مضامین

     ختم تراویح چڑھا ہوا دریا ہے یا رکا ہوا تالاب : ظفر امام

     تراویح کو آپ ذو لسانین (دو منہ والے) سے تشبیہ دے سکتے ہیں یعنی تراویح پڑھانے والے کو اگر قرآن یاد ہے، مشکل مقامات اس کے قابو میں ہیں اور متشابہات پر اس کی گرفت مضبوط ہے تو تراویح اس کے لئے اس وقت اس چڑھتے دریا کی طرح بن جاتی ہے جس کا سیل بنا کہیں رُکے جلترنگ بجاتا ہوا بہتا چلا جاتا ہے اور اگر تراویح پڑھانے والے کو قرآن صحیح طور سے یاد نہیں،کٹھن مقامات اس کے قابو میں نہیں اور آیاتِ متشابہات پر اس کی نظر عمیق نہیں تو پھر اس وقت تراویح اس کے لئے اس رکے ہوئے تالاب کی طرح بن جاتی ہے کہ جس میں اگر کنکری پھینکی جائے تو کچھ دور تک تو پانی کے ہلکورے چلتے ہیں پھر وہ ہلکورے یوں تھم جاتے ہیں جیسے اس میں کنکری ماری ہی نہ گئی ہو

”تراویح “ کا لفظ پہلی بار میرے کانوں سے اس وقت ٹکرایا تھا جب میں سن شعور کی دہلیز سے کافی دور تھا،تب ہمارے گاؤں میں کوئی حافظ نہیں تھا،ہماری مسجد میں ہر سال باہر کے کوئی حافظ صاحب آکر تراویح پڑھایا کرتے تھے،یہ وہ وقت تھا جب بھاگم بھاگی کا سایہ ابھی اس پر تَنا نہیں تھا،لوگ عام طور پر گھر ہی رہا کرتے تھے،تدین مزاجی لوگوں کے قلب و جگر میں رچی بسی ہوتی تھی،آج کی طرح لوگوں کا مزاج پیسے بٹورنے کا نہیں تھا،لوگ اطمینان سے تراویح سنتے اور رمضان کی پُر رونق ساعتوں اور پُربہار لمحوں سے اپنے جیب و داماں کو خوب لبریز کرتے۔

یہ بھی پڑھیں


   فوقانیہ اور مولوی 2022 امتحان کا رزلٹ جاری، یہاں چیک کریں نتائج

  اس وقت کی عورتیں بھی تراویح سننے کی کافی شوقین ہوا کرتی تھیں،اب دیہات کی مساجد تو اس سہولت سے محروم ہوا کرتی ہیں کہ عورتیں بھی کسی گوشے میں آکر نماز میں تراویح سنیں،سو اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر گاؤں محلے کی عورتیں مسجد کی اوٹ میں آکر کھڑی ہوجاتیں اور حسب توفیق قرآن کریم کی آیات سے اپنے دلوں کو فرحت بخشتیں،یہ سلسلہ کافی دنوں تک برقرار رہا،میں بھی کافی بعد میں چل کر جب تراویح میں قرآن سنانا شروع کیا تو ہمیشہ گاؤں کی عورتوں کا ایک ازدحام مسجد کی دیواروں کے سایے میں کھڑا پایا،اب بییتے چند سالوں سے یہ سلسلہ تھم سا گیا ہے،اور اس کے تھمنے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت عورتیں تراویح پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتی تھیں،اب الحمدللہ ہر گھر کی نئی پود میں تراویح پڑھنے کا رجحان پیدا ہونے لگا ہے۔
    

