اہم خبریں

صرف_کشمیر_فائل_ہی_کیوں؟

چودھری عدنان علیگ.

کشمیری پنڈت کے کشمیر سے انخلاء پر مبنی فلم ’دی کشمیر فائلس‘ ان دنوں سرخیوں میں ہے،ہندوتوا ذہنیت کے لوگ اسے حقیقت پر مبنی قرار دے کر خوب نفرت پھیلانے کی کوششیں کررہے ہیں، جبکہ ناقدین اور تجزیہ نگاروں، اور تاریخ دانوں کے مطابق یہ فلم حقائق سے کوسوں دور ہے، اور یہ صاف طور پر ظاہر ہے کہ اس فلم کو بنانے کا مقصد اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے، کیونکہ ملک میں بیٹھے نفرت کے پجاری اور ملک مخالف عناصر ملک میں نفرت کی فضا قائم کرکے اپنی سیاسی روٹیاں سینکنا چاہتے ہیں، جو ملک پہلے سے ہی آپسی انتشار، بد امنی، قتل و غارت گری، مآب لنچنگ ، مذہبی استحصال کی دہلیز پر کھڑا ہو اس میں ہلکی سی چنگاری بھی بم کا کام کرتی ہے.
دی کشمیر فائل کچھ اور نھی بلکہ یہ وہ ہتھیار ہے جو ووٹ بینک فراہم کریگا، ھندو مسلم فسادات کو جنم دیگا، جہاں تک تعلق ہے کشمیر فائل کا تو یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ دی کشمیری فائل نامی فلم حقیقت سے کوسوں دور ہے، جس طرح اس فلم میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گیی ہے کہ کشمیر میں پنڈتوں کی نسل کشی کی گیی تھی وہی یہ بتانے سے گریز کیا گیا ہے کہ آخر دونوں فرقوں کے بیچ نفسیاتی خلیج اور آپسی ہنگامہ آرائی کو کس نے جنم دیا؟ فلم میں اس پہلو کو بالکل بھی نھی چھیڑا گیا کہ کشمیری پنڈتوں نے کبھی بھی اپنے ہم وطنوں کے مفادات کا خیال نھی رکھا، کیوں یہ لوگ اکثریت کے ہم قدم نھی رہے، کیوں بار بار ان لوگوں نے ہمیشہ ایسا راستہ اختیار کیا جو اکثریتی شاہراہ کے مخالف رہا؟
جبکہ کشمیری عوام نے انکو ہمیشہ اپنی پلکوں پر بٹھا کر رکھا، کبھی بھی اقلیت کو اقلیت نھی سمجھا، لیکن کشمیری پنڈتوں نے ہمیشہ دہلی کے ایوانوں میں نوکر شاہی کو ہی اپنا کعبہ و قبلہ تصور کیا، اور جب بھی کشمیری مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملا تو اس اقلیتی طبقہ نے الگ ہی راستہ چنا اور احساسِ کمتری کا شکار ہوکر نئ خلاؤں کو جنم دیا، کیا یہ ساری چیزیں وہ نھی تھیں جو ان فسادات کا سبب بنتی رہیں؟ کیوں اس فلم میں یہ سب دکھانے سے گریز کیا گیا ہے؟ جس طرح کشمیری پنڈتوں کے قتل میں حکومت کی گھنونی سیاسی شامل رہی ہے اس سے کہیں زیادہ انتہا پسند پنڈتوں کا کشمیری مسلمانوں کو غلام اور ماتحت بنانے کا بھرم رہا ہے جس بھرم میں یہ لوگ آج بھی مبتلا ہیں، اور اسی لیے ان لوگوں نے ہمیشہ اکثریت کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے مخالف راستہ اختیار کیا، خیر اس پورے قضیہ پر اگر بات کی جائے تو تحریر کافی طویل ہوسکتی ہے، ہمارا سوال یہ ھیکہ جس طرح کشمیری پنڈتوں کے درد کو اچھالا جارہا ہے اور حقیقت پر پردہ ڈال کر جس طرح وہ اسباب، وجوہات چھپائے جارہے ہیں جنکی وجہ سے یہ قضیہ وجود میں آیا کیا یہ نفرت کو جنم دینے کے لیے نھی کیا جارہا ہے؟ کیا یہ سیاسی مقاصد کو بروئے کار لانے کے نھی کیا جارہا ہے؟ ٹھیک ہے آپ خون ریزی کی بات کرتے ہیں، آپ قتلِ عام کی بات کرتے ہیں، تو اگر بات کی جاتی ہے خون میں ڈوبی ہوئی داستانوں کی، درد می لپٹی ہوئ بستیوں کی، موت کی نیند سورہے خاندانوں کی تو آپ صرف کشمیر فائل کی بات کیوں کررہے ہیں، کیوں آپکی نظر ان دردناک واقعات اور وحشتناک مناظر پر نھی جاتی جن سے یہ ھندوستانی زمین لال ہے، جس نے اس ملک کی تاریخ کو سیاہ کر ڈالا؟ جس طرح کشمیر فائل کو دیکھ کر لوگ واویلا مچا رہے ہیں، نفرت کا بازار گرم کررہے ہیں، ان لوگوں کو چاہیے کہ ملک میں رونما ہوئے تمام تر فسادات کی ضد میں آئے بے قصور لوگوں کے خون کے چھینٹے دیکھیں جو آج بھی ان علاقوں کی اور انکی نسلوں کی پسماندگی سے نظر آتے ہیں، اگر کشمیر فائل دیکھ کر تمہاری آنکھیں اشکبار ہیں تو گجرات فائل پر فلم بناؤں یقیناً تمہاری آنکھوں سے آنسو نھی خون کا دریا بہیگا، آپ لوگوں کو صرف ایک فائل ہی کیوں نظر آرہی ہے، کبھی دیگر فائلوں پر بھی فلمیں بناکر دیکھوں،کیا آپکو 1919 کا لہو میں لت پت جلیانوالہ باغ نظر نھی آتا؟ خون کی نالیوں سے شرابور 2002 کا گجرات نظر نھی آتا؟ 1946 کے گڑھ مکتیشور مسلم مخالف فساد میں مسلمانوں کی برسریدہ لاشیں نظر نھی آتیں؟ 1948 میں حیدرآباد دکن میں مسلمانوں کا قتلِ عام نظر نھی آتا؟ گجرات 1969 کے آتش زدہ کھنڈرات نظر نھی آتے؟ 1976 کا ترکمان گیٹ ڈیمولیشن رائٹ میں مسلم نوجوانوں کے کٹے پھٹے اعضاء نظر نھی آتے؟ 1980 مراد آباد فساد میں موت کی گھاٹ اتارے گیے بے قصور مسلم نوجوان نھی دیکھتے؟
1983 نیلی قتلِ عام آسام کا وہ دہشتناک منظر بھول گیے؟ 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہندوؤں کی طرف سکھ مخالف منظم قتلِ عام یادوں کے شگاف سے اوجھل ہوگیا؟ 1987 ہاشم پورہ کے روتے بلکتے بچے نظر نھی آتے؟ 1989 بھاگلپور تشدد میں ملبے تلے دبے اجسام نھی دیکھتے؟ 1990 کا گواکڈل میسیکر سری نگر کشمیر کدھر گیا؟ 1990 ایودھیا اترپردیش کا فساد،
1992-93 ممبئ فساد، 1993 سوپور کشمیر، اور بجبیہرا فساد، 2002 گجرات فساد میں گل برگ سوسائٹی احمد آباد ، نروڈہ پٹیہ احمد آباد، میں اجڑے گھر، وہاں پیدا کیا ہوا قحط، بھوک مری، عصمت دری، لوٹ مار بھول گیے؟
2013 مظفر نگر اترپردیش، دہلی 2020، میں مارے گیے بے قصور مسلم جوانوں کی بکھری لاشیں نھی دیکھتی؟ نہیں، کیونکہ آپ نے ھندو انتہا پسندی کا چشمہ لگایا ہوا ہے، کیونکہ آپکو اپنی اولادوں کو باغی بنانا ہے، انکو حیوان وحشی درندہ بنانا ہے، انکو معصوموں کا قاتل بنانا ہے، آپکو روزگار، عزت، امن و سکون اور اطمینان بخش زندگی نھی چاہیے بلکہ آپکو تو نفرت، تشدد، دشمنی، کی آگ میں جلنا ہے، تو جلئے اور ہمیشہ یو ہی جلتے رہئیے اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اسی کی بھینٹ چھڑا دیجیے، انکو ملک مخالف عناصر سے دور رکھنے کے بجائے بنائیں انکو دہشتگرد، بنائیں انکو سفاک ظالم، کیونکہ انکے کیے گیے کارنامے تو مسلم نوجوانوں کے سر پر پھوڑے جاتے رہیں گے، لیکن کب تک؟ کس حد تک؟ ظلم، انارکی، قومی استحصال، عصمت دری، قتلِ عام کا انجام کیا ہوتا ہے یہ زمین میں دفن داستانوں سے سیکھیے،
اور رہی بات فسادات کی تو بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کا برپا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1947ء میں آزادی کے بعد سے پچھلے 73سالوں میں ملک کے طول و عرض میں 58400 فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ بڑے فسادات جہاں 50 یا اس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے کی تعداد لگ بھگ 110 کے قریب ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2008ء سے 2018ء کے دس سالوں کے وقفہ کے درمیان کم و بیش 8 ہزار فسادات ریکارڈ کئے گئے ہیں۔یعنی ایک طرح سے ملک میں ہر روز دو فسادات ہوئے ہیں، ان سبھی فسادات میں پولیس کا رول حالیہ دہلی میں رونما ہوئے فسادات کی طرح ہمیشہ سے ہی جانبدارانہ رہا ہے۔ بجائے فسادات کو کنٹرول کرنے وہ بلوائیوں کا ساتھ دیکر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں یا بس خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ یعنی بھارت میں پولیس اور مسلمانوں کا رشتہ ہمیشہ سے ہی معاندانہ رہا ہے، خیر کشمیر فائل پر اتنا شور شرابہ اور ہنگامہ کرنے سے پہلے زرا ھندوستان کی خون آلود تاریخ پر بھی نظر ڈال لیں، اور بہتر ہے کہ اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کو باغی بنانے کے بجائے انکو ایک اچھا مستقبل آراستہ کرکے دو انکی تربیت میں نرمی اور انسانیت کو نکھارا جائے تاکہ ملک میں امن و امان کی دیواریں مضبوط کی جائیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button