قربانی ( افسانہ )
پاس میں لگے پلنگ سے آتی کراہتی ہوئی آواز سے عذرا کی آنکھ کھل گئی،نیم خوابی کے عالم میں ایک ہاتھ کو لمبا کرکے اس نے ٹیبل لیمپ جلایا اور ایک اچٹتی ہوئی نگاہ میز پر رکھی ٹائم پیس ( چھوٹی گھڑی)پر ڈالی، دیکھا کہ رات کے ڈیڑھ بج رہے ہیں،ادھر وہ کراہتی ہوئی آواز بتدریج بڑھتے بڑھتے لرزہ کی سی صورت اختیار کرچکی تھی، عذرا کہ جس کی آنکھیں ابھی نیم باز کیفیت میں تھیں یک بیک بیدار ہوگئی،وہ فرش پر پٹخنی کھائے ہوئے گیند کی طرح اچھل کر بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک ہی جست میں پاس کے پلنگ کے سرہانے جا پہونچی۔
آواز مسلسل لرز رہی تھی،آواز میں بلا کا کڑھن اور غضب کا درد مضمر تھا، آواز ایسی پُردرد کہ پتھر بھی پگھل جائے،یہ آواز پندرہ سالہ عذرا کے بیٹے عاطف کی تھی،عذرا کے ہاتھ حرکت میں آئے اور یک بیک عاطف کی پیشانی پر جا پڑے،یہ جان کر کہ بخار سے عاطف کا پورا جسم انگاروں کی طرح تَپ رہا ہے اور سینہ دھونکنی کی طرح دھونک رہا ہے، عذرا سہم کر رہ گئی،دل ماہئ بےآب ہونے لگا،ممتا بلک اٹھی،ماں کا پیار بند پنجرے کے پنچھی کے مانند بے قرار ہوگیا۔
رات کا عالم،ہو کا سماں،سناٹے کا راج، عذرا سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کرے تو کیا کرے اور جائے تو کہاں جائے؟کبھی خیال آتا کہ کسی پڑوسی کے دروازے پر دستک دےکر مدد کی گُہار لگائے،مگر رات کے اتنے بجے پڑوسی کی نیند میں مخل ہونے کی وہ جرأت نہیں کر پارہی تھی،کیا پتہ ادھر سے گھرکیاں سننے کو ملیں یا جھڑکیاں ہی کھانی پڑیں،عذرا کبھی دروازے تک جاتی اور آسمان کے افق پر نگاہ دوڑا کر صبح کا اجالا نکھرنے کے وقت کا اندازہ کرنے لگتی،یہ دیکھ کر کہ ابھی رات کے پردے پرسپیدۂ سحر طلوع ہونے میں کافی وقت ہے اس کا دل بجھ کر رہ جاتا،وہ پھر الٹے پاؤں دوڑ کر واپس اپنے بیٹے کے سرہانے آکھڑی ہوتی، بیٹا ابھی تک کروٹیں بدل رہا تھا،ہرگزرتے لمحے کے ساتھ اس کی پریشانی میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا،بیٹے کی پریشانی کو دیکھ کر عذرا کی سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہو جاتیں،ضبط کا بندھن ٹوٹ اور صبر کی لڑی پھوٹ جاتی۔
بالآخر ایک قیامت خیز رات کے بعد افقِ مشرق پر صبح کا اجالا نکھرا،عذرا بھاگتے ہوئے سڑک پر جا پہونچی اور ایک رکشہ پکڑ لائی،اس نے کھا پی کر جو مختصر سی پونجی جمع کی ہوئی تھی اس کو ایک پوٹلی میں لپیٹا،بیٹے کو اٹھا کر رکشے پر اس طرح سوار کیا کہ بیٹے کا سر اس کی آغوش میں چھپا ہوا تھا،اور اس کے ہاتھ بیٹے کی پیشانی کو سہلا رہے تھے،رکشہ چل پڑا اور کچھ ہی دیر میں شہر کے ایک ہسپتال میں جا داخل ہوا۔
عاطف کے سینے کا درد اتنا گہرا تھا کہ اسے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرانا پڑا چند تیمار دار آئے اور اسے اٹھا کر ایمر جنسی وارڈ میں لے گئے،عذرا کو یوں لگا جیسے کوئی اس کے سینے سے دل کاٹ کر لے گیا ہو، عذرا کافی دیر بےکسی اور کس مپرسی کے عالم میں ہسپتال کی راہداریوں میں ٹہلتی رہی،اس کی ہر نکلتی سانس اپنے بیٹے کی صحت مندی کے لئے ڈھیروں دعائیں الاپ رہی تھی،بیقراری ہر پل بڑھتی ہی جا رہی تھی،بار بار اس کی نگاہیں ایمرجنسی وارڈ کے دروازے سے جا ٹکراتیں اور ناکام اپنی جگہ سمٹ آتیں،جب ٹہلتے ٹہلتے وہ تھک گئی تو انتظار کی صبر آزما گھڑیوں کو کاٹنے کے لئے وہیں بنی ایک انتظار بنچ میں سرجھکائے بیٹھ گئی۔