  مجھے یاد پڑتا ہے کہ پہلی بار سنِ شعور کے اُس پار والے زمانے میں میرے کانوں نے جس زبان سے ” تراویح “ کا لفظ سنا تھا وہ میری ایک تائی کی زبان تھی،تائی کی زبان سے تراویح کا لفظ سننے کے بعد میرے تصور میں یہ بات گرہ لگا کر بیٹھ گئی تھی کہ شاید تراویح پڑھانے والا قرآن کھول کر نون کے نقطے کی طرح ایک مرکزی جگہ لے کر بیٹھ جاتا ہے اور سننے والے نون کے حلقے کی طرح ہالہ بنائے اس کے گرد بیٹھ کر اس کے پڑھے ہوئے الفاظ کو آویزۂ گوش بناتے ہیں، یہ تصور کئی سالوں تک ذہن میں بیٹھا رہا۔

     ختم تراویح چڑھا ہوا دریا ہے یا رکا ہوا تالاب : ظفر امام . ختم تراویح.

  پھر وقت گزرتا گیا،مجھ میں کچھ شُدبُد آگئی،پاؤں چل کر مسجد جانے کا شوق ہمارے من میں بھی ٹھاٹھیں مارنے لگا،آنکھوں میں نیند کے خمار کو کچھ حد تک روکے رکھنے کی طاقت میسر آگئی تو ہم بھی اپنے بڑوں کے ساتھ رمضان کے مہینے میں تراویح کے لئے مسجد جانا شروع کردئے،تب جاکر معلوم ہوا کہ تراویح کیا ہوتی ہے؟ اور اسے پڑھی کیسے جاتی ہے؟لیکن اتنی خام عمر میں کھڑے ہوکر تراویح پڑھنا کوئی آسان کام تو نہ تھا،لہذا ہم شوق کے پروں سے اڑ کر مسجد تو چلے جاتے مگر ہم مکمل طور پر بڑوں کا ساتھ نہ دے پاتے، ہمارے بڑے تو تراویح پڑھتے اور ہم وہاں اپنا شغل میلہ سجاتے،جب لمبی تلاوت کے بعد امام رکوع کے لئے ”اللہ أکبر “ کہتا تب ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑے ہوتے،بسا اوقات آنکھوں کی پُتلیاں نیند سے اتنی بوجھل ہوجاتیں کہ ہم وہیں لڑھک جاتے،رمضان کی ان مقدس ساعتوں میں مسجد میں تراویح کے دوران سونے میں جو لذت ملا کرتی وہ لذت مسندِ خسروی میں بیٹھنے والوں کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔
       

کچھ سال اورگزرے تو اللہ نے کرم کیا کہ کچھ پارے میں نے حفظ کر لئے،اس کے بعد دو چار سال تک میں نے اپنی مسجد میں تراویح پڑھانے والےحفاظ کا خوب ساتھ نبھایا، ضرورت پڑنے پر ان کو کبھی کبھی لقمہ بھی دے دیتا،جب پہلے دن میں نے ایک حافظ کو لقمہ دیا تو گاؤں کی عورتوں میں کہرام مچ گیا کہ دیکھو اتنا چھوٹا سا بچہ کیسے آگے پڑھانے والے کی غلطی پکڑلیتا ہے ( اب معلوم ہوتا ہے کہ بھولنے کو غلطی کہنا یہ شاید تراویح سنانے والے حفاظ پر زیادتی ہو، کیونکہ تراویح میں مکمل قرآن سنانا کوئی گڈے اور گڑیوں کا کھیل تو نہیں) پھر ایک دن وہ آیا کہ اللہ کی توفیق سے میں خود تراویح پڑھانے کے لئے محراب میں بچھےمصلے پر جا کھڑا ہوا،الحمدللہ مجھے فخر ہے کہ میرے رب نے اس سیاہ کار کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ مجھ سے پہلے میرے گاؤں کا کوئی حافظ ہماری مسجد میں تراویح نہیں پڑھا سکا تھا۔
   

