہ ہندو بن گیا ہے۔ ہندو بننے کے بعد ارشاد نے اپنا نام کوی رکھا تھا۔ ارشاد کہتا ہے کہ انصاف کے لیے ہندو بن گیا تھا لیکن یہاں بھی کچھ نہیں ملا۔
ارشاد کہتے ہیں، ’’وہ ہندو بن گیا تھا لیکن تمام رشتہ دار مسلمان تھے۔ ہندو بننے کے بعد سب نے منہ موڑ لیا۔ کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ سب طنز کرتے تھے۔ کسی نے فون تک نہیں اٹھایا۔ دوسری طرف ہندوؤں میں بھی ذات پات کا نظام ہے۔ خود کو ہندو بنا لیا، لیکن ذات کہاں سے ملے گی ؟ اگر ذات نہ ملے تو شادی کا کیا ہوگا؟ میں نے سوچا کہ یہ اپنی ٹانگ پر خود ے کلہاڑی مارنے والی بات ہے۔
اختر علی کی سب سے بڑی بہو شبرہ خاتون کہتی ہیں، ’’میں جانتی تھی کہ کوئی ہندو ہمیں قبول نہیں کرے گا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ مجھے کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے، میں ہندو نہیں بنوں گا۔ میرے بچوں کی شادی کون کرے گا؟ ہندو بننے کے بعد بھی میں برہمن نہیں بن پاؤں گی ۔ دلت ہی ہونا تھا۔ پھر میں اچھوت کا شکار ہونے کے لیے وہاں کیوں جاؤں؟ دیکھو مسلمان بننا آسان ہے لیکن ہندو بن کر بھی پیچھے کی زندگی سے آزاد نہیں مل سکتی ۔
اختر علی کا پورا خاندان دوبارہ مسلمان ہو گیا لیکن ان کا تیسرا بیٹا دلشاد اب بھی ہندو ہے۔ اس نے 2018 میں اپنا نام بدل کر دلیر سنگھ رکھ لیا۔ دلیر سنگھ نے اپنے پانچوں بچوں کا نام ہندو رکھا ہے۔ ان کے پانچ بچوں کی عمریں چار سے چودہ سال کے درمیان ہیں۔ دلیر سنگھ نے اپنی بیوی کا نام منجو رکھا ہے۔
دلیر سنگھ پچھلے چار سال سے ہندو ہے تو کیا اس سے کوئی فائدہ ہوا؟
اس سوال کے ساتھ ہی اس کے چہرے پر دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ خاموشی توڑتے ہوئے دلیر سنگھ کہتے ہیں، ’’ملنا کیا ہے ؟ یہ محنت سے حاصل ہوتا ہے۔ مذہب کے ساتھ نام بدلتے ہیں۔ گاؤں کے ہندوؤں نے ہی مدد کی۔ جے بیر سنگھ کا دیا ہوا مکان اب بھی وہیں ہے۔ میرا بھائی پھر سے مسلمان ہو گیا، اب بھی اسی گھر میں ہے، انہوں نے ہٹایا نہیں ۔
ہندوؤں کا کیا کہنا ہے؟
جے بیر سنگھ کے خاندان کے سکھبیر سنگھ کہتے ہیں، ’’انہیں گھر اس لیے نہیں دیا گیا کیونکہ وہ ہندو بن گئے تھے۔ مکان اس لیے دیا گیا کہ وہ خالی تھا اور جب یہ لوگ رہتے ہیں تو صفائی کرتے رہتے ہیں۔ وہ جس مذہب میں رہنا چاہتے ہیں اس پر قائم رہیں۔ ہمیں پرواہ نہیں ہے۔”
سکھبیر سنگھ کہتے ہیں، ’’دیکھو، ہندو سے مسلمان بننا آسان ہے، لیکن مسلمان سے ہندو بننا مشکل ہے۔ ہندو سماج میں ذات پات کو اب بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ اب بھی شادیاں اپنی ذات میں ہی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی مسلمان سے ہندو بن جائے تو وہ کون سی ذات اختیار کرے گا؟ ذات پیدائشی ہے۔ پسند کی بنیاد پر حاصل نہ کریں۔ فرض کریں وہ ہماری ذات جاٹ میں آنا چاہتے ہیں، لیکن انہیں جاٹ کے طور پر کون اپنائے گا؟
مغربی بنگال کی جدوارپور یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر عبدالمتین کا کہنا ہے کہ بھارت میں گھر واپسی کا جو نعرہ دیا گیا ہے وہ ایک سماجی اور سیاسی دھوکہ ہے۔
