دینی مدارس اور موجودہ حالات : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ہندوستان کی تاریخ میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام ہم وطنوں کے لئے بہت مشکل وقت وہ تھا، جب بادشاہوں، راجاؤں اور نوابوں کی حکومت ختم ہوئی اور برطانیہ نے اپنا پنجۂ اقتدار گاڑنا شروع کر دیا، ۱۷۵۷ء میں انگریزوں کی توسیع پسندانہ تحریک شروع ہوئی اور بنگال اور میسور سے ہوتے ہوئے ۱۸۵۷ء میں دہلی پہنچی اور مغلیہ حکومت کا ٹمٹماتا ہوا چراغ پوری طرح بجھا دیا گیا، ۱۸۵۷ء کے بعد سے نوے سال یعنی ۱۹۴۷ء تک انگریزوں کے اقتدار کا سورج پوری آب وتاب کے ساتھ وطن عزیز کے طول وعرض پر چمکتا رہا؛ اگرچہ ملک کے مختلف حصوں میں بعض ہندو راجاؤں اور مسلمان نوابوں کی مملکتیں ابھی بھی باقی تھیں ؛ لیکن عملاََ ہر جگہ انگریزوں کا اقتدار قائم تھا، یہ حکومتیں انگریزوں کے غلام اور اہل وطن کے لئے آقا کا درجہ رکھتی تھیں۔
انگریزوں نے اقتدار کی مدت کو طویل تر کرنے، اپنے قبضہ کو مستحکم کرنے اور مستقل طور پر ہندوستان کو اپنے زیر قبضہ رکھنے کے لئے سیاسی غلبہ کے ساتھ ساتھ عیسائیت کی تبلیغ کی جدوجہد شروع کر دی؛ اگرچہ عیسائی مشنری کا نشانہ ہندو اور مسلمان دونوں تھے؛ لیکن ہندوؤں کی پست اقوام میں ان کو زیادہ کامیابی حاصل ہوئی اور مسلمان ان کے عزم وارادہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے؛ اس لئے انھوں نے اسلامی عقائد، پیغمبر اسلام علیہ السلام کی ذات والا صفات، اسلامی قوانین اور قانون شریعت کے مصادر قرآن وحدیث نیز مسلمانوں کی تاریخ کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا اور حد یہ ہے کہ اس کام کے لئے دروغ گوئی کرنے، جھوٹ بولنے اور لکھنے میں بھی کسی تکلف سے کام نہیں لیا، مزید ستم یہ ہوا کہ آریہ سماجی فرقہ نے بھی مسلمانوں کی مخالفت میں فکری اعتبار سے ان کی مدد کی، اب مسلمان ایک طرف انگریزوں سے نبرد آزما تھے اور دوسری طرف آریہ سماجیوں سے، اس صورت حال میں اللہ کے کچھ نیک بندوں نے ایک نسخۂ کیمیا دریافت کیا، یہ نسخہ تھا حکومت کی مدد اور اس کے اثر سے آزاد دینی مدارس کا قیام ،اُن کا احساس تھا کہ مدارس ایک ایسا فکری کارخانہ ثابت ہوں گے، جن سے تسلسل کے ساتھ تحفظ اسلام کے لئے افرادی قوت حاصل ہو سکے گی، جو اسلام کی ترجمانی اور دفاع کا فریضہ پوری قوت اور دینی غیرت وحمیت کے ساتھ انجام دیں گے اور حکومت کے اثر سے آزاد ہونے کی وجہ سے کوئی طاقت ان کے ضمیر کا سودا نہیں کر سکے گی، اسی جذبہ کے تحت دارالعلوم دیوبند اور مختلف مدارس کا قیام عمل میں آیا، اسی زمانہ میں جنوبی ہند میں باقیات الصالحات اور جامعہ نظامیہ کا قیام عمل میں آیا، اور چوں کہ اس کوشش کے پیچھے بھر پور اخلاص کا جذبہ کار فرما تھا؛ اس لئے یہ پودے تناور ہوتے گئے اور ہندوستان ہی نہیں ہندوستان سے باہر بھی اس کے اثرات محسوس کئے گئے۔
