بہارمضامینویشالی

حجاب،نفع و نقصان،اورعدالتی فیصلہ

محمد امام الدین ندوی
مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالیحجاب اسلامی شعار ہے۔مسلم خواتین کے لئے لازم وضروری ہے۔آیات قرآنی اس پر شاہد ہے۔احادیث طیبہ میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔
حجاب خواتین کو وقار عطا کرتا ہے۔اس کی عصمت،وعفت،کا ضامن ہے۔اوباشوں سے حصار ہے۔بیمار دل انسانوں سےبچاؤ ہے۔

حجاب کےخلاف طرح طرح کےپروپیگنڈہ اور اشکال کئے جاتے رہےہیں۔باحجاب خواتین کو طعن وتشنیع کانشانہ بنایاگیاہے۔انہیں مختلف القاب سے بھی نوازا گیا۔قدامت پرستی،کا بھی لیبل لگا۔ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی تصور کیاگیا۔پر نیم عریاں لباس کو زینت،فیشن،جدت پسندی،آزادی،
میدان عمل میں برتری،قرار دیا گیا۔
اس آزاد خیالی نے عورتوں کےردائے حیا کو تارتار کردیا۔انسان نما درندوں نے موقعہ کا خوب فائدہ اٹھایا۔اور ان معصوم کلیوں سے خوب کھلواڑ کیا۔
بے حجابی کو خود مختاری،اورقیدوبند سے آزادی کا نام دیاگیا۔شرعی غلامی سے نجات کا نعرہ دیا گیا۔اس ذہنیت نے خواتین کو آزاد خیال بنادیا۔انہوں نے حجاب کو پامالی حقوق سمجھا۔آزادئ نسواں کے خلاف تصور کیا۔اس سے انسانیت کا جنازہ نکل گیا۔حیوانیت کادور دورہ شروع ہوگیا۔خواتین پر ظلم وستم شروع ہوگئے۔خواتین غیر محفوظ ہوگئیں۔ہر کوئی انہیں للچائی نظروں سے دیکھنے لگا۔بیمار دل انسانوں کی لاٹری لگ گئی۔
بے حجابی نے برائی کے دروازے کھول دئے۔ذلت و رسوائی کے دہانے کھل گئے۔معاشرے میں بے حیائی کے تیز وتند جھونکے چلنے لگے۔غیرت کا جنازہ نکل گیا۔بےغیرتی و بے حیائی فیشن بن گیا۔جسم کی نمائش،اور ناقص کپڑے زیب تن کرنا تہذیب بن گئی۔شرافت مٹ گئی۔رزالت خوبصورت شکل وشباہت میں گلے کا ہار بن گئی۔

آزادئ نسواں کے نام پر گھر کی زینت ،بازار کی رونق بن گئی۔درندوں کے ہوس کا شکار ہوگئی۔دنیا نے اسی کو ترقی کانام دیا۔
بےحجابی کی لعنت نے عورتوں کوغیر محفوظ بنا دیا۔ان کےتقدس کا جنازہ نکال دیا۔نیم عریاں لباس، تنگ وچست پوشاک،کٹے پھٹے کپڑے،جسمانی پوشیدہ ساخت کی رونمائی،خواتین کے جسم پرمردانہ لباس،نے درندہ صفت انسانوں کےآتش ہوس کو بجھانے میں بڑا رول ادا کیاہے۔منچلوں،بڑےباپ کی بگڑی ہوئی اور غیر مہذب سپوتوں،اونچےعہدوں پرفائزافرادکی اولادوں نے ،راہ چلتی بے پردہ دوشیزاؤں کے ساتھ کبھی انفرادی طور پر،تو کبھی اجتماعی طور،کبھی خفیہ طریقہ پر،تو کبھی اعلانیہ طریقہ پر،کبھی رضامندی کی صورت میں،توکبھی قہراوجبرا،عفت وعصمت کو
تارتار کرکے انسانیت کو شرمندہ کرنےکاکام کیا۔جب عفت وعصمت کا جنازہ نکل گیا۔غیرت مدفون ہوگئ۔باپ کی پگڑی سر سے گرگئی۔بھائی کاوقار داؤ پرلگ گیا۔صدمہ سے ماں کی حالت غیرہوگئی۔رشتہ داروں نے الگ کردیا اور اپنی نظروں سے گرادیا تو باپ ، بیٹی کوحق دلانےکےلئےکلیجہ تھام کر،بھائی ،بہن کےلئےرسوائی کوسرپر لئے ہوئے،ماں،سسکتی بلکتی،بیٹی کی لٹی ہوئی،چاک شدہ رداء حیا،لئے تھانہ پہونچتے ہیں اور مجرموں کے خلاف مقدمہ درج کرانا چاہتے ہیں تو تھانہ انچار مقدمہ درج کرنے سے یاتو سرے سے انکار کردیتا ہے یا ٹال مٹول سے کام لیتاہے۔مجرم اپنے اثرو رسوخ اور اقتدار،سیم وزر کی بنیاد پر تھانہ انچارج پر دباؤ ڈالتا ہے۔اور مقدمہ درج نہیں ہوتاہے۔

