فاسل توانائی یا دولت کی ہوس…تحریر: مظہر اقبال مظہر(لندن)
فاسل ایندھن کی صنعت سے وابستہ بڑی کمپنیاں توانائی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر کے دولت کے انبار جمع کر رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں نجی کاروبار کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ مگر جب نجی کاروبار کرنے والے افراد اور اداروں کو لامتناہی منافع سمیٹنے کے لیے کھلی چھٹی دے دی جائے تو یہی ریڑھ کی ہڈی ناسور لگنے لگتی ہے۔ فاسل ایندھن کی صنعت بھی ہماری آب و ہوا کی تباہی کی بہت حد تک ذمہ دار ہے۔
یہ ایک ایسی صنعت ہے جس میں فاسل توانائی کے کاروبار سے منسلک کمپنیاں کوئلے، تیل اور گیس کی تلاش، ڈرلنگ، ترسیل اور فروخت کے ذریعہ پیسے کماتی ہیں۔ کوئلہ، تیل اور گیس کو نکالنا اور جلانا بنیادی طور پر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کی بڑی مقدار کو شامل کرنے کا ذمہ دار ہے۔مگر دنیا میں توانائی پیدا کرنے والی بڑی کمپنیوں کے مالکان کے سر پر بے انتہا منافع کمانے اور دولت جمع کرنے کی دُھن سوار ہے۔
تیل اور گیس کی پیداوار سے منسلک شیل بھی ایک بہت بڑی کمپنی ہے جو زیادہ تر توانائی اور پیٹرو کیمیکل کے کاروبار سے منسلک ہے۔ سترسے زیادہ ممالک میں کاروبار کرنے والی اس کمپنی میں تقریباً اسّی ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اس کی لازوال ترقی کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ 1833 میں مارکس سیموئیل نامی ایک کاروباری شخص نے لندن میں قائم نوادرات کے کاروبار کو بڑھانے کا فیصلہ کیا اور سمندری شیل کی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرق بعید کے ممالک سے شیل امپورٹ کر کے فروخت کرنے شروع کردئیے۔ سیموئیل کے انتقال کے بعد یہ کاروبار ان کے بیٹوں کو منتقل ہوا تو انہوں نے مٹی کا تیل بھی برآمد کرنا شروع کردیا۔ مگر ان کا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ تیل کو بیرل میں برآمد کیا جاتا تھا جو لیک ہو سکتا تھا اور ترسیل و ذخیرہ کرنے کے لیے جگہ بھی کافی لیتا تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے انہوں نے بھاری مقدار میں تیل لے جانے کے لیے بھاپ سے چلنے والے جہازوں (سٹیمرز) کا ایک بیڑا جمع کرلیا۔ اسی بیڑے میں موریکس نامی وہ جہاز بھی شامل تھا جو سوئز کینال سے گزرنے والا پہلا آئل ٹینکر تھا۔
گزشتہ صدی کے اوائل میں شیل ٹرانسپورٹیشن کمپنی کے پہلے آئل ٹینکر نے تیل کی نقل و حمل میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ اتنے بڑے پیمانے پر نقل و حمل نے تیل کی قیمت میں کافی حد تک کمی کی جس کی وجہ سے اس صنعت کے کاروباری حجم میں اضافہ ہونے لگا۔یورپ کی صنعتوں کا پہیہ چلانے کے لیے توانائی کا استعمال بڑھنے لگا۔ یہی وہ دور تھا جب تیل کی پیداوار اور نقل و حمل سے منسلک کمپنیوں میں مسابقت کی دوڑ شروع ہوئی۔ شیل نے اپنی واحد مد مقابل کمپنی سٹینڈرڈ آئل سے بہتر منافع کمانے کی دوڑ میں آگے نکلنے کے لیے اپنی پہلی ریفائنری ڈچ بورنیو کے علاقے میں شروع کی۔ بعد میں جب امریکا میں تیل دریافت ہوا تو شیل کمپنی کی ایک چھوٹی حریف کمپنی رائل ڈچ نے اپنے آئل ٹینکرز بنانا شروع کر دیے۔
1907 میں شیل ٹرانسپورٹ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی کو رائل ڈچ کے ساتھ ضم کر کے رائل ڈچ شیل گروپ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعد ازاں اسے مختصراً شیل کا نام دے کر کمپنی نے پورے یورپ اور ایشیا کے کئی حصوں میں کام شروع کر دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ روس، رومانیہ، وینزویلا، میکسیکو اور امریکہ میں بھی مٹی کے تیل کی تلاش اور پیداوار کا کام بڑھتا رہا۔ 1960 سے 1980 تک شیل خلیجی ممالک میں مٹی کے تیل کی دریافت اور صنعت کی وسعت کی وجہ ایک بے تاج بادشاہ کی حیثیت اختیار کرچکی تھی۔ اس کے بعد یہ مسلسل کامیابیوں، نئے امکانات، توانائی کے نت نئے منصوبوں اور رجحان ساز ترقی کی ایک لازوال داستان ہے۔