مجھے وہ رات آج تک یاد ہے کہ جس رات میں پہلی بار تراویح سنانے کے لئے محراب میں کھڑا ہوا تھا اس رات آسمان ابر آلود تھا،ہلکا ہلکا ترشح ( بارش) ہو رہا تھا،افق پر چھائی گھنگھورگھٹائیں رات کی سیاہی کو مزید بڑھا رہی تھیں، میری والدہ مرحومہ اور میرے والد پھولے نہیں سما رہے تھے،نہ جانے کتنے سالوں سے ان کے دلوں میں سنجوئے ہوئے ارمان اس رات برآرہے تھے،نہ معلوم کتنی راتیں انہوں نے اس رات کے لئے کروٹیں لگاتے گزارے ہوں گے،کتنی دعائیں ان کے لبوں پر آکر مچلی ہوں گی،میرے نانا جو میری پڑھائی کو لے کر کافی متفکر رہتے اور ہر دم اپنی دعاؤں سے نہال کرتے وہ اس رات کے آنے سے ڈھائی سال پہلے ہی دنیا کو چھوڑ گئے تھے۔


    

  اس کے بعدمسلسل تراویح سنانے کا عمل جاری رہا،گو کچھ ناگفتہ بہ حالات اور اپنی کاہلی کی وجہ سے بیچ کے دو ایک سال تراویح نہ سنا سکا،اس بیچ جہاں بھی تراویح سنانے گیا ہر جگہ اللہ کی مدد اور اس کی نصرت شامل حال رہی،دل میں یہ خوف ضرور دامن گیر رہتا کہ کہیں عُجب نہ آجائے، ریا نہ ہوجائے،اس کے لئے تراویح کے دوران ہی خدا سے معافی مانگتا رہتا،یہ اللہ ہی کا فضل رہا کہ جہاں بھی تراویح سنانے گیا کہیں بھی نامراد و ناشاد نہ ہوا بلکہ ہر جگہ خدا نے بامراد و شادکام کیا،سامعین نے خوب دادِ تحسین سے نوازا، اور ہر جگہ سے ایک چھاپ چھوڑ کر لوٹا۔
   

  مگر امسال کی تراویح اور سالوں کے مقابلے میں ذرا ہٹ کرتھی،سینکڑوں کی تعداد،شہر کا ماحول،نکتہ چینوں کی بہتات، اوپر سے آٹھ دنوں کی تراویح،دل میں ڈر اور خوف کے بادلوں کا امڈ آنا یقینی تھا،مگر چوں کہ سنانے والے دو تھے اس لئے اس کو لیکر تھوڑی سی ہمت تھی،سنانے کا تو اکیلے آٹھ دن کی تراویح سنا سکتا تھا،( اس سے پہلے ایک بار سنا چکا تھا اور دس دن کی سنانا تو اکثر اپنا معمول رہا ہی ہے)لیکن اکیلے میں قرآن کے ساتھ سوائے کھلواڑ کرنے کے کچھ نہیں ہوتا۔


بہار : اردو مترجم امیدواروں کے لئے اچھی خبر، کاؤسلنگ کے لیے دوسری فہرست جاری،کہیں اس میں آپ کا نام تو نہیں؟


   

