مضامین

بہار میں بچوں کا ادب کل اور آج: ایک مطالعہ

کامران غنی صبا – شعبہ اردو نتیشور کالج، مظفرپور

ٹکنالوجی کی ترقی نے مطالعہ کے رجحان پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ وسائل کی فراوانی نے جہاں اخبارات و رسائل کی اشاعت میں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں ہمارا عہد قارئین کی قحط کا بھی شکار ہے۔ ادبی رسائل کی تعدادِ اشاعت دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔پی ڈی ایف کتب و رسائل کی آسان فراہمی نے خریداری کے رجحان کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایسے میں بچوں کا ادب بھلا کس طرح متاثر نہ ہو۔ موبائل اور اسمارٹ فون نے سب سے زیادہ نوجوانوں اور بچوں کی دلچسپیوں کو ہی متاثر کیا ہے۔ یہ شکایت اب بالکل عام ہے کہ نوجوان مطالعہ سے جی چراتے ہیں۔بچوں کے نہ جانے کتنے معیاری رسالے خریداروں کی کمی کی وجہ سے بند ہو گئے۔ ادارۂ الحسنات جو خاص طور پر کم عمر بچے اور نوجوانوں کے رسالوں کی اشاعت کے لیے مشہور تھا، اسے بھی حالات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ ’’نور‘‘، ’’بتول‘‘، ’’ہلال‘‘، ’’ہادی‘‘ جیسے معیاری رسائل موبائل اور اسمارٹ فون کی چمک دمک کے آگے مدھم پڑ کر بلاخر بند ہو گئے۔

ادب اطفال کے فروغ میں صوبۂ بہار کی بڑی خدمات رہی ہیں لیکن یہاں سے نکلنے والے تمام رسائل بھی رفتہ رفتہ بند ہوتے گئے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بہار سے بچوں کا کوئی بھی رسالہ شائع نہیں ہو رہا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’بہار میں بچوں کا ادب کل اور آج ایک مطالعہ‘‘ اسی حوالے سے ترتیب دی گئی ہے۔ اس کے مرتب جواں سال ادیب و صحافی ڈاکٹر منصور خوشتر ہیں۔ ڈاکٹر منصور خوشتر کا نام ادب و صحافت کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ حالیہ چند برسوں میں سرزمین دربھنگہ سے ادب و صحافت کے فروغ کی جو تحریک ڈاکٹر منصور خوشتر نے شروع کی ہے اس کی گونج عالمی سطح پر سنی جا رہی ہے۔ملک و بیرون ملک میں ان کے کاموں کو قدر کی نگاہ دیکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ 7مارچ 2021ء کو المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، دربھنگہ کی طرف سے ایک سمینار بعنوان ’’بہار میں بچوں کا ادب کل اور آج‘‘ کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس سمینار میں ہی اسی موضوع پر ڈاکٹر منصور خوشتر کی ترتیب کردہ کتاب کا اجرا بھی عمل میں آیا۔

اس کتاب میں کل 19مضامین شامل ہیں۔مرتب نے ’’اپنی بات‘‘ کے عنوان سے گفتگو کا آغاز اس طرح کیا ہے: ’’بہار میں بچوں کا ادب لکھا گیا ہے لیکن تنقیدی نظر ڈالنے کی پہل بہت کم ہوئی ہے۔‘‘ یہ بات بہت حد تک صرف بہار ہی نہیں بلکہ ادب اطفال کے حوالے سے عمومی طور پر مبنی پر حقیقت ہے۔ ادب اطفال کو کسی زمانے میں لائقِ اعتنا نہیں سمجھا گیا ہے۔ ہمارے بعض بڑے ادبا نے قصداً ادب اطفال کی طرف توجہ سے گریز کیا۔ تنقید کا معاملہ تو اس سے بھی آگے کا ہے۔

اس کتاب میں شامل سب سے پہلا مضمون پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا ہے۔ مضمون کا عنوان ہے ’’بہار میں ادب اطفال کا آئینہ‘‘ ۔ بہار میں ادب اطفال کے حوالے سے اس سے زیادہ تفصیلی اور جامع مضمون میری نظر سے کہیں اور نہیں گزرا۔ پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنے اس مضمون میں بہار میں ادبِ اطفال کی پوری تاریخ سمیٹ کر رکھ دی ہے۔ اس مضمون سے بعض اہم تاریخی حقائق کا علم ہوتا ہے ہے مثلا:

’’ بہار میں بچوں کے شاعر کی حیثیت سے پہلا نام عبدالغفور شہباز کا ہے۔ ان کی پیدائش پٹنہ ضلع کے ’سر میرا‘گائوں میں 1858 ء میں ہوئی اور انتقال 30نومبر 1908ء کو کلکتہ میں ہوا۔‘‘ (صفحہ 20)
’’ابتدائی دور میں بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھنے والوں میں سید غلام رسول قوس(کابلی)، ناظم میواتی( تاروں سے)، سر سید کے ہم عصر صغیر بلگرامی(سپاہی کی بیٹی)، رسا ہمدانی گیاوی(جھولا)، سید اجتبیٰ حسین رضوی(تتلی) وغیرہ اہم ہیں۔‘‘(صفحہ22 )

’’ضیا الرحمن غوثی نے 1949 میں ’کہکشاں‘ کے نام سے بچوں کا قلمی ماہنامہ نکالا۔ بہار کا یہ پہلا قلمی ماہنامہ بچوں کے لیے تھا۔ بعد میں انہوں نے پریس سے چھپوا کر ماہنامہ’ مسرت ‘پٹنہ سے نکالا۔ اس کا پہلا شمارہ دسمبر 1966 میں منظر عام پر آیا۔‘‘(صفحہ 23)

’’ اس (کہکشاں) سے قبل بہار شریف سے ’تربیت‘ نام کے ایک مجلہ کے بارے میں ایک مضمون میں ذکر ہے کہ شائع ہوا تھا۔ یہ 1931کی بات ہے لیکن تربیت کی کاپیاں کہیں دستیاب نہیں ہوئیں۔‘‘(صفحہ23)
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا دوسرا مضمون ’’بچوں کے لئے عبدالمنان طرزی کی نظموں میں کیفیت کی تشریح‘‘ کے عنوان سے ہے۔ پروفیسر عبدالمنان طرزی کا شمار بزرگ اور استاد شعرا میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے بچوں کے لیے بہت ساری نظمیں کہی ہیں۔ ان کی نظموں کی کیفیتوں کی تشریح پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے قلم سے ہوتی ہے تو ایک نیا لطف محسوس ہوتا ہے۔

پروفیسر ثوبان فاروقی کا شمار اردو کے معتبر ناقدین اور شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی سب سے پہلی کتاب ’’رحمان کے کارنامے‘‘ بچوں کی جاسوسی کہانیوں پر مشتمل ہے۔ شاہد جمیل نے اپنے مضمون ’’بچوں کے لیے ثوبان فاروقی کی جاسوسی کہانیاں‘‘ عنوان کے تحت اس مجموعہ میں شامل کہانیوں کا معروضی جائزہ پیش کیا ہے۔ شاہد جمیل لکھتے ہیں:

’’ان کہانیوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف منطق (Logic)، عقل سلیم (Common-Sense) اور سائنسی معلومات پر زبردست نگاہ رکھتا ہے۔ میں نے اردو میں بچوں کی بہتیری کہانیاں پڑھی ہیں، یہاں تک کہ مہماتی اور سائنسی کہانیاں بھی ، لیکن اس نوع کی جاسوسی کہانیاں نہیں دیکھیں۔‘‘(صفحہ 44)
حقانی القاسمی نے اپنے مضمون ’’بچوں کے ظفر کمالی‘‘ میں ادب اطفال کے تعین قدر کے لیے قاری اساس تنقید کی طرح طفل اساس تنقید کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے :
’’بیشتر باشعور افراد اس سے اتفاق کریں گے کہ صرف وہی نظمیں اور کہانیاں زندہ رہیں گی جن پر بچوں کی پسند کی مہر ثبت ہوگی۔ بڑے بڑے نقادان فن چاہے کسی کی نظموں اور کہانیوں کو بلند پایہ اعلیٰ ارفع قرار دے دیں مگر جب تک بچوں کی پسند کے معیار پر وہ نہیں اتریں گی تب تک ان نظموں اور کہانیوں کو زندگی و تابندی نصیب نہیں ہوگی۔(صفحہ 45)
حقانی القاسمی نے مختلف حوالوں سے ظفر کمالی کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی نظموں کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی شعری انفرادیت پر روشنی ڈالی ہے تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں :
’’ظفر کمالی کے یہاں ترنم بھی ہے، تنوع بھی ہے مگر ان کی نظمیں طویل ہوتی ہیں اس لیے شاید بچوں کے لیے یاد کرنا آسان نا ہو۔ اگر وہ اختصار سے کام لیں تو ان کی نظموں میں ایسی مقناطیسی کیفیت ہے کہ بچے انہیں اپنے حافظے کا حصہ بنانا پسند کریں گے۔‘‘(صفحہ 50)
ڈاکٹر سید احمد قادری نے اپنے مضمون میں بہار میں تاریخ ادبِ اطفال کا ایک عمومی جائزہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے مختلف زمانے میں بہار سے نکلنے والے بچوں کے رسائل کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ بہار میں ادب اطفال کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
بچوں کے جن رسالوں نے نونہالوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ان میں ایک اہم نام رسالہ ’’مسرت‘‘کا ہے۔پروفیسر ایم جے وارثی نے اپنے مضمون ’’ادب اطفال اور رسالہ مسرت‘‘ میں اس رسالے کی خدمات پر بہت ہی معروضی انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ مضمون نگار نے اس وقت کے نائب صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین اور سخت گیر تنقید کے لیے مشہور کلیم الدین احمد کے حوالوں سے ’’مسرت‘‘ کی مقبولیت کو واضح کیا ہے۔

