سائنس / کلائمیٹمضامین

دنیا کو بچانے کا آخری موقع: 2030 تک نصف کرنے ہوں گے گیس کے اخراج

رپورٹ:نشانت سکسینہ
ترجمہ: محمد علی نعیم

کرہ ارض کی تاریخ کے گزشتہ 2000 سالوں کے بالمقابل حالیہ چند دہائیوں میں زمین کا درجہ حرارت بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ واضح طور پر اس کا بنیادی سبب انسانی سرگرمیوں کی بناء پر ہونے والے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہے۔2010 – 2019 میں اوسط سالانہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج انسانی تاریخ میں اپنی بلند ترین سطح پر تھا۔

سائنسدانوں نے آج جاری موسمیاتی تبدیلی پر بین حکومتی پینل (IPCC) کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لئے ہمیں اپنے اخراج کو صفر پر لانا ہو گا ،اخراج کو کم کئے بغیر گلوبل وارمنگ کو ڈیڑھ ڈگری سیلسیس تک محدود کرنا پہنچ سے باہر ہے۔ اس کے لئے توانائی کے شعبے میں بڑی تبدیلیاں مطلوب ہے اور فوسل فیول کے استعمال میں زبردست کمی کی ضرورت ہے

رپورٹ جاری کرتے ہوئے آئی پی سی سی کے صدر ہوسنگ لی نے کہا "ہم ایک دوراہے پر ہیں۔ اب جو فیصلے ہم کریں گے وہ مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔”تمام سائنسی شواہد کے باوجود نہ تو فوسل فیول کمپنیوں اور حکومتوں کا احتساب ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی خاص امتناعی کارروائی کی جاتی ہے۔اس بے حسی کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل (IPCC) کی آج جاری چھٹی رپورٹ (AR6) کی تیسری قسط (WG3) بتاتی ہے کہ پیرس معاہدے کے اہداف کو پورا کرنے کا شاید صرف ایک آخری موقع بچا ہے اور اس موقع سے آئندہ آٹھ سالوں میں ہی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے دہائی کے آخر تک اخراج کو کم از کم نصف کرنے کے لئے پالیسیوں اور اقدامات پر تیزی سے عمل درآمد لازمی ہے

آئی پی سی سی کی اس رپورٹ میں، سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ دنیا اپنے کلائمیٹ ٹارگیٹ کو کیسے پورا کر سکتی ہے۔رپورٹ واضح کرتی ہے کہ 2050 تک ‘نیٹ زیرو’ تک پہنچنے سے دنیا کو بدترین صورتحال سے بچنے میں مدد ملے گی۔

تاہم رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ ہم 1.5 یا 2 ڈگری کو پیچھے چھوڑ 2.7 ڈگری کے درجہ حرارت کی طرف بڑھ رہے ہیں ،ایک اور اہم بات جو اس رپورٹ سے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ نیٹ زیرو کے نام پر عموماً شجرکاری یا کاربن آفسیٹ کی بات کی جاتی ہے حالانکہ اصل ضرورت کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی ہے بجائے اس کے کہ مختلف سرگرمیوں کو فروغ دیکر اخراج کو بیلینس کیا جائے
اب یہ جاننا اہم ہوگا کہ اس تازہ رپورٹ میں سائینسی نقطہ نظر سے خاص نکات کیا ہیں تو آئیے ایسے ہی پانچ اہم سائنسی پیغامات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

(١)صاف اور قابل تجدید توانائی کی طاقت اور ذخیرہ سے چلنے والا توانائی کا عالمی نظام دنیا کے ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے مقابلہ آرائی کا بہترین موقع فراہم کرے گا۔ کم کاربن والی پالیسیاں اختیار کرنے والے ممالک کے اخراج میں کمی آئی ہے نیز قابل تجدید توانائی میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے ،2020 میں 280 گیگا واٹ نئی توانائی کا اضافہ کیا گیا جو گزشتہ سال کے بالمقابل 45 فیصد اضافہ ہے اور 1999 کے بعد سال در سال سب سے بڑا اضافہ ہے نیز اس کی قیمت میں تیزی سے گراوٹ جاری ہے

(٢)دنیا کو جیواشم ایندھن کے بنیادی ڈھانچے کے مرحلہ وار خاتمے کی طرف آگے بڑھنا چاہئے ،موجودہ بنیادی ڈھانچہ تن تنہا 1.5 ڈگری کے ہدف تک پہنچنا ناممکن بنانے کا اہل ہے، یہاں تک کہ اگر جیواشم ایندھن کی کوئی نئی توسیع نہ بھی ہو تب بھی موجودہ فریم ورک 2025 تک عالمی اخراج میں 22 فیصد اور 2030 تک 66 فیصد اضافے کا باعث بنے گا ،اس کے علاوہ موجودہ ڈھانچے کی وجہ سے دنیا 846 گیگاٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے لیے تیار ہے۔ اس وقت صورتحال ایسی ہے کہ کوئی نئی سرمایہ کاری نہ کرنے کے ساتھ ساتھ کوئلے سے چلنے والے تمام پاور پلانٹس کو 2040 تک بند کردیا جائے ،بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ موسمیاتی اہداف کو پورا کرنے کے لیے 2040 تک عالمی توانائی کے شعبے کا نیٹ زیرو ہونا ضروری ہے

