عالمی مقابلہ آرائی میں میں مقامی کارروائی: اتر پردیش ایک بہترین مثال
رپورٹ:نشانت سکسینہ
ترجمہ:محمد علی نعیم
موسمیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی لڑائی میں مقامی کارروائی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، دنیا کا ایک ذیلی خطہ اتر پردیش اس سمت میں مسلسل کام کر رہا ہے
جہاں ایک طرف مصر کے شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کی COP27 کانفرنس منعقد ہو رہی ہے میز موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات اور بحالی کے بارے میں بات چل رہی ہے، وہیں دوسری طرف اتر پردیش کی مقامی انتظامیہ مسلسل عملی اقدامات کے ساتھ اس مسئلے سے نمٹنے میں مصروف ہے
درحقیقت موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ریاست کے مختلف علاقوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، بارش کے حالات میں تبدیلی، نمی میں اضافہ وغیرہ کی شکل میں محسوس کئے جارہے ہیں۔ موسم میں ہونے والی ان تبدیلیوں کے اثرات دیہی علاقوں میں فصلوں کی تباہی، پیداوار میں کمی یا مصنوعات کے معیار کو متاثر کرنا، زراعت کی لاگت میں اضافہ، پانی کی دستیابی اور معیار پر منفی اثرات، دیہاتوں میں پانی کی قلت میں اضافہ اور vector-borne بیماریوں وغیرہ کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں اور روز مرہ اضافہ پذیر ہے، ان سب کی بنیاد پر ترقیاتی کوششیں اور سرمایہ کاری کے کام متاثر ہوتے ہیں
اس کے پیش نظر، ایک منفرد پہل کے تحت اتر پردیش کے نو زرعی آب و ہوا والے علاقوں میں 58,189 گرام پنچایتیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اپنے گاؤں والوں کے ساتھ خود کو تیار کرنے کے لیے مستعد ہیں۔
کلائمیٹ چینج اور ریاست کے بڑھتے ہوئے چیلنجز
موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے نتائج کی شکل میں آفات کا سیدھا اثر زراعت اور اس سے منسلک سرگرمیوں جیسے مویشی پالنے، سبزیوں کی کھیتی ،باغبانی اور مچھلی پروری وغیرہ سے وابستہ لوگوں پر پڑتا ہے۔ چھوٹے، پسماندہ اور خواتین کسانوں کا ذریعہ معاش کافی حد تک متاثر ہوتا ہے۔ آبی وسائل میں کمی کی وجہ سے پینے کے صاف پانی کی دستیابی میں قلت آتی ہے اور آبپاشی کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔
1.گزشتہ 68 سالوں میں (1951-2018) بندیل کھنڈ اور وندھیا کے تقریباً نصف علاقے میں کم بارش ہوئی ہے۔ 2050 تک، اوسطاً سالانہ بارش کی مقدار میں مزید کمی ہو سکتی ہے۔
2.ویسے تو ریاست بھر میں گرمی اور گرمی کے دنوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن خاص طور پر بندیل کھنڈ میں ایک سال میں گرم دنوں کی تعداد 30 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔
3.بندیل کھنڈ، وندھیا وغیرہ جیسے خشک علاقوں میں غیر برساتی ایام بڑھ رہے ہیں۔
4.شدید بارش کے دن شمال مشرقی میدانی علاقوں میں زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں ترقیاتی کاموں میں پانی کے بہاؤ کے انتظام میں کمی نیز تالاب اور سبز علاقے وغیرہ میں کمی کی وجہ سے پانی جمع ہونے کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔
5.صدی کے درمیان یعنی 2050 تک شمال مشرقی میدانی علاقوں میں گرم دنوں کی تعداد میں 19 سے 23 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
اگرچہ پوری ریاست موسمیاتی تبدیلیوں اور اس سے منسلک آفات سے متاثر ہے، لیکن کچھ زرعی آب و ہوا والے علاقے جیسے شمال مشرقی گنگا کا میدان، بندیل کھنڈ اور وندھیا خطہ خاص طور پر حساس ہیں
کلائمٹ کے تعلق سے دیہی آبادی میں بیداری اور حساسیت
ریاست کے لوگ، دیہی علاقوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے خاص طور پر متفکر ہیں،ایسی صورتحال میں دیہی برادریوں کا اس حوالے سے حساس ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک گاؤں جو اپنے لوگوں کے ساتھ گاؤں کو درپیش چیلنجز کو سمجھ کر ایک محفوظ گاؤں کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دستیاب وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ان آفات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو وہیں سے کلائمیٹ اسمارٹ پنچایت کی بنیاد شروع ہوتی ہے
حکومت اتر پردیش کی کلائمیٹ اسمارٹ پنچایت اسکیم ایک مثالی اقدام ہے، جس کی بنیاد پر دیگر ریاستوں میں بھی اس طرح کی کارروائی پر زور دیا جا سکتا ہے۔
کلائمیٹ اسمارٹ پنچایت کا منصوبہ دو اہم نکات پر منحصر ہے۔ پہلا نکتہ موسمیاتی تبدیلی سے ہم آہنگی ہے اور دوسرا کلائمیٹ چینج کی شدت میں تخفیف ہے۔ موسم سے ہم آہنگی میں میں پنچایتیں قدرتی آفات، موسمی خطرات اور سیلاب، خشک سالی، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت وغیرہ جیسے حادثات سے نمٹنے کے لیے خود کو تیار کریں گی، اس کے لیے ضروری صلاحیت پیدا کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تخفیف کے ذریعے کاربن نیوٹرلیٹی اور نیٹ زیرو پر کام کیا جائے گا۔ اس کے تحت کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اس کوشش میں پنچایتوں کو زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ترغیب دی جائے گی، درختوں، باغبانی اور زرعی جنگلات کے لیے سرکاری مہم کے ساتھ ساتھ نجی لوگوں کو بھی شامل کیا جائے گا،کیمیاوی کھاد اور کیڑے مار ادویات کی بجائے گائے اور گوبر پر مبنی آرگینک قدرتی کھیتی کو فروغ دیا جائے گا، کسانوں کو موسم دوست بیج اور ٹیکنالوجی فراہم کی جائے گی۔گرام پنچایت میں پانی کا تحفظ، دو امرت سروور اور اس کے ارد گرد 75 درخت ہیں، جنہیں بھی محفوظ رکھنا ہوگا۔ گاؤں میں بجلی، سولر اسٹریٹ لائٹس، کسانوں کے لیے سولر پمپس کے بجائے موسم کی نگرانی سے متعلق معلومات کو فروغ دیا جائے گا۔ بنیادی توجہ درخت لگانے اور پانی کے تحفظ کے ساتھ ٹھوس فضلہ کے انتظام پر ہوگی۔
ریاستی حکام کے مطابق یہ پتہ چلا ہے کہ یوپی میں 70 فیصد کھیت ایسے ہیں جہاں درخت نہیں ہیں۔ ایسے میں حکومت کی کوشش ہے کہ کسانوں کو بھی درخت لگانے کی ترغیب دی جائے۔ اگر زرعی جنگلات بڑھیں گے تو کسان کی آمدنی بڑھے گی، آکسیجن میسر ہوگی، کاربن ڈائی آکسائیڈ کم ہوگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