فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لئے جنوبی ایشیائی ممالک کا ایک فورم تشکیل دیا جائے
رپورٹ: ڈاکٹر سیما جاوید
ترجمہ: محمد علی نعیم
فضائی آلودگی خاص طور پر جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے نہایت سنگین مسئلہ بن چکی ہے،ان ممالک یعنی بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کو اس کی بڑی تکلیف برداشت کرنی پڑ رہی ہے، فضائی آلودگی پورے جنوبی ایشیائی خطے کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس خطے میں واقع کوئی بھی ملک تنہا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہندوستان اور پاکستان کے اراکین پارلیمنٹ نے ان ممالک کا ایک ایسا فورم بنانے کا مطالبہ کیا ہے جہاں فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے مہارت اور تجربات کو شئیر کیا جاسکے۔
ماحولیاتی تھنک ٹینک کلائمیٹ ٹرینڈ نے ہفتہ کو فضائی آلودگی، صحت عامہ اور جیواشم ایندھن کے درمیان باہمی ربط کو دریافت کرنے اور سب کے لئے صحت مند زمین کے وژن کی خاکہ کشی کے لئے ایک ‘ویبِنار’ کا انعقاد کیا۔ویبینار میں آسام کی کالیا بور سیٹ کے ممبر پارلیمنٹ گورو گوگوئی نے کہا کہ فضائی آلودگی کے معاملے میں پوری دنیا کی نظریں جنوبی ایشیا پر لگی ہیں، کیونکہ یہ وسیع علاقہ آلودگی کے متاثرین میں سرفہرست ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے معیار اور حل طے کریں۔ہمیں اس سوال کے جواب کے لئے ایک پلیٹ فارم تشکیل دینا ہوگا کہ ہم نے سٹاک ہوم اور گلاسگو میں جو عزائم کئے تھے انکو دہلی، لاہور اور ڈھاکہ میں کیسے نافذ کریں گے۔
یہ پلیٹ فارم مختلف افکار و تجربات کو شئیر کرنے کے لئے ایک بہترین ذریعہ ہوگا، انہوں نے کہا کہ جب ہم فضائی آلودگی کی بات ہنگامی طور پر کرتے ہیں تو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہم اس مسئلے پر کتنی توجہ دیتے ہیں، ارکان پارلیمنٹ کو ان معاملات میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے . ایسے میں یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس تعلق سے اپنے اراکین پارلیمان کی معلومات میں اضافہ کریں۔ انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ فضائی آلودگی ان کی اپنی ریاست کو کس طرح متاثر کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے علاقے میں سروے کر کے لوگوں کو آگاہ کر سکیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگا ض کہ ہمارے مقامی اداروں کی فضائی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے کتنی تیاریاں ہیں
پاکستان کے رکن پارلیمنٹ ریاض فتیانہ نے فضائی آلودگی کو جنوبی ایشیا کے لئے خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہوئے براعظم کی سطح پر مل کر کام کرنے کو ضروری بتایا، انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی پارلیمنٹیرینز کا ایک فورم بنایا جائے جہاں ان موضوعات پر بات ہو سکے ، پاکستان میں فضائی آلودگی کا مسئلہ انتہائی خطرناک شکل اختیار کر رہا ہے۔
جہاں ایک طرف دنیا کہہ رہی ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے نئے ادارے نہ قائم کیے جائیں لیکن جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک میں یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ان کی وجہ سے ہونے والی فضائی آلودگی جان لیوا ثابت ہو رہی ہے ،انہوں نے کہا کہ ہمیں متبادل توانائی اور ماحولیاتی صف بندی دونوں پر کام کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے تجربات شئیرنگ بھی بہت ضروری ہے نیز ہمیں مزید موثر قوانین بنانے ہوں گے۔
