اہم خبریںمضامین

بہار اسٹیٹ اردوٹیچرس ایسوسی ایشن کی کہانی۔میری زبانی۔ ✍️محمد نظر الہدیٰ قاسمی

بہار اسٹیٹ اردوٹیچرس ایسوسی ایشن کی کہانی۔میری زبانی

✍️محمد نظر الہدیٰ قاسمی
نوراردولائبریری حسن پور گنگھٹی،بکساما،مہوا،ویشالی
8229870156 ۲۰۱۸ءکی بات ہے کہ سرکارکی طرف سے غیر تربیت یافتہ اساتذہ کو خصوصی تربیت دینے کی بات بہار سرکار کی طرف سے آئی، اور سرکار نے یہ بھی کہا کہ اگر اساتذہ نے تربیت نہیں لی تو پھر وہ ہمارے بچوں کو پڑھانے کے مجازنہیں ہوں گے، سرکاری طور پر تدریس کے ساتھ دو سالہ تربیت کو اٹھارہ مہینہ میں مکمل کرانے کی بات طے ہوئی، تربیت دینے کی ذمہ داری جس ادارے کو دی گئی اس کا نام نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ(N I O S )ہے،ذی ہوش اساتذہ نے خواہ وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری اس سے جڑ کر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی، کچھ دن گذرنے کے بعد نصاب سے منسلک مواد کی ضرورت پیش آئی، این آئی او ایس کے ویب سائٹ پر اسے تلاشنے کی کوشش کی گئی، اس ویب سائٹ پر دیگر زبانوں میں مواد کی فراوانی تھی؛ لیکن اردو میں نہ ہونے کی وجہ سے ہم جیسے لوگوں کو مایوسی ہاتھ لگی، محبان اردو میں ایک طرح کی بے چینی پھیل گئی، سب لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا اردو زبان اس لائق نہیں کہ اس زبان میں بھی مواد فراہم کیا جائے، عجیب طرح کی کشمکش تھی، درد کا احساس تو اردو کے ہر جیالے کو ہوا؛ لیکن درد سے بے چین ہوکر تن من دھن کے ساتھ کٹیہار کے ایک مردمجاہداردوکے عاشق زار نے ابتدائی طور پر این آئی او ایس میں درخواست دے کر معاملہ کا حل چاہا؛ لیکن جب کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا انصاف کی امید لے کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا نے کا ارادہ کیاگیا، محبان اردو سے انہوں نے باہمی مشورہ کیا اور طریقہ کار پر غور و خوض کرنے کے بعد عدالت کا رخ کیاگیا۔مشورہ کی حد تک محبان اردونے ساتھ بھی دیا؛ لیکن اب باری تھی وقت دے کون؟ اس سوال پرایسا لگا کہ پوری اردو آبادی کو سانپ سونگھ گیا، سب لوگ چپی سادھےبیٹھ گئے،ایسے میں اردو کے اس عاشق نے اردو کے ساتھ ہورہے ناانصافی کی گوہار لگائی، محبان اردو کو للکارا،اردو زبان کے ساتھ ہورہی ناانصافی کی دہائی دی، دامن پھیلا کر گڑگڑا کر لوگوں سے ساتھ آنے کی بھیک مانگی،پھر انفرادی طور پر لوگوں سے رابطہ کرکے کندھا میں کندھا ملا کر چلنے کی گزارش کی لیکن مختلف حیلہ بہانہ بناکر مصلحت و حکمت کی چادر تان کر خواب خرگوش میںپڑے رہنے میں ہی عافیت محسوس کی، ہم میں سے کوئی بھی جانی و مالی طور اس عاشق کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھاسب کی سوچ یہ تھی کہ ہم تو سرکاری نوکری والے ہیں، ہم کیسے وقت دیں، اسی درمیان میری نظر سے بھی یہ پیغام گذرا کہ اردو کی لڑائی کے لیے ایک شخص بہت بے چینی کے ساتھ اردو کو انصاف دلانےکے لیے کاسہ گدائی لیے اردو والوں کے ہی درمیان دربدر بھٹک رہا ہے، اس پیغام کو دیکھنے کے بعد میرے ضمیر نے میرے اندر ہل چل پیدا کردی، میں تھوڑی دیر کے لئے سوچنے لگا کہ اپنے کام کے لئے اپنوں کے درمیان ہی دامن پھیلانا پڑ رہا ہے اور کامیابی ندارد۔