جمال اویسی ہم عصر اردو شاعری اور تنقید کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب میں ان کا ایک مضمون ’’بچوں کا ادب(کیوں، کیسے اور کس لیے) شامل ہے۔ جمال اویسی ایک دوراندیش تخلیق کار، سنجیدہ استاد اور باشعور ناقد ہیں۔نئی نسل کی ادب سے دوری اور مستقبل میں ادب اطفال کے حوالے سے ان کے اندیشے غلط نہیں کہے جا سکتے۔ ان کے مضمون کا اختتام اس سوال پر ہوتا ہے:

’’میری یہ تشویش کہ ٹیکنالوجی کے دور میں ادب اطفال کے ثبات کو خطرہ ہے تو کیا اس اندیشہ کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں؟‘‘(صفحہ 77)
میری سمجھ سے اگر ٹکنالوجی کو فروغِ ادب کے لیے رکاوٹ نہ سمجھ کر اسے فروغ ادب کا ذریعہ بنا کر پیش کیا جائے تو بہت سارے مسئلے حل کیے جا سکتے ہیں۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی نئی چیز کو جلد قبول کرنا نہیں چاہتے۔ جس زمانے میں ٹیلی ویژن کی شروعات ہوئی تھی اس وقت بھی یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ نو عمروں پر اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک زمانے تک باشعور طبقہ بھی ٹیلی ویژن کی افادیت کو چھوڑ کر صرف اس کے منفی پہلو سے خوف زدہ رہا۔ بعد میں لوگوں نے سمجھا کہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ بھی بہت سارے تعمیری کام کیے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ جب ٹی وی کے ذریعہ تاریخی، اخلاقی اور مذہبی سیریلز شروع ہوئے تو نہ صرف انہیں خوب پسند کیا گیا بلکہ ان کے ذریعہ زبان و ادب، تہذیب و تمدن اور تاریخ سے نئی نسل کو روشناس کرانے میں مدد بھی ملی۔ آج بھی اگر موبائل اور اسمارٹ فون کو ادب کی ترقی کی راہ میںرکاوٹ نہ سمجھ کر انہیں ادب کے فروغ کا ذریعہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جائے تو جدید ذرائع ابلاغ بھی ادب کی ترویج و ترقی کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ دیر سے ہی سہی اس سمت بھی مثبت پیش رفت بھی ہونے لگی ہے۔انٹرنیٹ پر بچوں کے کارٹون، اخلاقی اور مذہبی کہانیوں کی سیریز ، شعرا و ادبا کا تعارف ، ان کی تخلیقات اور کلام وغیرہ موجود ہیں۔

بہار میں جو لوگ بچوں کے لیے تواتر کے ساتھ لکھتے رہے ہیں ان میں ایک اہم نام ڈاکٹر عطا عابدی کا ہے۔ بچوں کے ادب پر ڈاکٹر عطا عابدی کی گہری نظر ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون ’’بچوں کی کتابیں(تعارف و تذکرہ) میں بچوں کی بعض اہم کتابوں پر روشنی ڈالی ہے۔ ادب اطفال تخلیق کرنے والے تخلیق کاروں میں ایک بڑا نام پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا بھی ہے۔ڈاکٹر امام اعظم نے اپنے مضمون میں پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی سبق آموز کہانیوں کا جائزہ پیش کیا ہے۔