ان مدارس کے ذریعہ اس طویل وعریض ملک میں اسلامی تعلیمات کی حفاظت، مسلم معاشرہ کو دین سے مربوط رکھنے، گمراہ کن افکار سے ان کو بچانے، اسلام کے خلاف اٹھائے جانے والے شبہات واعتراضات کا دفاع جیسی ذمہ داریوں کو انجام دیا؛ چنانچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج اس ملک میں جو کچھ بھی اسلامی تشخصات نظر آتے ہیں، وہ ان ہی کوششوں کے اثرات ہیں، موجودہ حالات بعض جہتوں سے تقریباََ اسی طرح ہیں جو برطانیہ کے غلبہ کے وقت پیدا ہوئے تھے، آج بھی اسلامی تشخصات کو نقصان پہنچانے کی سعی سیاسی پارٹی ہی نہیں بلکہ خود حکومت کی طرف سے اعلانیہ طور پر کی جا رہی ہے، مسجدوں کو صنم خانوں میں بدلنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے، اسلامی شعار کے خلاف آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں، شہروں، محلوں اور سڑکوں کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں، ملک کی تاریخ از سر نو لکھی جا رہی ہے، افسوس کہ جس قوم نے ملک کی آزادی کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دیں، اُن سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ مانگا جا رہا ہے، علماء ومدارس جو آزادی کی لڑائی میں پیش پیش تھے، ان کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کئے جا رہے ہیں، اور جن لوگوں کو آزادی کی لڑائی میں ایک کانٹا بھی نہیں چبھا، اُن کو ملک کا ہیرو قرار دیا جا رہا ہے؛ اس لئے یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں مدارس کی جو ضرورت واہمیت تھی، آج اس سے بڑھ کر ہے؛ اس لئے مدارس کا تحفظ، ان کا استحکام اور ان کو مفید تر بنانے کی کوشش پوری ملت اسلامیہ ہند کا فریضہ ہے۔
اس وقت ملک کی بعض ریاستوں میں مدارس کے سروے کے نام سے جو بات کہی جا رہی ہے، اس کا مقصد واضح طور پر مسلمانوں کو رسوا کرنا اور ان کو برادران وطن کی نظر میں مشکوک بنانا ہے، اگر حکومت جاننا چاہتی ہے کہ تعلیمی ادارے حکومت کے اصول وضوابط پر عمل پیرا ہیں یا نہیں ؟ تو اس کو جاننے کی ضرورت صرف مدارس ہی کو نہیں ہے، تمام تعلیمی اداروں میں ہے، چاہے وہ اکثریتی فرقہ کے تعلیمی مراکز ہوں یا اقلیتوں کے، اور اقلیتوں میں مسلمانوں کے ہوں یا سکھوں کے ،عیسائیوں کے یا بدھسٹوں کے؛ بلکہ پرائیویٹ اداروں سے زیادہ سرکاری اداروں کا سروے کرنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ حکومت کے قواعد وضوابط کے مطابق اسکولوں کے لئے جو انفراسٹرکچر ہونا چاہئے وہ مہیا ہے یا نہیں؟ اور اس سلسلہ میں حکومت کا بھی احتساب ہونا چاہئے، صرف مسلمانوں کے تعلیمی اداروں یا دینی مدرسوں کا سروے مسلمانوں کے خلاف شکوک وشبہات کا موقع پیدا کرتا ہے، اور اس وقت نفرت کی جو آندھی آئی ہوئی ہے، یا لائی جا رہی ہے، اس میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے؛ اس لئے مسلمانوں اور مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے پوری قوت کے ساتھ اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے؛ کیوں کہ آزاد مدارس مسلمانوں کا اپنا اثاثہ ہیں، اس کی زمین، اس کی عمارت، اس کا فرنیچر، اس کی لائبریری وغیرہ میں حکومت کا کچھ نہیں ہے، یہ مذہبی اوقاف کے درجہ میں ہے، اگر کوئی بات قابل تحقیق ہو تو اس کی تحقیق تو کی جا سکتی ہے؛ لیکن سروے کے نام سے ان کو خوفزادہ کرنا یا مدرسہ کی املاک کو اپنی تحویل میں لے لینا سراسر ظلم وزیادتی ہے؛ اس لئے ایک طرف ہمیں حکومت کے اس اقدام کی مزاحمت بھی کرنی چاہئے دوسری طرف ہمیں مناسب تدبیریں بھی اختیار کرنی چاہئیں، اس وقت ان ہی تدابیر کے بارے میں چند نکات پیش خدمت ہیں :
۱۔
الف: قانونی جہت سے جو کوتاہیاں ہوں، ان کو دور کرنا ضروری ہے، ہندوستان میں عام مزاج یہ ہے کہ اگر کمرشیل بلڈنگ نہ ہو تو تعمیر کی باضابطہ اجازت حاصل نہیں کی جاتی، مسجد ہو یا مندر چرچ ہو یا گرودوارہ، اور ان کے تحت چلنے والے تعلیمی ادارے، ان کی تعمیری اجازت لینے کا اہتمام نہیں کیا جاتا، اب یہ ضروری ہے کہ دینی مدارس تعمیر سے پہلے نقشہ پیش کر کے ادارہ مجاز سے اس کی باضابطہ اجازت حاصل کریں، اور اگر عمارت بن چکی ہے تو ضابطہ کے مطابق جرمانہ ادا کر کے اس کی توثیق کرائیں، یہ عمارت بچانے کا کام ہے، جس کی اہمیت عمارت بنانے سے زیادہ ہے؛ اس لئے اس کو فضول اور بے کار نہ سمجھا جائے۔
ب: قانونی جہت سے دوسرا اہم کام حسابات کو حکومت کے مقرر کئے ہوئے اصل وضوابط کے مطابق لکھنا اور محفوظ رکھنا ہے، بحمد اللہ مدارس میں جو بھی آمدنی ہوتی ہے اور جو کچھ خرچ ہوتا ہے، اس میں پوری دیانت کا لحاظ رکھا جاتا ہے، اور حساب وکتاب میں پوری احتیاط برتی جاتی ہے؛ لیکن رقم کی وصولی اور خرچ کے لئے کسی چارٹر اکاؤنٹنٹ کی ہدایت کے مطابق حسابات کو لکھنا چاہئے، مقررہ ضابطوں پر عمل ہونا چاہئے، پوری شفافیت کے ساتھ حسابات کا آڈٹ کرانا چاہئے اور حساب اس طرح رکھنا چاہئے کہ دیکھنے والے بھی مطمئن ہوں اور اپنے ضمیر کو بھی اطمینان ہو۔
ج: قانونی جہت سے کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ ہر ادارہ اپنے لئے ایک مشیر قانونی مقرر کرے، جو ٹیکس کے شعبہ سے تعلق رکھنے والا وکیل ہو تو زیادہ بہتر ہے، وہ مدرسہ کی املاک اور آمدوصرف پر گہرائی کے ساتھ نظر رکھے اور بوقت ضرورت سرکاری محکموں میں حسابات کو پیش کرے، اس میں ایک شخص کی تنخواہ تو بڑھ جائے گی؛ لیکن نظم وضبط قائم رکھنے میں مدد ملے گی، اور