میں نے سوچا کہ انگلی کٹاکر شہیدوں میں نام درج کرانے کا موقع اچھا ہے،بغیر سوچے سمجھے اردو کے اس عاشق کو فون کیا جس کی درد اور بے تابی کو سوشل میڈیا پرکچھ دنوں سے محسوس کررہا تھا، علیک سلیک کے بعد ان کی باتوں کو غور سے سنا،جس میں درد،کرب،بے چینی،گھریلو الجھن سے گھرا، اپنوں کے طعن و تشنیع سے نالاں، حالات سے دوچار، شکوہ و گلہ کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا، میں نے ان کی بات سن کر کہا کہ آپ کو میری ضرورت جب اور جس وقت پڑے رات کی تاریکی اور دن کے اجالے کی پرواہ کئے بغیر میں اردو کی خدمت کے لئے اس مشن کا حصہ بننے کے لئےتیار ہوں، آپ جس وقت چاہیں مجھے حکم دیں ان شاءاللہ میں اسے کر گزروں گا۔اس جملہ سے انہیںتقویت مل گئی،عدالت میں ساتھ جانے کے لیے یکے دیگرے فیروز عالم چمپارن،محمد محسن بھاگلپور،عبد العلیم کٹیہار اور احقر شریک ہوگیا۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
مجروح سلطان پوری
حقیقت یہ ہے کہ اردوکے عاشق کو ذاتی طور پر میں جانتا اور پہچانتانہیںتھا؛ بلکہ اردو کی محبت میں اردو کی تئیں ان کے خلوص و جذبہ کو دیکھتے ہوئےمیں ان سے منسلک ہوگیا۔
میں نے خوش ہوکر اس خدمت کا تذکرہ اپنے دوست و احباب سے کیا تو بجائےحوصلہ افزائی کے مایوسی ہاتھ لگی، اور حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے انہوں نے کہا کہ تم نے جس خدمت کی حامی بھری ہے وہ ایک پرُ خطر راہ ہے، این آئی او ایس سرکارکے ماتحت چلنے والا ایک ادارہ ہے اور تمہیں عدالت میں سرکار کی مخالفت میں مدعی بنایا جائے گا، تم جس ادارے سے جڑے ہو وہ سرکاری ہے، نتیجہ کیا ہوگا تم خود سمجھ لو،ان حوصلہ شکن جملوں سےظاہری طور پرمیں بھی کشمکش میں مبتلا ہو گیا،لیکن میرا ضمیر مطمئن تھا، اور ہم نے تہیہ کرلیا تھا کہ حالات کتنے بھی ناگفتہ بہ ہوں اپنی بات منواکر ہی دم لیں گے۔میں نے والد گرامی قدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ کے سامنے معاملہ کی پوری نوعیت رکھی اور یہ بھی کہا کہ میں نے جن کو اردو کی اس لڑائی میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے ان کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا، صرف اردو دوستی کی وجہ سے میں یہ خدمت انجام دینا چاہتا ہوں، خاموشی سے تمام باتوں کو سنتے رہیں اخیر میں انھوں نے کہا کہ”اگر تمہاری ذات سے کسی کا بھلا ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے” میرے ذہن و دماغ میں جو ہلکا سا خلجان تھا وہ وہ ختم ہوگیا، اور میں کلی طور پر اس خدمت کے لئے کمر بستہ ہوگیا۔
اب معاملہ ہائیکورٹ میں این آئی او ایس کے خلاف اردو کے ساتھ ہورہے ناانصافی کے تعلق سے مدعی بننے کا تھا،اس اردو کے عاشق کی بات پر میں ہمت کرکے صبح صبح عدالت کی طرف چل پڑا،راستہ میں عدالت کے تعلق سے مختلف طرح کی باتیں آرہی تھیں، جسم کانپ رہے تھے، دل میں اس کا رعب و دبدبہ، اندر سے سہما ہوا ،عجیب طرح کی کیفیت سے دوچار، دوپہر کی تپتی دھوپ میں کورٹ کے اگلے دروازہ پر پہنچا،دائیں طرف عدالت کا نگراں بندوق تانے پوری چابکدستی کے ساتھ اپنی خدمت پر مامور تھا، اور دوسری جانب ٹوپی کرتے میں ملبوس کچھ احباب اپنی نظر چاروں جانب دوڑا رہے تھے،میں قریب پہنچا علیک سلیک ہوئی، بات چلی تو ایک صاحب نے کہا کہ گوپالگنج سے ایک صاحب اور آنے والے ہیں، انہیں کا انتظار ہے، کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ کسی ذاتی عذر کی وجہ سے آنے سے قاصر ہیں،اس دن معاملہ یوں ہی رہ گیا،میں کھائےپیئے بغیر اردو کی محبت میں دوڑ پڑا تھا، بھوک کی شدت اور عدالت کے خوف نے میرے چہرہ پر بارہ بجا رکھے تھے، میری ظاہری ہیت کو فیروز بھائی (پٹنہ) نے اپنی دوراندیشی سے بھانپ لیا اور انھوں نے کھانے کی پیشکش کی، میں بھی بلا چوں چرا، مرتا کیا نہ کرتا حامی بھر لی اور خوب شکم سیر ہوکر کھایا اور پھر وہاں سے رخصت ہوگیا،کچھ دن گزرنے کے بعداچانک پھر اس عاشق کا فون آیا کہ آپ کو فلاں دن،فلاں تاریخ اور فلاں جگہ وکیل صاحب سے مطلوبہ شناختی پہچان کے ساتھ ملاقات کرنی ہے، میں مطلوبہ شناختی پہچان کے ساتھ وکیل صاحب کے پاس حاضر ہوا، وہاں پہنچا ہی تھا کہ فیروز بھائی چمپارنی سے ملاقات ہوئی، گفت و شنید کے بعد معلوم ہوا کہ ہم دونوں کی آمد کا مقصد ایک ہی ہے، ضروری کاغذات دینے کے بعد ہم لوگ اپنے اپنے منزل کو روانہ ہوگئے، پھر عدالت کے چکر کا سلسلہ چل پڑا آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ عدالت کی کارروائی مختلف مراحل میں طے ہوتی ہے،عدالت کا کام ایک مرتبہ میں نہیں ہوتا؛ بلکہ کتنی آزمائشوں کے بعد امید جاگتی ہے،میں تو اردو کا عاشق ہی تھا اور عاشق کو تکلیف و آزمائش سے گزرنا ہی پڑتا ہے ، اس کا اندازہ جگر مرادآبادی کے اس شعر سے لگا سکتے ہیں۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے
عدالت میں اردو کے انصاف کے لیے درخواست دے دی گئی تھی، وکیل کا محنتانہ چند قسطوں میں ادا کرناتھایہ بہت حساس معاملہ تھا ،رقم کی تنگی کی وجہ سے اب چندہ اکٹھا کرنے کی بات سامنے آئی،اور کسی کی جیب سے رقم نکلوا نا یہ کتنا مشکل فن ہے اس کا اندازہ تو صحیح معنوں میں مولوی برادری ہی کو ہے،بہر حال اس مردِ مجاہد نے میدان میں کود کر لوگوں سے فریاد کی، اجتماعی و انفرادی طور پر لوگوں سے مدد کی گوہار لگائی لیکن محبان اردونے ابتدائی طور پر اس مرحلہ میںانہیں بری طرح سے مایوس کیا، جب مجھے احساس ہوا کہ اس عاشق پر لوگ مدد کرنے کے بجائے طعن و تشنیع کے پتھر برسا رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ تھک ہار اور مایوس ہوکر بیٹھ جائیں یہ بھی، میں فون کرکے انہیں انبیاء و رسل،اور اکابر کے حالات کا حوالہ دیکرتسلی دیتا رہا کہ جب انسان کسی سماجی کام کے لئے میدان میں کودتا ہے تو ان حالات سے دوچار ہونا ہی پڑتا ہے،اس طرح دلاسہ دیکرانہیں تیار کرتا اور پھر میدان میں ڈٹے رہنے کی ترغیب کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کی پیشکش کرتا۔
اخیر میں جب بہار سے وکیل کی مطلوبہ رقم حاصل نہیں ہوپائی تو بنگال کے چند مخلصین کے سامنے بات رکھی گئی اور بنگال کے غیور محبان اردو نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔پھر ایک وقت وہ آیا کہ اردو کے انصاف کی لڑائی میں محبان اردوکو کامیابی ملی ،جب میں ڈی ایل ایڈ کا امتحان دینے کے لیےامتحان گاہ میں بیٹھا اوراردو میں سوالات سامنے آئے تو میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور ضمیر نے آواز دی کہ جب انسان اخلاص و للہیت اور شہرت پسندی کی ہوس سے نکل کر خاموشی کے ساتھ کوئی کام انجام دیتا ہے تو اس میں کامیابی ضرور ملتی ہے۔
میں بہار اسٹیٹ اردوٹیچرس ایسوسی ایشن کا حصہ اس وجہ سے ہوں کہ اس تنظیم سے جڑے تمام محبان اردو بلا تفریق و مذہب و ملت مخلص ہیں،ہمارے اکابر اس تنظیم کی کارکردگی اور سرگرمی سے مطمئن ہیں،اور اس تنظیم سے جڑ کر کام کرنے والے ارکان صدر قمر مصباحی،سکریٹری محمد شفیق ، اور دیگر عہدے داران محمد فیروز عالم پٹنہ، محمد جمیل اختر،کاظم اشرفی، محمد اظہار الحق، حفظ الرحمن، محمد قیس حسینی، محمد فیروز عالم بتیا، محمد امیر اللہ،عبدالحنان، مرغوب صدری علیگ،خیرالوری،روح الامین وغیرہ مخلص ہیں اور اپنے اپنے علاقے میں بحیثیت نمائندہ اہم رول ادا کررہےہیں۔اللہ تعالیٰ اس تنظیم کی کارکردگی کو قبول فرمائے اور حاسدین کے حسد اوردشمنوں کے شر سے اس کی حفاظت فرمائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button