کتاب میںشامل دیگر مضامین بھی قابل مطالعہ ہیں۔ تفصیل سے گریز کرتے ہوئے صرف عنوان اور مصنف کا نام درج کر رہا ہوں۔
ادب اطفال میں شاہد جمیل کا مقام: رفیع حیدر انجم
بچوں کے ادب میں کہانیاں: ڈاکٹر قیام نیر
بچوں کے شاعر ذکی احمد چندن پٹوی: ڈاکٹر احسان عالم
بہار میں بچوں کا ادب (ثوبان فاروقی، ذکی احمد، عبدالمنان طرزی، مناظر عاشق ہرگانوی، عطا عابدی، احسان عالم، جمیل اختر شفیق اور انظار احمد صادق کے حوالے سے): ڈاکٹر عارف حسن وسطوی
اکیسویں صدی میں بچوں کا ادب: سمت و رفتار ابرار احمد اجراوی
نسل نو کا معمار امان ذخیروی: فرزانہ فرحت
بچوں کسے سنگ: ڈاکٹر مستفیض احد عارفی
منصور خوشتر کا ادب اطفال: ڈاکٹر صالحہ صدیقی
بہار میں ادب اطفال کے نمائندہ قلم کار: غلام نبی کمار
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی بچوں کے ادیب: ڈاکٹر محمد پرویز
تمام مضامین اپنے موضوعات کے اعتبار سے اہم ہیں۔البتہ ادب اطفال کے بعض اہم گوشے اس کتاب میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں۔ مثلاً ادب اطفال کے فروغ میں صرف رسالوں کا ہی نہیں اخبارات کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ آج کے دور میں کہ جب بچوں کے بڑے بڑے رسالے بند ہو گئے ہیں، اخبارات ہی اس کمی کو کسی حد تک پورا کر رہے ہیں۔ بہار سے نکلنے والے اخبارات میں روزنامہ قومی تنظیم، روزنامہ فاروقی تنظیم ، روزنامہ راشٹریہ سہارا، روزنامہ انقلاب وغیرہ وہ اخبارات ہیں جن میں ہر ہفتے بچوں کا گوشہ شائع ہوتا ہے۔ قومی تنظیم بہار کا سب سے کثیر الاشاعت روزنامہ ہے۔ اس میں ہر جمعرات کو بچوں کا صفحہ شائع ہوتا ہے اور کافی پسند بھی کیا جاتا ہے۔ اس صفحے کو یحییٰ فہیم ترتیب دیتے ہیں۔اسی طرح فاروقی تنظیم میں بچوں کا صفحہ عبدالدیان شمسی ترتیب دیتے ہیں۔ جس طرح ادب اطفال کے فروغ میں رسالوں کے مدیران کا کردار اہمیت کا حامل ہے اسی طرح اخبارات کے ذمہ داران بھی ادب اطفال کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ان کے ذکر کے بغیر ادب اطفال کا کوئی بھی جائزہ مکمل نہیں ہو سکتا ہے۔

زیر نظر کتاب میں زیادہ تر مضمون نگاروں نے مسائل کی جانب نشاندہی کی ہے۔ان مسائل کو کس طرح حل کیا جا سکتا ہے ، اس حوالے سے تشفی بخش گفتگو کا نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آج کا دور ٹکنالوجی کا دور ہے۔ ٹکنالوجی سے منھ موڑ کر ہم زندگی کے کسی بھی شعبہ میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اردو کے بڑے اداروں کو چاہیے کہ وہ جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ادب اطفال کو نہ صرف زندہ رکھنے بلکہ اسے فروغ دینے کی کوشش کریں۔ انٹرنیٹ پر بچوں کے لیے ڈجیٹل کتابیں، کارٹون سیریز، اخلاقی اور سبق آموز کہانیاں، اقوال، کوئز، انعامی مقابلے، شعرا و ادبا کا تعارف وغیرہ دستیاب کرایا جائے۔ اس کے لیے زبان و ادب پر دسترس رکھنے والے افراد کی مدد لی جا سکتی ہے۔

مجموعی اعتبار سے ڈاکٹر منصور خوشتر کی ترتیب دی ہوئی کتاب ’’بہار میں بچوں کا ادب کل اور آج‘‘ بچوں کے ادب کے حوالے سے ہمیں دعوت غور و فکر دیتی ہے۔اس کتاب میں مضمون نگاروں نے تاریخی حقائق پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس حوالے سے یہ کتاب دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔ ساتھ ہی ادب اطفال کی راہ میں حائل جن رکاوٹوں کا اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے، ان پر اگر سنجیدگی سے غور و خوص کرنے کے بعد ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ مرتب کی بڑی کامیابی ہوگی۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس سے شائع ہونے والی 216 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 300 روپے ہے۔

رابطہ مرتب:9234772764

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button