فکر و نظر / مضامین و مقالات

تارکین وطن : مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی،نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

تارکین وطن

ایک طرف مرکزی حکومت سی اے اے کے نام پر زمانہ دراز سے رہ رہے لوگوں کی شہریت ختم کرنے کے نام پر قانون بنا چکی ہے ، دوسری طرف محکمہ وزیر داخلہ کے راجیہ منتری مرلی دھون نے پارلیامنٹ میں یہ اعداد وشمار پیش کرکے سب کو چونکا دیا ہے کہ بڑی تیزی سے ہندوستانی شہری یہاں کی شہریت ترک کررہے ہیں، ان کی اطلاع کے مطابق امسال ۲۰۲۲ءمیں ۳۱ اکتوبر تک ایک لاکھ تراسی ہزار سات سو اکتالیس (183741) لوگوں نے ہندوستانی شہریت ترک کر دی ہے ،

یومیہ حساب لگائیں تو معلوم ہوگا کہ ہر دن چھ سو چار (604)لوگوں نے ہندوستانی شہریت ترک کرکے دوسرے ملک کا رخ کیا، گذشتہ دس سال کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ سولہ (16)لاکھ سے زیادہ لوگوں نے ہندوستان چھوڑ کر دوسرے ملک کی شہریت اختیار کر لی ، امسال یہ تعداد دو سرے سالوں کے مقابل زیادہ ہے اور اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ نومبر دسمبر میں یہ تعداد دو لاکھ سے اوپر جا سکتی ہے ، شہریت اور ویزا دلانے والی مشہور کمپنی ہنری اینڈ پارٹنر س (H&P)کاکہنا ہے کہ ۲۰۲۰ءکے مقابلے ۲۰۲۱ءمیں شہریت حاصل کرنے کے لیے پوچھ تاچھ کرنے والوں میں چون فی صدی کا اضافہ ہوا ہے ۔

ہندوستانی شہریت کے تارکین میں سے چوالیس (44)فی صدی لوگ امریکہ کی شہریت اختیار کر ہے ہیں، مالدار اور کروڑ پتی لوگ سرمایہ کاری کرکے پہلے گولڈن ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور یہ گولڈن ویزہ بعد میں وہاں کی شہریت حاصل کر لینے میں مدد گارثابت ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں میں نوبل انعام یافتہ ابھی جیت بین جی، ہندی فلموں کے مشہور اداکار اکچھیہ کمار، برطانیہ میں سکونت پذیر سب سے مالدار انسان گوپی چند ہندوجا، امرت سر کی دی پِت نول کا نام لیا جا سکتا ہے، جنہوں نے غیر ملکی شہریت قبول کر لی ہے ۔

ہندوستان کی شہریت ترک کرنے کی وجہ دوسرے ملکوں میں کاروبار اور کام کے آسان شرائط ، محفوظ تجارتی معاملات بھی ہیں، ہندوستان میں دہری شہریت ؛اس لیے جو لوگ ہندوستان سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے ۲۰۰۶ءسے حکومت ہند نے اوور سیئر سیٹیزن انڈیا کارڈ (OCI)جاری کیا ہے،ا س کارڈ کے ذریعہ تارکین کو پوری زندگی ہندوستان میں رہنے، کام کرنے ، معاشی لین دین کی اجازت ہوتی ہے البتہ اسے ملکی سیاست میں انتخاب لڑنے ووٹ ڈالنے، سرکاری ملازمت یا سرکاری عہد وں پر تقرری اور غیر منقولہ جائیداد کو خرید نے کا حق نہیں ملتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button