پروفیسر متین کہتے ہیں، ’’گھر واپسی‘‘ کا نعرہ تو دے رہے ہیں لیکن کس گھر میں؟ گھر کی بالکونی میں یا صحن میں۔ یا گیراج میں رہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ گھر کی بیل بجانے کے بعد بھی کوئی دروازہ نہیں کھولے گا۔ دیکھیں ہندومت میں ذات پات کی زنجیر کو توڑنا آسان نہیں ہے۔ امبیڈکر اسے توڑ نہ سکے اور ہارنے کے بعد وہ بدھ مت میں چلے گئے۔ ابراہیمی مذاہب یعنی اسلام اور عیسائیت کی بات کریں تو اجتماعیت کا احساس ہوتا ہے۔ تعلق کا احساس ہوتا ہے ۔ یعنی آپ بھی اس گروپ کا حصہ ہیں اور آپ جڑے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ لوگ ہندو مذہب کی طرف جاتے ہیں لیکن انہیں سماجی پہچان نہیں ملتی۔
گھر واپسی میں گھر کہاں ہے؟
پروفیسر متین کہتے ہیں، ’’جو ہندو بن رہے ہیں وہ دل کی تبدیلی کی وجہ سے نہیں بن رہے ہیں۔ یہ تبادلے سیاسی طور پر محرک ہیں۔ لیکن اگر کوئی مسلمان دل بدل کر بھی ہندو بن رہا ہے تو کیا ہندو سماج میں دل بدلے گا؟ یعنی ہندو معاشرہ اتنا لبرل ہو جائے گا کہ انہیں قبول کر لے؟ جو لوگ مسلمان سے ہندو بن جاتے ہیں، ان کی شناخت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ ہندو سماج میں شناخت کے حوالے سے بہت سی باریکیاں پہلے سے موجود ہیں۔ ایسے میں اس پیچیدگی کے ساتھ جینا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ تبدیلی کے بعد ہندوؤں کے بڑے معاشرے میں داخل ہونا مشکل ہے۔
پروفیسر متین کہتے ہیں، ’’میں نے ابھی سعید نقوی کا ناول ‘The Muslim Vanishes’ پڑھا ہے۔ اس ناول میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان سے مسلمان اچانک ختم ہو جاتے ہیں۔ تاج محل، قطب مینار سے لال قلعہ تک غائب۔ اس کے بعد بھارت میں سیاسی جماعتیں پریشان ہو جاتی ہیں کہ الیکشن کیسے لڑیں۔ انہیں واپس لانے کے لیے الیکشن کمیشن کے گیٹ کے باہر یگیہ کیا جاتا ہے۔ میڈیا والوں کو بھی بحث کا کوئی فرضی ایشو نہیں مل رہا۔ آپ نے سوال کیا تو مجھے فوراً یہ ناول یاد آگیا۔
وشو ہندو پریشد کے جوائنٹ سکریٹری سریندر جین کہتے ہیں، ’’بیٹی روٹی کے رشتے کا سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی اسلام سے ہندو مذہب میں آتا ہے۔ قبولیت کا سوال بھی ہے۔ ہم اس کے لیے ایک حل لے کر آئے ہیں۔ جن کے آباؤ اجداد جس ذات سے تعلق رکھتے تھے، انہیں وہی ذات ملے گی۔ یہاں کے تمام مسلمانوں کے آباؤ اجداد ہندو تھے اور ان کے آباؤ اجداد کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ کون نہیں جانتا کہ شیخ عبداللہ کا خاندان کول برہمن تھا۔ اسی طرح جناح کے خاندان کے بارے میں کون نہیں جانتا۔محمد علی جناح کے آباؤ اجداد کا تعلق گجرات میں لوہانہ ٹھاکر ذات سے تھا۔ یہ ذات گجرات کے ہندوؤں میں کاروبار کرنے والوں کی ہے۔
ہندو بننے کے بعد ذات کا کیا بنے گا؟