کلایمیٹ ٹرینڈ کی ڈائریکٹر آرتی کھوسلہ نے کہا کہ ہوا کے معیار کا مسئلہ اب صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے جنوبی ایشیا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ دنیا اگلے ماہ 1972 میں اسٹاک ہوم میں منعقد ہونے والی انسانی ماحولیات پر اقوام متحدہ کی پہلی کانفرنس کی 50 ویں سالگرہ منانے جا رہی ہے ،
موجودہ صورتحال سے حیاتیاتی تنوع اور دیگر تمام ماحولیاتی پہلوؤں کو کس طرح متاثر کیا جا رہا ہے اس کا جائزہ لینے کے لیے یہ ایک اہم سال ہے۔ فضائی آلودگی صحت عامہ کی ایک بنیادی ایمرجنسی ہے۔ جنوبی ایشیا اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سماجی اور اقتصادی مسئلہ بھی بن چکا ہے۔
بنگلہ دیش کے رکن پارلیمنٹ صابر چودھری نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت بہت اہم ہے۔ ہمیں پوری دنیا کے اراکین پارلیمنٹ کی طاقت کا خوب استعمال کرنا چاہیے۔ فضائی آلودگی ماحولیاتی ایمرجنسی نہیں بلکہ پیلینٹری ایمرجنسی ہے،اس کی وجہ سے پانی کی کمی اور غذائی عدم تحفظ سمیت کئی آفات جنم لے رہی ہیں۔ فضائی آلودگی جنوبی ایشیا کو درپیش ایک مشترکہ چیلنج ہے۔ یہ کسی ایک ملک کی صحت کا سوال نہیں ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا سوال ہے۔ ایک رکن پارلیمنٹ کے طور پر میں صحت عامہ پر توجہ دینا چاہتا ہوں، ہمیں نئی ترقی کا تصور کرنا ہوگا۔
نیپال کی رکن پارلیمنٹ پشپا کماری کرنا نے کھٹمنڈو میں بگڑتی ہوئی ماحولیاتی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ فضائی آلودگی دنیا کے تمام جانداروں کی صحت کو متاثر کر رہی ہے۔
کھٹمنڈو نیپال کا دارالحکومت ہے اور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ ہر سال سردیوں کے موسم میں کھٹمنڈو میں ہوا کا معیار بہت خراب ہو جاتا ہے۔ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے یہ مسئلہ دن بہ دن سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔کھٹمنڈو میں پی ایم 2.5 کی سطح ڈبلیو ایچ او کے محفوظ معیارات سے 5 گنا زیادہ ہے۔ تاہم نیپال کی حکومت نے برقی الیکٹرک موبلٹی کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا ہے، اسی طرح کے منصوبے جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی نافذ کیے جائیں۔
فضائی آلودگی کی وجہ سے جنوبی ایشیائی خطوں میں ہیلتھ ایمرجنسی کی صورتحال ہے۔ میدانتا ہوسپٹل کے ٹرسٹی اروند کمار نے کہا کہ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کو یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کلایمیٹ چینج انکے لئے کتنا مؤثر ہے۔ ان چار ممالک میں فضائی آلودگی کی سطح خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے، فضائی آلودگی صرف ماحولیاتی اور کیمیائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ خالصتاً ہیلتھ پرابلم ہے۔ پھیپھڑوں کے ماہر کے طور پر وہ اپنے 30 سالہ تجربے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ پھیپھڑوں کے کینسر کے تقریباً 50 فیصد مریض ان لوگوں میں سے آتے ہیں جو سگریٹ نہیں پیتے۔ اس کے علاوہ 10 فیصد مریض کی عمریں 20 سے 30 سال کے درمیان ہیں،ہندوستان کے 30 فیصد بچے یعنی ہر تیسرا بچہ دمہ کا مریض ہے۔ فضائی آلودگی نہ صرف ہمارے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے دل کے امراض، تناؤ، ڈپریشن اور نامردی سمیت دیگر کئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
پیدا ہونے والے بچے کو بھی مسائل کا سامنا ہے۔ یعنی فضائی آلودگی ہمیں پیدائش سے موت تک متاثر کر رہی ہے ، ہمارے پاس فضائی آلودگی کے خاتمے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا اور آج ہی اس سمت میں کام کرنے کا بہترین وقت ہے۔