تراویح کا آغاز چاند رات کو ہی ہوگیا،میں یہ کہنے میں بالکل عار محسوس نہیں کرتا کہ پہلے میں قرآن کافی تیز سناتا تھا،ہاں اتنا ضرور خیال رکھتا تھا کہ حروف نہ کٹیں،اور سامعین بآسانی حروف و اصوات سمجھ جائیں،لیکن پچھلے سال ایک ہمدرد ( مولانا حبیب الرحمن صاحب سلطان پوری) نے تھوڑی سی تنبیہ کی،اور قرآن کی حرمت کا خیال دلایا،جب سے میں نے بھی ٹھان لی تھی کہ اب دھیما پڑھنا ہے،مگر وہ کہتے ہیں نا کہ عادت جاتے جاتے جاتی ہے،اس لئے پہلے دن میں نے اور سالوں کے مقابلے اپنی رفتار حتی المقدور سُست رکھنے کی کوشش کی،مگر پھر بھی وہ تیز ہی رہی، اس کے برعکس میرے ساجھی (ساتھ پڑھانے والے) کی رفتار نسبتا کچھ کم تھی،سنایا تو میں نے بنا غلطی کے تھا،اور ان کی دو ایک غلطی بھی آئی تھی، سامعین نے دونوں کی تعریفیں کی مگر ان کی رفتار کو خوب سراہا ،پھر کیا تھا اگلے دن میں نے بھی رفتار انہی کی طرح دھیمی کردی،اور اخیر تک وہی رفتار رکھی،آٹھ دنوں کی تراویح کو پورا ہوتے ہوئے زیادہ انتظار کی زحمت نہیں اٹھانی پڑی،آٹھ دن کے بعد تراویح مکمل کرکے وہاں سے لوٹ آیا،اس بات سے بے خبر کہ وہ میرے پیچھے میری تعریفیں ہانکتے ہیں یا میری ہجوبیانیاں کرتے ہیں،تاہم اپنی ذات سے بھر پور کوشش رہی ہے کہ ان کو شکایت کا موقع نہ دوں،تراویح کی جگہ شہری فضاؤں میں لگانے کے لئے میں حضرت قاری مسعود اختر صاحب ( معاون ناظم عمومی دارالعلوم بہادرگنج) اور جناب مظہر الحق صاحب (ریٹائرڈ اسسٹنٹ ڈی ایم آفس) کا بہ صمیم قلب شکر گزار ہوں کہ ان کے توسط سے مجھے یہ زریں موقع فراہم ہوا۔

اخیر میں میں تراویح سنانے والے حفاظ کو اپنے پچھلے پندرہ سالہ تجربہ کی روشنی میں یہ بات بتادینا مناسب سمجھتا ہوں کہ تراویح سنانے اور سننے میں جو مزہ حدر میں سنانے میں ہے وہ فراٹے بھرنے کی رفتار میں نہیں،ایک تو اس میں قرآن کی روح مرجھا جاتی ہے اور دوسرے سامعین پر سے اپنا اعتماد اٹھ جاتا ہے،ویسے تراویح میں تھوڑا تیز پڑھا ہی جاتا ہے مگر اتنا تیز نہیں کہ حروف و اصوات سمجھ میں ہی نہ آئیں اور سامعین کو ایک نغمگی کی آواز کے علاوہ اور کوئی چیز سمجھ میں ہی نہ آئے۔
     

دوسری بات یہ کہ قرآن کے حوالے سے کبھی مطمئن نہیں ہونا چاہیے کہ مجھے تو بہت یاد ہے،میری غلطی کہاں آسکتی ہے وغیرہ،کیونکہ عموما دیکھا گیا ہے کہ گاڑی وہیں جاکر پھنستی ہے جہاں حافظ صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ ہماری گاڑی یہاں پھنس سکتی ہے،اس لئے دل میں ہمیشہ یہ خیال رکھا جائے کہ یہ ہم کوئی خود کے گھر کی کتاب نہیں سنا رہے بلکہ اللہ کا کلام پڑھ رہے ہیں،لہذا بھنور میں پھنسنے سے پہلے ہی سے ان سے ان کی نا خدائی کی طلب کرتے رہنا چاہیے اور خیال کی زبان پر ”ربِّ اِنِّیْ مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ “ ( اے رب میں تو مغلوب ہوں پس تو میری مدد فرما) کا ورد جاری رکھیں۔
   

اس عنوان پر اور بھی کئی باتیں ذہن میں ہیں،ان شاء اللہ زندگی رہی تو کسی موقع پر موئے قلم جنبش میں لائی جائے گی۔
  
                                  ظفر امام،کھجور باڑی
                                 دارالعلوم بہادرگنج
                            24/ رمضان ؁1443

یہ بھی پڑھ سکتے

قومی ترجمان کا ٹیلیگرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button