اس کی یادوں کا سفینہ ماضی کی لہروں پر بہتا چلا جا رہا تھا،منزلیں ایک دوسرے کے تعاقب میں ہواؤں کے تیز جھونکوں کی طرح گزرتی چلی جارہی تھیں،سفینہ تھا کہ کہیں رکتا ہی نہیں تھا، آخر سفینہ ماضی کے دور افق پر اس جگہ جا ٹھرا جب عذرا سرخ لباس میں ملبوس اپنے دل میں امنگوں کے چراغ جلائے عابر کے گھر دلہن بن کر آئی تھی۔
اس دن عذرا سمٹی سہمی بیٹھی تھی، اس کے چہرے پر حیا کی سرخی اور ہونٹوں پر حجاب کی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی، دل مسرت و شادمانی کی لہروں پر ہلکورے مار رہا تھا، وہ چشمِ تصور سے اپنے مستقبل کو دیکھ رہی تھی اور من ہی من نہایت خوش ہو رہی تھی کہ اسے عابر جیسا وجیہ، دلکش اور با وفا شوہر ملا تھا، عابر باہر اپنے دوستوں کی جھرمٹ میں بیٹھا مبارکبادیاں وصول رہا تھا،وہ بیٹھا تو وہاں تھا مگر اس کا دل حجلۂ عروسی میں اٹکا تھا،وہ اس انتظار میں تھا کہ دوستوں کی یہ جھرمٹ کب چھٹے اور کب وہ حجلۂ عروسی میں بیٹھی عذرا کے پاس جا پہنچے۔
ادھر عذرا اپنے شوہرِ نامدار کے استقبال میں دیدہ و دل نچھاور کئے بیٹھی تھی کہ اچانک بیٹھے بیٹھے اس کی پلکیں جھپک گئیں، کیا دیکھتی ہے کہ وہ ایک ایسے خوبصورت گلشن میں ٹہل رہی ہے جس کے ہر افق پر قوس قزح کی رنگینیاں تیر رہی ہیں،اس کی کیاریوں میں پھول مہک رہے ہیں،کلیاں مسکا اور ڈالیاں ڈول رہی ہیں، چلتے چلتے اس کی نگاہ شاخ پر بیٹھی ایک نہایت خوبصورت اور دلآویز ننھی سی چڑیا پر پڑگئی،اسے دیکھ کر عذرا کچھ دیر اس کی خوبصورتی میں کھو سی گئی،اچانک ایک باز ڈائیو لگاتا ہوا چڑیا پر جھپٹا اور اپنے پنجوں میں دبوچ کر اسے لے جانے کی کوشش کرنے لگا،یہ منظر دیکھ کر عذرا کو یوں لگا جیسے کوئی اس کے آباد گلشن کو اجاڑنے کی کوشش کر رہا ہو،وہ اس سوچ سے اس قدر پریشان ہوئی کہ وہ خواب ہی میں چیخنا چاہتی تھی مگر عین وقت پر دروازے کی دستک نے اسے خواب سے بیدار کردیا،تاہم یہ خواب اس کے رگ و ریشے میں ایک خار بن کر رہ گیا۔
اگلی صبح سے اس کی ازدواجی زندگی کا سفر شروع ہوگیا،دن ہفتے میں،ہفتے مہینے میں اور مہینے سال میں تبدیل ہوتے چلے گئے سالوں کا یہ باہمی تعاقب اتنا زود رَو تھا کہ بیس سال کیسے گزر گئے پتہ ہی نہ چلا، ان بیس سالوں میں زمانے نے کتنے انقلابات دیکھے،گردشِ دوراں نے کتنی منازل طے کر ڈالے مگر بیس سالوں کے بعد بھی عذرا کی گود ویسی ہی سونی رہی جیسی ازدواجی زندگی کی پہلی رات تھی۔
اس بیچ عابر کو چھوڑ کر محلے کی کوئی ایسی زبان نہ تھی جس نے عذرا پر طعن و تشنیع کے تیر نہ برسائی ہو،کوئی عذرا کو تھوہر کے درخت سے تشبیہ دیتا،کوئی سوکھی نہر تو کوئی اسے بانجھ کہہ کر پکارتا،ہر بار عذرا کی آنکھیں بھیگ جاتیں، ایک تلخ گھونٹ ہوتا جو نہ چاہتے ہوئے بھی عذرا کے گلے سے اتر جاتا، وہ روہانسی ہوکر عابر کے سینے سے آکر لگ جاتی، بلکتی اور اپنی قسمت پر آنسو بہاتی،ہر بار عابر اس کی ڈھارس بندھاتا اور ”خدا سے نا امیدی کفر ہے“ والا سبق اس کے سامنے دہرانے لگتا۔