جنوبی ایشیا کے پہاڑی ملک نیپال میں فضائی آلودگی کی تشویشناک صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے نیپال ریسپریٹری سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر رمیش چوکھانی نے کہا کہ نیپال جیواشم ایندھن کا بڑا صارف ہے اور وہ زیادہ تر فوسل فیول ہندوستان سے درآمد کرتا ہے ،نیپال میں توانائی کے دیگر متبادل ذرائع کی کمی بائیو ماس اور لکڑی کا استعمال مجبوری بنا ہوا ہے۔ نیپال کی زیادہ تر آبادی کا انحصار روایتی بایوماس پر ہے۔ نیپال میں ہر سال تقریباً 7500 افراد بائیو ماس کو جلانے سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہنگامی حالات سے گزرنے کے باوجود نیپال میں گزشتہ پانچ سالوں میں پٹرول کی کھپت تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ ڈیزل کے استعمال میں بھی تقریباً 96 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں بہار اور نیپال میں موتیہاری کے درمیان 69 کلومیٹر طویل پیٹرولیم پائپ لائن تیار کی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نیپال کی حکومت قابل تجدید توانائی میں تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔حالانکہ نیپال میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے بڑے پیمانے پر توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس میں ہوا، پن بجلی اور شمسی توانائی پیدا کرنے کی بڑی صلاحیت ہے لیکن ابھی تک ان پر زیادہ کام نہیں ہوا ہے۔ اگر ہائیڈرو پاور کے تمام امکانات کو بہترین طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو یہ نیپال کی معیشت کو فروغ دینے میں بہت آگے جا سکتا ہے۔
نیپال میں قدرتی دولت کی بہتات ہے لیکن اس کا صحیح استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش لنگ فاؤنڈیشن کے قاضی بنور نے کہا کہ ماحولیاتی اور صحت سے متعلق بہت سے نقصانات فوسل فیول یعنی کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس سے ہوتے ہیں۔یہ فوسل فیول سپلائی چین کے ہر مرحلے پر اضافی بوجھ پیدا کرتا ہے۔ جب جیواشم ایندھن کو جلایا جاتا ہے، تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گرین ہاؤس گیس پیدا کرتے ہیں، جو موسمیاتی تبدیلیوں میں معاون ہے۔ جیواشم ایندھن سے پیدا ہونے والی گیسیں سمندروں میں تیزابیت، ضرورت سے زیادہ بارش اور سطح سمندر میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔فوسل فیول جلانے سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی دمہ، کینسر، دل کی بیماری اور قبل از وقت موت کا باعث بن سکتی ہے۔ عالمی سطح پر ہر پانچ میں سے ایک موت فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک ہی وقت میں، آلودگی دنیا میں انسانی صحت کے لیے چوتھا سب سے بڑا خطرہ ہے۔
کچھ اعدادوشمار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فضائی آلودگی ایک نادیدہ قاتل ہے۔ جنوبی ایشیا میں پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے 29 فیصد اموات ہوتی ہیں، دماغی فالج سے ہونے والی اموات میں 24 فیصد، دل کے دورے سے ہونے والی اموات میں 25 فیصد اور پھیپھڑوں کی بیماری سے ہونے والی 43 فیصد اموات ہوتی ہیں،جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں فضائی آلودگی کی وجہ سے تقریباً 20 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ فوسل فیول ٹریٹی کے ہرجیت سنگھ نے موجودہ اقتصادی پیٹرن کو بڑی حد تک فضائی آلودگی کا سبب قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم موجودہ معاشی ماڈل سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمیں ایک ترقیاتی ماڈل کی ضرورت ہے جو ہمارے ماحول کی حفاظت کرے۔
کوئی بھی ملک موجودہ معاشی طرز سے ہٹنا نہیں چاہتا لیکن اس کے بغیر دنیا کو محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے لیے ہمیں بین الاقوامی سطح پر بھی تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