مضامین

شہدائے کربلا ؓ کی بے مثال قربانی اور جاں نثاری کا عظیم مظہر

جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، انہیں عام اصطلاح میں ’’شہید‘‘ کہا جاتا ہے ۔ شہادت ’’حق‘‘ کی خاطر اﷲ کی راہ میں جان قربان کرنے کو کہتے ہیں اور لغوی اعتبار سے یہ گواہی و شہادت کے زمرے میں آتی ہے۔ البتہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والا دونوں معنویت سے متصف ہوتا ہے۔ وہ حق کی گواہی بھی دیتا ہے اور اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرتا ہے۔

اس اعتبار سے نواسۂ رسول ؐ، حضرت امام حسین ؓ شہادتِ عظمیٰ کی اعلیٰ ترین مسند پر جلوہ افروز نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ ؓ کی شان اس اعتبار سے اور بھی زیادہ بلند و بالا نظر آتی ہے کہ آپ امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے نواسے ہیں اور آپ ؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپؓ کی تعلیم و تربیت آپ کے نانا جان کی آغوش مبارک میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؓ کے چہرۂ مبارک سے نبی محترم ﷺ کی عطا کردہ قدسی تعلیمات ِ نورانی کا ازخود پتاچلتا ہے جس کے معترف اپنے پرائے سب ہی تھے اور آج بھی ہیں اور آپ کے حضور خراج عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں ۔

حضرت امام حسین ؓکی ولادت باسعادت مدینہ منورہ میں ہوئی، جس سے عالم منور ہوگیا۔ آپ ؓ کااسم گرامی حسین آپ کے نانا جان نے تجویز فرمایا۔ حضرت امام حسین ؓ کے کان میں توحید کی پہلی آواز بھی آپ کے نانا جان حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی زبان مبارک ہی کے ذریعے پہنچی جس کی گونج نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی حق و صداقت کے پرچم کو ہمیشہ بلند رکھنے کا حوصلہ عطا کیا جس پر حضرت امام حسین ؓ ہمیشہ قائم رہے اور آپ نے اپنے لہو سے اپنے نانا جان کے دین مبین کی آبیاری کی، جسے رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا۔ نبی کریمﷺ اپنے نواسے حضرت امام حسینؓ کو بہت چاہتے تھے اور اکثر بارگاہِ ایزدی میں یوں ملتجی ہوا کرتے ۔”اے پروردگار، میں حسین ؓکومحبوب رکھتا ہوں تو بھی انہیں چاہ اور جو انہیں چاہیں،انہیں بھی چاہ” آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ حسین ؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں اور یہ بھی فرمایا کہ حسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی مشہور تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ کے مطابق حضرت حسن بصریؒ یہ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اکرم ﷺ کے خاندان بنی ہاشم کے تمام افراد ان کشتیوں کی مانند ہیں جو ہمیشہ دریائوں میں چلتی رہتی ہیں اور صحابہؓ ان ستاروں کی مانند ہیں جو ہمیشہ چمکتے رہتے ہیں۔ یہی لوگ دین کے امام ، ہادی اور سچے نشان ہیں، جو کوئی ان کی متابعت کرے، نجات پاتا ہے، جیسا کہ ان اہل ایمان کو نجات ملی ،جنہوں نے کشتی نوح میں اس متابعت کا حق ادا کیا۔

حضرت امام حسین ؓ انتہائی صاف گو ، ہمدرد اور بہادر تھے۔ آپ نےہر معرکے میں اپنے والدِ محترم حضرت علی شیر خداؓ کا ساتھ دیا اور ہر موقع پر شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھائے اور کسی طور بھی حق کو مغلوب ہونے نہیںدیا۔ اسی طرح جب مسلم معاشرہ دین محمدی سے ہٹ کر خلاف اسلام امور کی ترویج کی سمت گامزن ہونے لگا تو اس وقت بھی حضرت فاطمہؓ کے نورعین اور حیدرکرارحضرت علیؓ کے لخت ِجگر حضرت امام حسین ؓ نے یزید اور اس کے ساتھیوں کو للکارا کہ وہ اپنی مذموم حرکت سے باز آجائیں اور خلافت کے منصب پر یزید کے بجائے کسی متقی صحابی رسول ؐ کو فائز کریں، مگر یزید نے اپنی بیعت کے لئے حضرت امام حسینؓ کو مجبور کیا، جسے آپ نے مسترد کر دیا۔

دراصل آپ کی ذات گرامی میں دین محمدی کی چاہت اور اس کی حفاظت ایک فطری امر ہے ،کیونکہ آپ نے دنیا کے سب سے بڑے معلم و محسن انسانیت رسول عربی ﷺ کی گود میں آنکھ کھولی اور ان کے ہی اخلاق کریمانہ اور سیرت پاک کو اپنے دل میں سموئے رکھا اور دین محمدی ﷺ کی محبت اپنے قلب و ذہن میں جلائے رکھی جس کی بقاءکی خاطرآپ نے دس محرم کو اپنے خاندان کے بہتّر افراد کی قربانی کا نذرانہ پیش کیا اور ہمیشہ ہمیشہ کےلیے امر ہوگئے۔

واقعۂ کربلا‘‘ہمیں صبر و استقامت،جرأت و شجاعت ،باطل کے آگے سینہ سپر ہونے اور حق و صداقت کا علم بلند کرنے کا درس دیتا ہے۔ شہدائے کربلاؓ کا فلسفہ شہادت ہمیں یہ پیغام دیتا نظر آتا ہے کہ اسلام کی سربلندی اور دین مبین کی عظمت و بقا کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button