مدارس کا تحفظ ہوگا، جو ذمہ داران مدارس حساب وکتاب کے فن سے واقف نہیں ہیں، نہ ٹرسٹ یا سوسائٹی وغیرہ کے اصولوں سے آگاہ ہیں، وہ نہ عوام کو مطمئن کر پاتے ہیں، نہ سرکای محکموں کو، اور وہ دوہری دشواری اور شرمندگی سے دو چار ہوتے ہیں؛ اس لئے جہاں دیگر عہدہ دار ہوتے ہیں، ایک عہدہ ’’مشیر قانونی‘‘ کا ہونا چاہئے خواہ وہ اعزازی طور پر طور پر کام کرے یا ان کو اس کی فیس ادا کرنی پڑے۔
ج: مسلمانوں کو دستور نے جو اپنی پسند کے علمی ادارے قائم کرنے کی آزادی دی ہے، اس کے تحت مدارس کا رجسٹریشن ضروری نہیں ہے؛ مگر رجسٹریشن سے متعدد فائدے ہیں، اور ایک اہم بات یہ ہے کہ اس سے بے جا شکوک وشبہات کا سد باب بھی ہوتا ہے؛ اسی لئے اگر ٹرسٹ یا سوسائٹی کے تحت مدارس کا جسٹریشن کر لیا جائے تو یہ بہتر شکل ہوگی، رجسٹریشن ٹرسٹ کے تحت ہو یا سوسائٹی کے تحت، اس کے لئے قانون دانوں سے مشورہ کر لینا چاہئے، اور اگر سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کرایا گیا ہو تو پھر مقررہ وقت پر اس کی تجدید بھی ضرور ہی کرنی چاہئے۔
۲۔ قانونی جہتوں کی تکمیل کے بعد دوسرا ضروری کام ہے مدارس کے اندرونی نظام کی اصلاح، اس پر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، اس سے متعلق چند اہم نکات یہ ہیں:
الف: مدرسہ شخصی نہ ہو؛ بلکہ ایک رجسٹرڈ انتظامیہ کے تحت ہو، یہ تو ہو سکتا ہے کہ انتظامیہ ہم مزاج لوگوں پر مشتمل ہو؛ تاکہ اختلاف وانتشار سے محفوظ رہے؛ لیکن یہ نہ ہو کہ ادارہ ایک شخص کی ملکیت بن کر رہ جائے، اس سلسلے میں بڑی کوتاہی ہوتی ہے، یہاں تک کہ بعض مدارس میں ایسا بھی ہوا کہ ذمہ دار ادارہ کی وفات کے بعد ان کے ورثہ نے مدرسہ کی املاک پر ملکیت کا دعویٰ کر دیا اور ادارہ ایک بڑے انتشار کا شکار ہوگیا، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دارالعلوم دیوبند کے لئے جو اُصول مقرر کئے، اس میں بھی شورائیت کو بڑی اہمیت دی گئی؛ لیکن اب ہمارے بیشتر مدارس شخصی آمریت کا نمونہ بن گئے ہیں، جس میں نہ کوئی مجلس انتظامی ہے اور نہ اہم امور پر مشورہ کا کوئی نظام ، یہ بہت افسوسناک بات ہے اور حضور علیہ السلام کی سنت کے بھی خلاف ہے۔
ب: مدارس کی رہائش اور خوردونوش کے انتظام میں بھی اصلاح کی بہت ضرورت ہے، طلبہ کی تعداد بڑھانے اور عمارتوں کی چکا چوند دکھانے سے زیادہ ہمیں طلبہ کی رہائش اور کھانے پینے کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے، یہ تو ظاہر ہے کہ مدارس عوامی چندوں سے چلتے ہیں، یہ کمرشیل ادارے نہیں ہیں، اکثر کچھ بڑے مدارس کو چھوڑ کر مقروض رہتے ہیں؛ اس لئے اس میں کھانے پینے اور رہنے سہنے کے معیار کو ایک حد تک ہی بہتر بنایا جا سکتا ہے؛ لیکن جتنا کیا جا سکتا ہو اتنا ضرور کرنا چاہئے، طلبہ کے