حال ہی میں شیل نے اپنی کامیابی کا سفر جاری رکھتے ہوئے کثیر منافع کا اعلان کیا ہے جو اس کمپنی کا ایک صدی سے زائد عرصہ میں کسی بھی سال کا سب سے زیادہ منافع ہے۔ شیل اگرچہ ابھی دیگر کئی صنعتوں میں منصوبے چلا رہی ہے مگر اس نے تیل اور گیس میں سب سے بڑا سالانہ منافع ظاہر کیا ہے۔شیل کمپنی نے 2022 میں تقریباً 43 بلین ڈالر کمائے ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں دگنا منافع ہے۔عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے ماحولیاتی کارکنان اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ شیل اور دیگر بڑی توانائی کمپنیوں نے یہ ریکارڈ توڑ منافع یوکرین پر روس کے حملے کے بعد تیل اور گیس کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے بعد حاصل کیا ہے۔ توانائی کی بڑی کمپنیوں کے ہاں بہت زیادہ منافع کمانے کے اس حریصانہ رجحان کو مغربی ممالک کے میڈیا اور سیاسی کارکنوں کے علاوہ ماحولیات کی بہتری کے حوالے سے کام کرنے والے رضاکاروں کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جار ہا ہے۔ وہ ان کمپنیوں کی بہت زیادہ آمدنی کا موازنہ ان کے صارفین کے ہاں توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور صاف توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی عدم دستیابی سے کر رہے ہیں۔توانائی کے شعبے کی بڑی کمپنیوں کو قابل تجدید ذرائع اور صاف ٹیکنالوجی کے مقابلے میں فوسل فیول میں کہیں زیادہ سرمایہ کاری کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
کیونکہ ایک جانب یہ طاقتور کمپنیاں اپنے ریکارڈ توڑ منافع کا حساب کر رہی ہیں جبکہ دوسری جانب دنیا بھر میں لوگ ریکارڈ توڑ خشک سالی، گرمی کی لہروں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو گن رہے ہیں۔ اس صورت حال کے گھمبیر ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس ہونے والی موسمیاتی سربراہی کانفرنس کے بعد عالمی رہنماؤں نے موسمیاتی بحران سے ہونے والے نقصانات کی ادائیگی کے لیے ایک نیا فنڈ قائم کیا ہے۔ چونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کا براہ راست تعلق توانائی کے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ہے اس لیے ماحولیاتی کارکنان یہ سمجھتے ہیں کہ شیل جیسی ریکارڈ توڑ منافع کمانے والی کمپنیوں کو کرہ ارض پر پھیلی آلودگیوں کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جانا چاہیے۔توانائی کے کاروبار سے منسلک کمپنیاں اگر تاریخی طور پر اپنے کاروبار کو فاسل ایندھن سے بہت پہلے الگ کرلیتیں تو یہ ماحولیاتی بحران شاید پیدا نہ ہوتا۔ان کمپنیوں پر گرین واشنگ کے الزامات بھی تسلسل سے لگتے چلے آئے ہیں۔ مثلاً چند روز قبل امریکا کے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن میں دائر کی گئی شکایت میںیہ کہا گیا ہے کہ شیل کی کارکردگی بھی گرین واشنگ کے مترادف ہے۔ گرین واشنگ ایک اصطلاح ہے جو ان کمپنیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو کسی کاروبار یا پروڈکٹ کو حقیقت سے زیادہ ماحول دوست کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد تیل کی ترسیل متاثر ہونے سے تقریباً تمام ممالک کی عوام کوتوانائی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جبکہ اکثر ممالک کی حکومتیں فاسل ایندھن کی کاروباری کمپنیوں کو ان کے کثیر منافع کی شرح سے مناسب ٹیکس عائد کرنے سے کترارہی ہیں۔ حالانکہ عوامی سطح پر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ ان کمپنیوں کو بمپر منافع کمانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ عوا می حقوق کے تحفظ کے اداروں کے کارکنان کا خیال ہے کہ عالمی فوجی و سیاسی بحران جو کہ یوکرین پر روس کے حملے سے پیدا ہوا ہے، اس کو جواز بنا کر آسمان کی حدوں کو چھونے والا منافع کمانا انتہائی کمینگی اور انسانیت دشمنی ہے۔ ان کے خیال میںیہ ان کمپنیوں کے صارفین اور ان کے ہاں کام کرنے والے افراد کی فیملیوں کے ساتھ ایک بہت بڑی ناانصافی ہے۔ انہی کمپنیوں کے کئی ملازمین کے خاندانوں سمیت آبادی کی اکثریت اپنے بلوں کی ادائیگی اور اخراجات پورے کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے جبکہ کمپنیوں کے منافع سے مستفید ہونے والے ان کے شئیر ہولڈر اور انتظامی عہدوں پر براجمان مٹھی بھر افراد دولت کے انبار جمع کر رہے ہیں۔