سریندر جین کہتے ہیں، ’’یہ ہریانہ میں شروع ہوا ہے۔ جاٹوں نے انہیں اسلام سے واپس ہندو مذہب میں آنے کے بعد قبول کیا ہے۔ گھر واپسی کا نعرہ صرف نعرہ نہیں بلکہ یہ کام جاری ہے۔ جو کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں کوئی ذات نہیں ہے، وہ اسلام کو نہیں جانتے۔ کیا شیخ پسماندہ سے شادی کرے گا؟ شیعہ سنی دشمنی کون نہیں جانتا؟ ہم اس پر کام کر رہے ہیں کہ جو لوگ اسلام سے ہندو مذہب میں آئے انہیں ان کے آباؤ اجداد کی ذات مل جائے۔ میوات میں ہم وہاں کے مسلمانوں کے ہندو گوتر کو بھی جانتے ہیں۔ اس لیے اس میں الجھنے کی ضرورت نہیں۔
گجرات یونیورسٹی کے سوشل سائنس کے پروفیسر گورانگ جانی کہتے ہیں، ’’سریندر جین کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ ذات پات سے پاک معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ ذات پات کی بنیاد پر امتیاز ختم ہو سکے۔ لیکن وہ ورنا نظام کو خراب نہیں کرنا چاہتا، اس لیے مسلمان سے ہندو بننے کے بعد بھی وہ ذات پات کو لوگوں میں تقسیم کرے گا۔ پچھلے 10 سالوں میں مسلمانوں کی جو تصویر بنائی گئی ہے، کیا لوگ اس تصویر سے نفرت کریں گے یا قبول کریں گے؟ وشو ہندو پریشد کو یہ سوال خود سے پوچھنا چاہیے۔ اگر ہندوؤں میں ایسا قابل قبول جذبہ ہے تو وہ مسلمانوں کو کرائے پر مکان کیوں نہیں دیتے؟
اختر علی کے خاندان کو یوا ہندو واہنی کے باغپت ضلع صدر یوگیندر تومر نے مسلمان سے ہندو بننے میں مدد کی۔ اس سے پوچھا کہ یہ خاندان دوبارہ مسلمان کیوں ہوا؟
اس سوال کے جواب میں یوگیندر تومر کہتے ہیں، ’’ان کی بیویاں اور بچے چلے گئے تھے۔ اس لیے اسے دوبارہ واپس جانا پڑا۔ لیکن ہماری مہم ختم نہیں ہوئی۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام مسلمان وطن واپس آئیں۔
وسیم رضوی نے ہندو بن کر کیا حاصل کیا؟
اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے گزشتہ سال 5 دسمبر کو ہندو مذہب اختیار کیا اور جتیندر نارائن سنگھ تیاگی بن گئے۔ 51 سال کی زندگی میں جتیندر نارائن سنگھ تیاگی 50 سال دو ماہ تک اسلام میں رہے۔ پچھلے 10 مہینوں سے ہندو۔ وہ ان 10 مہینوں کو کیسے دیکھتا ہے؟
تیاگی کہتے ہیں، ’’مجھے سناتن میں آنے کے چیلنجوں کا پہلے ہی اندازہ تھا۔ یہاں لوگ نہیں اپناتے۔ سب سے پہلی دقت تو ذات اور برادری کو لیکر پیش آتی ہے ۔جتیندر سنگھ تیاگی کہتے ہیں پہلا مسئلہ ذات پات اور بھائی چارے کا ہے۔ اگر آپ نے کوئی ذات لے لی بھی تو اس ذات کے لوگ آپ کو قبول نہیں کریں گے۔ میں نے اپنے نام میں تیاگی جوڑا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ تیاگی سماج بیٹی روٹی کا رشتہ بنائے گا۔ میرا ماضی انہیں مجھے اپنانے نہیں دے گا۔ یہ سناتن دھرم کے مسائل ہیں۔ یہاں لوگ نہیں اپناتے۔ اگر ساتویں صدی کا مذہب اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب بنا تو اس کی بھی کچھ خوبیاں ہیں۔
جتیندر تیاگی کہتے ہیں، ’’اسلام میں گھل مل جانے کی جگہ ہے۔ ایک بار جب آپ اسلام قبول کر لیتے ہیں تو ان کے لیے آپ کے ماضی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ازدواجی تعلقات میں کوئی حرج نہیں۔ اسلام میں ذات پات کی ایسی کوئی تذلیل نہیں ہے۔ میں مرتے دم تک سناتن میں رہوں گا، لیکن میں جانتا ہوں کہ بیٹی روٹی کا رشتہ کوئی نہیں بنائے گا۔ ایسے میں ایسا لگتا ہے کہ ہم نہ گھر میں ہیں نہ گھاٹ میں۔ جب میں اسلام میں تھا تب بھی سکون نہیں تھا اور اب میں یہاں رہ کر بھی الگ تھلگ محسوس کرتا ہوں۔