لئے چارپائی یا تخت کا انتظام، کمروں کی وسعت اتنی ہو کہ بچے آرام سے رہ سکیں، روشنی اور پنکھے کا مناسب انتظام، پینے کے لئے صاف ستھرا پانی، کھیل کے لئے میدان، طبعی ضروریات کے لئے مناسب سہولت اور صفائی کا نظم ، کھانے میں بہتری کی کوشش، جو اشیاء پکائی جائیں وہ سڑی گلی مضر صحت نہ ہوں، یہ سب بنیادی ضرورتیں ہیں، ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، طلبہ کی لازمی ضروریات میں ان کی تعلیم کے مناسب حال کتب خانہ بھی شامل ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ اساتذہ اور ذمہ داروں کا طلبہ کے ساتھ طرز تخاطب بہتر اور مشفقانہ ہو۔
ج: مدارس میں حفاظتی انتظام کے لئے بھی بہتر اقدام کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں دو باتیں بہت اہم ہیں: اول یہ کہ مدرسہ کے گیٹ پر چوبیس گھنٹے دربان کا انتظام ہو، جو باہر سے آنے اور جانے والوں کا ریکارڈ رکھے، دوسرے: سی سی کیمرے کا ایسا انتظام ہو کہ پورے مدرسہ کا احاطہ کرتا ہو، اس میں باب الداخلہ، دفاتر، مسجد ،کلاس رومس اور راستے سب شامل ہیں؛ تاکہ اگر کسی طالب علم یا کارکن کی تفتیش مطلوب ہو یا پولیس اس کے بارے میں جاننا چاہے تو اس کا ریکارڈ مہیا کیا جا سکے، یہ قانونی طور پر ضروری ہے، اس کے علاوہ یہ کیمرہ چوروں، اُچکوں اور غیر سماجی لوگوں سے بھی تحفظ کا بھی ذریعہ بنے گا، ہر انسان کے لئے اپنی طاقت واستطاعت کے مطابق اپنی جان، املاک اور عزت وآبرو کی حفاظت ضروری ہے؛ اس لئے حفاظتی تدابیر پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔
۳۔ مدارس کا بنیادی مقصد تعلیم اور تربیت ہے، تعلیم کے ذریعہ اسلامی علوم کی آگہی حاصل ہوتی ہے اور تربیت کے ذریعہ اس پر عمل کی مشق کرائی جاتی ہے، یہ دونوں باتیں بہت ضروری ہیں، مدارس میں اصل توجہ ان ہی دو باتوں پر ہونی چاہئے، اس کے لئے ضروری ہے کہ:
الف: ہر مضمون کی تعلیم کے لئے اس میں مہارت رکھنے والا استاذ مقرر کیا جائے۔
ب: مدارس میں اساتذہ کی تدریسی تربیت کا عمومی طور پر کوئی انتظام نہیں ہوتا؛ حالاں کہ تدریس ایک اہم فن ہے اور مسلمانوں نے اس فن میں بڑے کارنامے انجام دئیے ہیں، علامہ ابن خلدونؒ کو اس فن کے مؤسسین میں سمجھا جاتا ہے ؛ اس لئے ضروری ہے کہ بڑے مدارس تدریسی تربیت کا کورس شروع کریں، جس میں طلبہ کی نفسیات ، تعلیم کا طریقہ ، کلاس کا ماحول ، تعلیمی نفسیات وغیرہ پر تربیت دی جائے ، اگر باضابطہ دو سالہ کورس دشوار ہو تو کم از کم اساتذۂ مدارس کے لئے دس روزہ ورکشاپ رکھا جائے، جس میں مدرسہ کے تجربہ کار ماہر اساتذہ کے علاوہ فنی ماہرین کو بھی دعوت دی جائے۔