(٣)سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پیرس معاہدہ کے اہداف کو پورا کرنا ممکن ہے، لیکن اس کے لئے مالیاتی سرمایہ کاری میں اضافہ کی ضرورت ہوگی، پیرس کے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے گرین ہاؤس گیس۔ بشمول میتھین اور دیگر قلیل مدتی گیسیں کی مکمل رینج میں تیزی سے تخفیف کی ضرورت ہے ،موسمیاتی صورتحال کی بہتری کے لئے تمام ممالک کی طرف سے کیا گیا رقم کا وعدہ پیرس میں سالانہ 100 بلین ڈالر کے وعدے سے بہت کم ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے مقابلہ آرائی اور روک تھام کے لئے اس فنڈنگ میں اضافہ مطلوب ہے

(٤) اہداف کو پورا کرنے کے لئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا سے خارج کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ IPCC کا نیٹ زیرو روٹ تیز رفتاری سے اخراج میں کمی پر زور دیتا ہے، بیشتر موجودہ کاربن ہٹانے والی ٹیکنالوجیز اب بھی یا تو انتہائی ناقابل اعتبار ہیں، یا حیاتیاتی تنوع اور غذائی تحفظ سے سمجھوتہ کرنے پر کامیاب ہوتی ہیں ،اگر صرف شجرکاری کے ذریعے 2050 تک نیٹ زیرو تک پہنچنا ہے تو کم از کم 1.6 بلین ہیکٹر زمین کی ضرورت ہوگی ،فی الحال، اخراج کو کم کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہے، اس لیے جب کاربن کے اخراج کی بات کی جائے تو کاربن کے اخراج کو روکنے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی کیونکہ کاربن کو ہٹانے کی موجودہ ٹیکنالوجی ایسی نہیں ہے کہ اس سے موسمیاتی اہداف کو پورا کرنے میں تعاون ملے

(٥)ہم فی الحال گرمی کو 1.5 ڈگری یا 2 تک محدود کرنے سے بہت دور ہیں۔ یہاں تک کہ اگر موجودہ پالیسیاں کامیاب ہوتی ہیں، تو وہ صدی کے آخر تک ہمیں 2.7 °C یا اس سے زیادہ درجہ حرارت کی طرف لے جائیں گی۔ پیرس معاہدے کو پورا کرنے کے لیے ہمیں مزید کچھ کرنا ہوگا۔

دنیا کے امیر ترین 10 فیصد ہی اکیلے کل اخراج کے نصف کے ذمہ دار ہیں، جب کہ دنیا کے غریب ترین افراد کا حصہ صرف 12 فیصد ہے۔ پالیسی سازوں کو گرمی کو 1.5 ° C تک محدود کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے

اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ 2030 تک اخراج میں کمی کرنے سے 1.5°C کا ہدف پہنچ سے باہر ہو جائے گا اور ہمارے سیارے کو مستقل آب و ہوا کے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگلے آٹھ سال اہم ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعاون بھی اہم ہے۔

ہندوستان کی صورتحال

گرین ہاؤس گیسوں کے کل عالمی اخراج میں بھارت کا حصہ تقریباً 6.8 فیصد ہے۔

ہندوستان کی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 1990 اور 2018 کے درمیان 172 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
2013 اور 2018 کے درمیان ملک میں فی کس اخراج میں بھی 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تاہم ہندوستان کے اخراج کی سطح اب بھی G20 ممالک کی اوسط سطح سے بہت نیچے ہے۔
توانائی کا شعبہ اب بھی ملک میں گرین ہاؤس گیسوں کا سب سے بڑا اخراج کرنے والا ہے۔

جیواشم ایندھن پر مبنی پلانٹس ہندوستان کی کل توانائی کی فراہمی میں 74 فیصد ہیں، جب کہ قابل تجدید توانائی کا حصہ 11 فیصد ہے۔
ملک کی موجودہ پالیسیاں اس وقت گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری تک محدود کرنے کے مطابق نہیں ہیں۔
اس کے لیے ہندوستان کو 2030 تک اپنے اخراج کو 1603 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ (MTCO2e) (یا 2005 کی سطح سے 16 فیصد نیچے) کے برابر رکھنا ہوگا

اچھی خبر: حکومت ہند کررہی ہے مختلف اقدامات ۔

حکومت ہند کا مقصد 2027 تک 275 GW قابل تجدید توانائی اور 2030 تک 450 GW نصب کرنا ہے۔ اگست 2021 تک ہندوستان کے پاس 100 GW قابل تجدید توانائی کی صلاحیت موجود ہے۔ مزید 50 گیگا واٹ کی صلاحیت اس وقت زیر تعمیر ہے اور 27 گیگا واٹ صلاحیت کے پلانٹ فی الحال ٹینڈر کے مرحلے میں ہیں
انڈین ریلوے سال 2023 تک اپنے نیٹ ورک کو برقی بنانے کے لئے منصوبہ بند ہے اور 2030 تک خالص صفر کاربن ایمیٹر بننے کے راستے پر ہے۔

پیٹرول میں 20 فیصد ایتھنول ملانے کے 2030 کو ہدف کو اب 2025 کر دیا گیا ہے۔کاربن کی قیمت: حکومت نے کوئلے کی پیداوار پر 400 روپے فی ٹن کی شرح سے جی ایس ٹی متعارف کرایا ہے۔
کلایمیٹ بجٹ: ہندوستان اصلا موسمیاتی مالیات فراہم کرنے کا پابند نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس نے گلوبل انوائرمنٹ فیسیلٹی (GEF) ٹرسٹ فنڈ کے ذریعے بین الاقوامی پبلک بجٹ فراہم کرنا جاری رکھا ہوا ہے

یہ بھی پڑھیں

گھر بیٹھے آدھار کارڈ میں اپنا موبائل نمبر یا نام، پتہ تبدیل کریں، جانیں یہ آسان طریقہ

आरबीआई ने पेटीएम पेमेंट्स बैंक को नए खाते खोलने से रोककर झटका दिया।

قومی ترجمان کا ٹیلیگرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button