جتیندر نارائن تیاگی کا کہنا ہے کہ سناتن میں آنے کے بعد ان کی شادی ٹوٹ گئی۔ خاندان بری طرح متاثر ہوا۔ وہ کہتا ہے، ’’سچ کہوں تو میں نے اپنی زندگی کو زہر دے دیا ہے۔ اس لیے میں پورے خاندان کے ساتھ سناتن دھرم میں نہیں آیا۔ پہلے میں خود آکر دیکھنا چاہتا تھا۔ اچھا ہوا کہ پورا خاندان ساتھ نہیں آیا۔
مذہب اتنا اہم کیوں ہے؟
کیا انسان کی زندگی میں مذہب اتنا اہم ہے کہ شادی اور خاندان بھی تباہ ہو جائے؟ اس سوال کے جواب میں تیاگی کہتے ہیں، ’’انسانیت سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ہے، لیکن ہاں، میں نے مذہب کو زیادہ اہمیت دی۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر گھر واپسی کو مہم بنانا ہے تو آگے بڑھے ہوئے ہندو مذہب کو اپنانا ہوگا، ورنہ یہ محض ایک سیاسی چال کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
جتیندر نارائن تیاگی کی شکایت پر وشو ہندو پریشد کے قومی جوائنٹ سکریٹری سریندر جین کہتے ہیں، ’’وسیم رضوی کو میڈیا پر آنا اور بے قابو ہو کر بات کرنا پسند تھا۔ ہم وشو ہندو پریشد سے تعلق رکھتے ہیں لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کبھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں کی۔ میں نے یقینی طور پر اویسی کو خبردار کیا تھا کہ اگر آپ نے کوشلیا اور رام کے بارے میں بولنا بند نہیں کیا تو میں پیغمبر اسلام پر بولنا شروع کر دوں گا۔ لیکن کبھی نہیں کہا۔ وسیم رضوی کو بھی ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس نے بے قابو ہو کر بولنا شروع کر دیا اور اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا۔
سریندر جین کا کہنا ہے کہ اگر وسیم رضوی کو کوئی مسئلہ تھا تو انہیں ہم سے بات کرنی چاہیے تھی اور میڈیا میں کچھ بولنا شروع نہیں کرنا چاہیے۔ سریندر جین کہتے ہیں، ’’ہم یٹی نرسمہانند جیسے انتہائی ہندو کی حمایت نہیں کر سکتے۔
کولکتہ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہمادری چٹرجی یہ نہیں مانتے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد بیٹی روٹی کا رشتہ بنانے میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے، ’’کیا کوئی اشرف کسی پسماندہ مسلمان کے گھر شادی کرے گا؟ وہاں کے دلتوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر کوئی مذہب تبدیل کرتا ہے تو اس کی سماجی شناخت اس کے ساتھ آتی ہے۔
امبیڈکر بھی بے بس تھے۔
سریندر جین مذہب کی تبدیلی کے بعد باپ دادا کی ذات دینے کی بات کر رہے ہیں، کیا یہ اتنا آسان ہے؟ پروفیسر ہمادری چٹرجی کہتے ہیں، ’’اگر وہ گھر واپسی پر یہ ذات دیتے ہیں تو معاملہ مزید دلچسپ ہو جائے گا۔ پھر ہندو مذہب کے متون میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ امبیڈکر نے ہندومت سے بغاوت کیوں کی؟ ظاہر ہے ذات کے شیطانی دائرے سے بچنے کے لیے۔