مضامین

شرار بو لہبی کا مقابلہ چراغِ مصطفوی سے کیجئے

محمد قمر الزماں ندوی، جنرل سیکرٹری /علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

نبی کریم ﷺ سے ایک مسلمان کو طبعی اور فطری محبت ہوتی ہے، آپ پر نہ صرف ایمان لانا ضروری ہے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ صلی علیہ وسلم کی بے انتہا عظمت اور تمام چیزوں سے بڑھ کر محبت ہمارے دلوں میں ہو، یہ محبت اور عشق رسول ﷺ ہمارے ایمان کا جزو اور حصہ ہے، ہمارے دین کی بنیاد اور اساس ہے اور یہ حضورﷺ کا معجزہ ہے کہ اس امت کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا جو غیر معمولی جذبہ کارفرما ہے دوسرے ادیان و مذاہب کے متبعین میں اس کا عشر عشیر اور سوواں حصہ بھی نہیں ملتا اور ایسا کیوں نہ ہو کہ خدائے وحدہ لاشریک کے بعد ہر مسلمان کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سب محبوب ترین ہستی ہے، اس کو اپنے وجود سے بھی بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اگر مومن کا سینہ اس جذبہ سے خالی اور عاری ہو تو وہ مسلمان ہی باقی نہیں رہے گا۔

اللہ اور رسول سے محبت یہ مومن کے لیے معراج ہے، یہی وہ شاہ کلید اور گنجہائے گرانمایہ ہے، جس سے مومن دنیا و آخرت میں نجات پاتا ہے اور زندگی کا ہر قفل کا کھلنا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے، اگر مومن کے پاس محبت رسول ﷺ اور عشق رسول ﷺ کی دولت، پنجی اور سرمایہ نہیں ہے، تو وہ ناکام و نامراد ہے، اس کی دنیا و اخرت دونوں تباہ و برباد ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ مذہب اور مذھبی پیشوا کا احترام اور عقیدت،یہ وہ تعلیم ہے، جو تمام مذاہب میں موجود اور مشترک ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ مذہب اور مذہبی پیشوا سے عقیدت و وابستگی کا مسئلہ سب زیادہ جذباتی اور حساس مسئلہ ہوتا ہے، تاریخ انسانی میں ایثار، جاں نثاری و فداکاری اور قربانی کی جو مثالیں ملتی ہیں، وہ جتنی مذہب کی اور پیشوائے مذہب کی نسبت ملتی ہیں، شاید کہیں اور مل پائے، اس راہ میں لوگ مال و جان، اولاد و اقرباء سب قربان کر دیتے ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ اس راہ میں کتنے لوگوں نے آگ پر چلنا، شعلوں میں جلنا، سمندر میں ڈوبنا اور زندہ پیوند خاک کیا جانا قبول کرلیا ہے، لیکن اپنے فکر و نطر اور عقیدہ و نظریہ سے انحراف کسی طور پر گوارا نہیں کیا، اس لیے ہر دور ، زمانہ اور عہد میں عدل و انصاف کی راہ چلنے والوں نے اس حقیقت کو مانا اور تسلیم کیا ہے کہ ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے، اس پر چلتے ہوئے دوسرے مذاہب کے متبعین کے جذبات و احساسات کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

البتہ اس کی گنجائش ہے کہ آدمی کسی فکر اور عقیدہ پر سنجیدہ، مثبت، تعمیری اور علمی تنقید کرے، لیکن کسی دین اور مذہب اور اس کے مذہبی دھرم گرو اور پیشوا کے ساتھ مذاق، استہزاء تمسخر، گالی گلوچ اور سب و شتم کرنا کوئی بھی مذہب اور دنیا کا کوئی قانون روا نہیں رکھتا اور اس غیر شائستہ عمل کی اجازت نہیں دیتا۔ (مستفاد و ملخص از کتاب مشعلِ راہ ۲۹/۳۰)