ج: مدارس میں عام طور پر تدریس بھی اسی طرح ہوتی ہے، جیسے جلسوں میں تقریر کی جاتی ہے، طالب علم کو مضامین درس کی طرف متوجہ کرنے کے لئے کوئی تدبیر اختیار نہیں کی جاتی اور جو تفہیم کے جدید وسائل ہیں، ان سے بھی فائدہ اٹھایا نہیں جاتا، جیسے: بلیک بورڈ، کمپیوٹر، پروجیکٹر وغیرہ، ان کا استعمال سیکھنا بھی چاہئے اور کرنا بھی چاہئے؛ کیوں کہ یہ صرف ایک ذریعہ ہے، مقصد تعلیم وتربیت ہے، یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان پر سمعی وسائل سے زیادہ بصری وسائل کا اثر پڑتا ہے؛ لیکن مدارس روایتی طور پر سمعی وسائل ہی پر اکتفا کرتے ہیں، اس کی وجہ سے تفہیم مشکل ہو جاتی ہے اور ذہن پر زیادہ زور پڑتا ہے۔
د: تعلیم میں بہت بڑی ضرورت ہے نصاب میں حذف واضافہ کی، تعلیم کا مقصد طالب علم کو اس کی اپنی ضروریات، اس کے مخاطب کی ضروریات اور اس کے عہد کے مسائل سے واقف کرانا ہے، اگر تعلیم طالب علم کو اپنے عہد کی ترقیات سے بے تعلق کر دے تو وہ لوگوں پر اپنا اثر نہیں چھوڑ سکتی؛ اس لئے موجودہ دور میں انگریزی زبان ،مقامی زبان، کمپیوٹر ، اپنے ملک کی تاریخ اور اپنے دور کی عام معلومات سے واقف ہونا ضروری ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس مل کر عصری تعلیم کے لئے اپنا ایک نصاب تیار کریں، جو مدارس کے مزاج سے ہم آہنگ ہوں، جس سے صرف دنیا کی ہی معلومات حاصل نہ ہوں؛ بلکہ اسلام کی تبلیغ واشاعت میں بھی مدد ملے۔
۴۔ مدارس میں ایک اہم ضرورت فکری تربیت کی ہے، فکری تربیت سے مراد یہ ہے کہ وہ آج کے دور میں اسلام کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے سکیں، مدارس میں ایک مضمون ادیان ومذاہب کے تقابلی مطالعہ کا ہو، سترہویں صدی کے بعد مادیت پرستی پر مبنی جو افکار سامنے آئے ہیں، ان سے انہیں واقف کرایا جائے، خود اسلامی فرقوں کے سلسلے میں ان میں اعتدال پیدا کیا جائے؛ تاکہ وہ دانستہ یا نا دانستہ دشمنان اسلام کا آلۂ کار بن کر مسلمانوں میں اختلاف کو بڑھانے اور انتشار کو پھیلانے کا ذریعہ نہ بن جائیں، جب تک یہ تربیت نہیں ہوگی، مدارس کے فضلاء موجودہ دور کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کی دعوت اور اس کے دفاع کا فریضہ انجام دینے اور مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے کے لائق نہیں ہو سکیں گے، اور فکری تربیت سے محرومی کی بنا پر الٹے اُمت میں انتشار واختلاف کو ہوا دیتے رہیں گے۔
بہر حال ایک طرف ہمارا فریضہ ہے کہ حکومت کی طرف سے دینی تعلیم گاہوں کے خلاف کئے جانے والے امتیازی سلوک کی پوری قوت وحکمت کے ساتھ مزاحمت کریں؛ کیوں کہ یہ دستور میں دئیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اور دوسری طرف خود مدارس کے نظام میں جو اصلاحات کی ضرورت ہے، پوری فراخدلی اور وسعت نظری کے ساتھ ان پر توجہ دیں اور نظام تعلیم وتربیت اور انتظام وانصرام کو مفید تر بنائیں !