آج عذرا کو ہسپتال کی بنچ پر بیٹھ کر یاد آرہا تھا کہ کس طرح وہ اپنے شوہر کی تسلیوں سے مطمئن ہوجایا کرتی تھی، یہ اس کے شوہر عابر کی ہی تسلیوں کا کمال تھا کہ عذرا دنیا کی ہر چوکھٹ سے بیزار ہوگئی تھی، خانقاہوں اور مزاروں کے ملنگوں اور مجاوروں کے ٹوٹکوں سے اس کا دل اچاٹ ہوگیا تھا، مگر وہ اس خدا سے کبھی بیزار نہ ہوسکی تھی جو لق و دق ریگستان میں بھی سرسبز و شاداب نخلستان اگانے کی قدرت رکھتا ہے، اسے اب بھی خدا سے آرزؤں کے ساحل پر تمناؤں کے کنول کھلنے کی امید تھی،آخر خدائی اعلان کہ ” جو بندہ مجھ سے اپنی امیدیں وابستہ رکھتا ہے میں اسے کبھی مایوس نہیں کرتا،بلکہ اس کے مقدر کا اندھیرا کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو اسے چھانٹ کر اس کی جگہ اجالا ضرور پھیلاتا ہوں “ حرکت میں آئی اور بیس سالوں کے ایک طویل اور صبر آزما عرصے کے بعد پہلی بار عذرا کے پاؤں بھاری ہوئے،اور عاطف کی شکل میں ایک نئے مہمان کی اس کے آنگن میں آمد ہوئی۔
نئے مہمان کی آمد سے عذرا اور عابر کے گھر میں خوشیوں کی بانسری بج اٹھی،ان کے من مندر مسرت و شادمانی کے گیت گانے لگے،عذرا اور عابر کے پاؤں زمین لگتے ہی نہیں تھے،ان کے گھر کی رونق قابلِ دید تھی، وہی گھر جو کل تک ویران لگتا تھا آج ایک معصوم کی مسکراہٹ سے جھلملا رہا تھا۔
آج عذرا کو یاد آرہا تھا کہ کس وارفتگی سے شوہر اور بیوی اس بچے کے وجود سے اپنے کو ہر آن چمٹائے رکھتے تھے،اس کی معصوم سی شرارت اور دلربا سی مسکراہٹ پر اپنا سب کچھ وار دیتے تھے،اس کے اشاروں پر ناچنا اور اس کی اداؤں پر جھومنا ان دونوں کی زندگی کا معمول بن گیا تھا، بیس سالوں سے جو تلخیاں اور کرب انہوں نے جھیلے تھے وہ اس کی آمد سے ہی کافور ہوگئے تھے،غرض یہ کہ عاطف کی آمد کے بعد عذرا اور عابر کی ایک نئی اور خوش گوار زندگی کی شروعات ہوئی تھی۔
عذرا اور عابر کے دن خوشیوں کے سایے تلے گزرتے چلے جا رہے تھے کہ عاطف اس عمر کو پہونچ گیا جب بچے گلیوں میں افتاں و خیزاں چلنے کے قابل ہوجاتے ہیں،ایک دن عذرا اور عابر صحن میں کھیل رہے عاطف کو بڑی دلچسپی سے نہار رہے تھے کہ اچانک عابر کو سینے کے بائیں طرف قلب کے مقام میں تیز درد کا دورہ پڑا،قبل اس کے کہ عذرا اپنے شوہر کے لئے کچھ کرپاتی ایک بار پھر عذرا کا روشن گھر بلکہ اس کی روشن دنیا ویران ہوگئی، عابر عذرا کو بیوہ اور عاطف کو یتیم بنا کر دنیا سے جاچکا تھا۔
زخموں پر وقت کا مرہم کافی زود اثر ہوتا ہے،کچھ دنوں تک شوہر کے غم میں عذرا کی آنکھیں برستی رہیں، پھر گزرتے وقت کے ساتھ اس کے زخم بھرنے لگے،اور اس خیال نے کہ ” اگر شوہر کا غم لمبے عرصے تک دماغ پر سوار کرکے رکھا تو بچے پر اس کا کافی برا اثر پڑے گا“ اس کے زخموں کے بھرنے میں مزید تقویت پہنچائی،وہ شوہر کی یادوں کے چراغ کو دل میں جلا کر اس کی رہنما روشنی میں اپنے معصوم کی پرورش کرنے لگی،کمانے کے ذرائع اس کے شوہر کی وفات کے ساتھ ہی مسدود ہوگئے تھے،وہ اپنے معصوم کو اٹھائے محلہ محلہ پھرتی اور جہاں کوئی کام مل جاتا وہیں کچھ کرکے اپنا اور اپنے معصوم کا پالن پوسن کرتی،اور اس میں سے جو کچھ بچ جاتا وہ ایک صندوقچی میں لاکر جمع کردیتی۔