اسلام جو دین فطرت ہے اور ایک مکمل دین، مستقل تہذیب اور کامل دستور العمل ہے، جس میں انسانی جذبات کا سب سے زیادہ خیال رکھا گیا ہے، اور جو انسانی جذبات کی تکریم کا ہر قدم پر لحاظ رکھتا ہے، اس پہلو سے، یعنی مذہب اور مذہبی پیشوا کے احترام اور تکریم کے پہلو سے ایک مکمل اور فطرت انسانی سے ہم آہنگ دین اور مذہب ہے۔ اسی لیے قرآن پاک کو گزشتہ رسولوں اور انبیاء کی نسبت مصدق قرار دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید سابقہ تمام رسولوں اور نبیوں کی تصدیق کرتا ہے ، اس کی پاکی اور عصمت کو بیان کرتا ہے، اور دنیا کی محروم اور بدنصیب قوموں کی، جنہوں نے ان پاک محترم اور برگزیدہ ہستیوں کی پاک زندگیوں پر تہمت لگائی، ان کی تکذیب کرتا ہے، اور بدگمانیوں کا جو غبار ان ناہنجاروں نے رکھا تھا ، اسے صاف کرتا ہے۔

جس کی مثالیں قرآن پاک میں کثرت سے موجود ہیں،۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو مکلف بناتا ہے، بلکہ مجبور کرتا ہے کہ وہ اسلام سے پہلے کے تمام مذہبی پیشواؤں کا احترام کریں، ان کے بارے میں انتہائی محتاط لب و لہجہ اختیار کریں ان کو برا بھلا کہنے سے پرہیز کریں۔ قرآن نے تو معبود ان باطل کو بھی برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے، کہ اس سے انسانی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے، اور رد عمل کی نفسیات جاگ اٹھتی ہے، قرآن مجید میں توحید کا اثبات اور شرک کی تردید خوب ہے، پورے قرآن و حدیث کی تعلیمات کا حاصل، لب لباب اور خلاصہ یہی ہے لیکن انبیاء اور رسولوں کے احترام میں کہیں کوئی کمی نہیں ہے۔ نہ دل آزاری والا کہیں اسلوب، جملہ اور لہجہ ہے اور نہ کہیں جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی زبان اور بیان۔

لیکن افسوس کہ اسلام کی اس پاکیزہ تعلیم اور اعلیٰ اخلاقی اصول کو ہم نے دنیا کے سامنے جس انداز میں پیش اور عام کرنا تھا نہیں کیا اور اس کی تبلیغ اور تشہیر نہیں کی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آئے دن کچھ دریدہ دہن اور فتنہ پرداز لوگ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں، اور خاتم الانبیاءﷺ کی شان میں گستاخی کرتے رہتے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں نوپور شرما اور نوین کمار جندل نے پیغمبر اسلام کے خلاف خوب زہر اگلا، جس سے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑنا اور ان کے جذبات بھڑکنا فطری اور ضروری تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی مذہب اور اس کے متبعین کے لیے یہ بات گوارا نہیں ہوسکتی کہ اس کےمذہب اور مذہبی پیشوا کو سب و شتم کیا جائے، تو بھلا مسلمان اس کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی معقول قانون ایسے طرز عمل کو برداشت نہیں کرسکتا، جس سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے جذبات مجروح اور احساسات زخمی ہوتے ہوں۔

مذہب اسلام میں تو شاتم رسولﷺ کی سزا متعین ہے، اس کی سزا قتل ہے، عقل تو یہ کہتی ہے کہ اگر اس سے بھی کوئی سخت سزا ہوسکتی ہے، تو وہ اس کو ملے۔ کیونکہ اس سے کسی ایک خاندان، ملک و خطہ کی ہی نہیں بلکہ پوری ایک قوم اور ملت کے لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔فقہاء اربعہ حنفیہ، مالکہ، شوافع اور حنابلہ سب اس پر متفق ہیں کہ شاتم رسولﷺ کی سزا قتل ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رح کی تو اس موضوع پر مستقل ایک کتاب ہے سیف اللہ المسلول علی شاتم الرسول۔

بعض علماء احناف نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ رسول کی شان میں گستاخی کرنے والے کی دنیا کے احکام کے اعتبار سے توبہ بھی قبول نہیں ہوگی، چاہیے آخرت میں اس کی توبہ قبول ہوجائے۔ اگرچہ اکثر علماء اس کے قائل نہیں ہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ،، جس نے رسول ﷺ کو برا کہا، آپ کی اہانت کی، آپ کے دین، آپ کی شخصیت یا آپ کے اوصاف کی نسبت سے کوئی بدگوئی کی، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، یہودی ہو، یا عیسائی ہو یا مشرک، مسلم ملک کا باشندہ ہو یا دار الحرب کا، اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی،، ۔( خلاصہ الفتاویٰ ۴/ ۳۸۶ بحوالہ مشعل راہ ۳۲)

یہ سخت قانون اس لیے ہے کہ بدقماش، بدطینت اور فطرت کے کج انسان کو موقع نہ ملے کہ وہ مذہبی پیشوا کے ساتھ تمسخر اور استہزا کرسکے، جو انسانیت کے ہادی اور چراغ راہ تھے،موجودہ واقعہ کے تناظر میں ہم حکومت وقت کو باور کرائیں کہ یہ معاملہ خالص ہمارے ایمان و عقیدے سے جڑا ہوا ہے، ہم دنیا میں سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں، ہم اپنے جان و مال عزت و آبرو اور آل و اولاد کی قربانی گوارا کرسکتے ہیں ، لیکن ہم اپنے رسولﷺ کی ذات پر معمولی حرف گیری کو برداشت نہیں کرسکتے، کیونکہ یہی اس کے دین و ایمان کی بنیاد و اساس ہے، اور یہ محبت و احترام ہمارا تاریخی شرعی اور دینی ورثہ ہے۔

نوپور شرما اور جندل کے بدنختانہ عمل اورحرکت پر ہم مسلمان سخت ناراض ہیں ہم سب حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان بے ادبوں، گستاخی اور کمینوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ، ان سب کو عمر قید کی سزا دی جائے، اور ایسے مجرموں کے لیے سخت سے سخت قانون بنائے جائیں ، چاہے وہ کسی مذہب کا ہو جو مذہب اور مذہبی پیشوا کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں عیسائت اور یہودیت کے خلاف اور ان کے مذہبی پیشوا کے خلاف بولنا قابل سرزنش جرم ہے، تو یہاں ایسے لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی کیوں نہیں ہے۔ ایسی شنیع اور غیر مہذب حرکت کو اظہار رائے کی آزادی قرار دینا اور سمجھنا، کیا خلاف عقل بات نہیں ہے۔

گستاخ رسول نپور شرما

دوسری طرف ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ شاتم رسولﷺ کے خلاف ناراضگی غم و غصہ اور ارتعاش و اشتعال یہ سب برحق ہیں،کیونکہ اس کے بغیر ہم مومن ہی نہیں رہ سکتے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ خاتم الانبیاءﷺ کے پیغام تعلیم اخلاق کردار اسوہ اور آپ کے مشن کو عام کریں، پوری دنیا کو اس سے آگاہ کریں، گھر گھر نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو پہنچائیں، اور خود اپنی زندگی کو نبی کریم ﷺ کی زندگی کے مطابق ڈھال لیں، ہماری پوری زندگی نبی ﷺ کی زندگی کا عکس اور پرتو ہو، ہمیں دیکھ کر برادران وطن اور دنیا کے لوگ سمجھیں کہ یہ ہیں محمد ﷺ کے متبعین ، پیرو کار اور ان کے جانشین۔

ان کی جیسی شرافت اور انسانیت اور ان کے جیسے اخلاق و کردار ہمیں اور کہیں نہیں ملتے، کاش ہم چراغ مصفوی کی روشنی سے منور ہو جاتے تاکہ ہمارے لیے شرار بو لہبی سے مقابلہ کرنا آسان ہوجاتا۔ بس اس بات اور پیغام پر رخصت ہوتا ہوں کہ

قُوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمّدؐ سے اُجالا کر دے

ہو نہ یہ پھُول تو بُلبل کا ترنُّم بھی نہ ہو
چَمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خُم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا اِستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں، دامنِ کُہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے

چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ ’رَفَعْنَا لَکَ ذِکرَْک‘ دیکھے

کی محمّدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
اور اس درد کو بھی سنا لیتے ہیں کہ

اے خاصئہ خاصان رسل! وقت دعا ہے
امت پر ترے آکے عجب وقت پڑا ہے

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے

وہ دین ہوئی بزم جس سے چراغاں
آج اس کی مجالس میں نہ بتی ہے نہ دیا ہے
جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہبان
اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے

قومی ترجمان
قومی ترجمان
Qaumi Tarjuman
قومی ترجمان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button