بیچارہ باپ منت سماجت،کرتا ہے۔پیر پکڑتاہے۔ہاتھ جوڑتا ہے۔بڑا بابو کے سامنے گڑگڑاتا ہے۔روتا بلکتا ہے۔لیکن کچھ نہیں سناجاتا۔وہاں مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔پورا قافلہ واپس گھر آجاتاہے۔
آگر صاحب معاملہ آگےقدم بڑھاتا ہےتو اسے راستے سے ہی ہٹادیاجاتاہے
بسا اوقات تنگ آکرپوارا کنبہ موت کے آغوش میں چلاجاتا ہے۔
جب اس حادثہ کی خبرسوشل میں گردش کرتی ہےتو فارم لیٹی نبھانے کے لئے پرساسن حرکت میں آتی ہے۔دھڑ پکڑ،دوڑا دوڑی کا ڈراما اسٹیج کیاجاتا ہے۔پھر معاملہ سرد خانہ میں ڈال دیا جاتاہے۔

حجاب نے خواتین کو عزت کی زندگی بخشا ہے۔ذلت کی موت سے بچایاہے۔سماج و معاشرہ کو پاکیزہ فضا عطا کیا ہے۔
ہرزمانہ میں حجاب کے دشمنوں نے اس کی مخالفت کھل کے کیا ہے۔اپنے دلی بھراس مٹانے اور اپنے ہم نواؤں کےتسکین قلب کے لئے حجاب کے خلاف کھل کے نعرے لگائے ہیں۔یہ خواتین کے ہمدرد نہیں ہیں بلکہ ان کے دشمن ہیں۔جب خواتین پر براوقت آتا ہے تو یہ نظر نہیں آتے ہیں۔
پچھلے دنوں کرناٹک میں مسکان نام کی لڑکی باحجاب اسائنمنٹ جمع کرنےاپنےکالج گئی۔بنی بنائی شازش کے تحت گیروا پگڑی باندھےکچھ درندے پہلےسےگیٹ پر کھڑے تھے۔لڑکی بچتے بچاتے اندر داخل ہوئی۔گاڑی کھڑی کرکے آگے بڑھی۔اچانگ درندوں کی بھیڑ اس پر ٹوٹ پڑی۔یہ بچی اپنی جان،عزت وآبرو،بچاتی ہوئی،اللہ واکبر کانعرہ بلند کرتی ہوئی،محافظ حقیقی،سے اپنی عصمت کی حفاظت کی بھیک مانگتی ہوئی ، رداءشرم وحیامیں لپٹی ہوئی آگے بڑھتی رہی۔اللہ تعالی ہی محافظ ہے۔

عزت و ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے۔وہی سب کی سنتا ہے۔اسی کی طاقت و قوت ہے۔وہی مصیبت زدوں کی مصیبت دور کرتا ہے۔خوشی ہو یا غمی،اسی سی لو لگانا چاہئے۔مسکان نے عین مصیبت میں اپنے محافظ حقیقی کو پکارا۔اللہ تعالی نےاس کی حفاظت کے لئےایک مشفق استاد کواس ڈھال بناکر بھیج دیا۔اس شفیق مہربان، روحانی باپ نے بیٹی کو ان درندوں سے دور رکھا۔اس استاد کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔اس استاد نے یہ ثابت کردیا کہ بیٹی کسی کی بھی ہو اس کی حفاظت ملک کےہر باوقار،غیور،مردوں کی ذمہ داری ہے۔اور یہی اس ملک کی خوبصورتی ہے۔جسےباقی رکھنا ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔

ہماری گودی میڈیا جو ان دنوں مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن ہے جس نے چندسکوں کی خاطر اپنی حقیقت،اور ضمیر کا سودا کرلیا ہےاسے موقعہ مل گیا اور اسے خوب خوب ہوا دی۔بحث و مباحثہ کااسٹیج گرم کرکے نادانوں،کج فہموں،دل ودماغ کے اندھوں،سے سوال جواب ہوئے۔یہ مسئلہ ہفتوں چلا۔

مسلمان بہت ہی نادان قوم ہے۔اس کی دور اندیشی ختم ہوگئی۔جذباتی پہلو غالب آگیا۔جب بھی کوئی شرعی کام ہوتا ہے اسے سب سے زیادہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ میں خوب تشہیر کی جاتی ہے۔اس طرح کی حرکت صاحب معاملہ کے لئے وبال جان بن جاتی ہے۔ہفتوں مختلف گروپ میں خبر گردش کرتی ہے۔مسکان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا مختلف تنظیموں نے انعامات دینے کا باضابطہ اعلان کیا اور انعامات بھی دئے۔یہ سب چیزیں حکومت کے حلق سے نیچے نہیں اتریں۔جن لوگوں نے حجاب کے حق میں عدالت میں عرضی دی تھی اسے کرناٹک ہائی کورٹ نے خارج کردیا۔
کالج انتظامیہ کو کیا سوجھا کہ اس نے باحجاب بچیوں کو الگ کردیا۔بچیوں نے احتجاج بھی کیں پر خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔

یونی فارم کی بات سامنے لائی گئی۔یونی فارم یونی ورسٹی میں نہیں ہونا چاہئے۔اور پونی فارم لاگو ہو تو تمام مذاہب کا خیال کرنا چاہئے۔کیونکہ اس میں ناسمجھ اور نادان بچے بچیاں نہیں جاتے بلکہ وہ اسٹوڈنٹس جاتے ہیں جو سن بلوغ سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ ان سب سے پرے سیاسی روٹی سیکنے کی پوری کوشش کی گئی۔چند ریاستوں میں انتخابات ہورہے تھے حجاب پر ڈیبیٹ نے ہندو مسلمان کرکے ووٹوں کی تقسیم می اہم رول اداکیا۔پورا ملک خواندہ بھی اور ناخواندہ بھی سب اس میں الجھ گئے۔حکومت اپنی شاطرانہ چال چلی اور کامیاب ہوگئ۔اس معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر ہوا۔بحث چلی۔مضبوط طریقے پر قرآن وسنت سے دلائل پیش کئے گئے۔پر جج صاحبان کو عدالت کی حرمت وتقدس سے زیادہ آقاؤں کی فکر رہتی ہے انہوں نےنیائے کےاس مندر سے حجاب کے مقدمے کوہی خارج کردیا۔کورٹ کو اسلامی اکسپرٹ سے تبادلہ خیال کرکے اس حساس مسئلہ کوسنجیدگی سےحل کرنا چاہئے تھا۔تاکہ آئین ہند کی لاج بچتی۔آئین ہند نےتو ہر اہل مذہب کواپنےمذہبی امور میں عمل کی آزادی دی ہے۔ایسا کچھ نہیں ہوا۔عرضی خارج کردی گئی۔اس سے واضح ہوگیا کہ کھونٹا وہیں گڑے گا جہاں ہماری مرضی ہوگی۔عدالت کا وقار رہے چاہے جائے۔بابری مسجد کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔سارے ثبوت کے باوجود فیصلہ مسجد کے حق میں نہیں آیا۔اس معاملے میں آستھا کا سہارا لیا گیا۔کاش حجاب کے معاملے میں بھی جج صاحبان ایسا کرتے۔
کورٹ کا فیصلہ اسلامی شریعت، انسانیت، اور دستور کے خلاف ہے۔جج صاحبان کواس پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنی چاہئے تاکہ لوگوں کااعتماد عدالت پر بحال رہے۔

عدالت ایک باوقار اور غیر جانب دار ادارہ ہے۔اس سے ملک کی سالمیت وابستہ ہے۔ملک کے ہرشہری کا اس پر اعتماد ہے۔یہ انصاف کا آخری منچ ہے۔امید کی آخری ڈور وہی ہے۔اگر یہاں انصاف کا جنازہ نکل گیاتو عدالت کے قیام،جج کی کرسی،وکلاء کی وکالت،سب بےسودہے اسے بند ہی کردینا چاہئے۔اس میں سودےبازی درست نہیں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button