آج وہی معصوم جو اب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا،جوانی کے خد و خال اور شبابیت کے نقش و نگار اس کے وجود پر بال و پر پھیلانے لگے تھے کہ اچانک سینہ کے درد اور تیز بخار سے ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں کراہ رہا تھا،وہ خواب جسے عذرا نے شبِ عروسی میں دیکھا تھا اور جو عذرا کی یادوں کے پنے سے کب کا ہی مٹ چکا تھا، آج بیٹے کی کرب انگیز حالت دیکھ کر اسے وہ یاد آرہا تھا، اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اُچکا اس کی گود سے اس کے بیٹے کو اچک لینے کو بے تاب ہو، اس خیال سے ہی وہ تڑپ اٹھی اور نہیں نہیں کہتی ہوئی ایمرجنسی وارڈ کی طرف دوڑنے لگی،وہ ابھی دروازے پر کھڑی ہی ہوئی تھی کہ ایک تیماردار اس حال میں دروازہ کھول کر باہر آیا کہ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا اور آنکھوں پر پریشانی کی لکیریں رقص کر رہی تھیں، عذرا تیماردار کو دیکھتے ہی اس پر لپک پڑی اور بیٹے کے احوال پوچھنے لگی، تیماردار کی آواز رقت میں دب گئی وہ اس کے علاوہ کچھ کہہ نہ سکا کہ ” ڈاکٹر صاحب آپ کو اندر بلا رہے ہیں“۔
جب عذرا تیمار دار کے پیچھے اندر داخل ہوئی تو دیکھا کہ اس کا بیٹا عاطف بیہوشی کی حالت میں بیڈ پر لیٹا ہے، درد و کرب کی شکنیں اس کے چہرے پر نمودار ہیں، عذرا بیٹے کی پیشانی پر بوسوں کی بوچھار کرتے ہوئے ڈاکٹر سے مخاطب ہوئی” ڈاکٹر صاحب میرے بیٹے کو بچا لیجیے، بھلوں اس کے بدلے میری جان لے لیجیے، یہ میرے شوہر کی یادگار ہے، اسے میں کھونا نہیں چاہتی“ ڈاکٹر کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے، اس کی ہکلاتی ہوئی زبان گویا ہوئی ” محترمہ میں نے آپ کے بیٹے کو بچانے کی ہر امکان کوشش کی ہے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ کے بیٹے کی دونوں کڈنیاں فیل ہوچکی ہیں، اس کے بچنے کی اب یہی ایک امید کہ کہیں سے دوکڈنیوں کا انتظام کیا جائے“۔
اتنا سننا تھا کہ عذرا کا سر نیچے جھک گیا،وہ اس سوچ میں پڑگئی کہ ” یہاں تو پیٹ کے ہی لالے پڑے ہیں،صندوقچی کے پیسے ابتدائی علاج ہی میں ختم ہوچکے ہیں، کڈنیوں کا انتظام کیسے ہوپائے گا“اس کی نگاہوں کے سامنے بیٹے کی کفن پوش لاش گھومنے لگی،ممتا ایک بار پھر تڑپ اٹھی،اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے، اچانک دور افق پر اسے امید کی ایک آخری کرن پھوٹتی نظر آئی، وہ من ہی من ایک بہت بڑی قربانی دینے کے لئے تیار ہوگئی،وہ اٹھی اور ایک آخری نگاہ اپنے بیٹے پر ڈالتی ہوئی فاتحانہ انداز میں چلتی ہوئی ڈاکٹر کے پاس جا پہونچی، ڈاکٹر لاکھ منع کرتا رہا مگر وہ نہیں مانی۔
آخر ڈاکٹر نے مجبور ہوکر عذرا کا سینہ پھاڑا، اس کی دونوں کڈنیوں کو باہر نکالا اور ان کو بڑے آرام سے اس کے بیٹے کی کڈنیوں کی جگہ رکھ دیا،کڈنیاں لگنے کے بعد جس وقت عذرا کے بیٹے عاطف کی آنکھیں کھل رہی تھیں اس وقت تک عذرا کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے پتھرا چکی تھیں،خدا نے اپنی بارگاہ میں اس کی ” قربانی “ قبول کرلی تھی۔
ظفر امام، کھجور باڑی
دارالعلوم بہادرگنج
20/ جولائی 2021ء