بچائیں_نادان دوستوں سے خود کوبچاییی
نادان دوستوں سے خود کو بچائیں_
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ
دوستی اچھی چیز ہے اور اسے سماجی زندگی کی پہچان اور شنا خت کہا جاتا ہے، یہ رشتہ داری سے الگ ایک تعلق ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انسان تقویت محسوس کرتا ہے اوروقت پڑنے پر بہت سارے مسائل ان کے ذریعہ حل بھی ہوتے ہیں، لیکن سارے دوست ایسے نہیں ہوتے، با خبر لوگوں کا کہنا ہے کہ دوست تین قسم کے ہوتے ہیں، جانی، مالی اور دستر خوانی، جانی دوست قسمت والوں کو ملتے ہیں اور ان کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے، ایسے دوست، دوست کے دست وبازو بن جاتے ہیں اور بقول سعدی ”دوست آں باشد کہ گیر د دست دوست،در پریشان حالی و در ماندگی “،
وہ آخری حد تک آپ کو پریشانی سے نکالنے کے لیے آپ کے معاون بن جائیں گے، آپ کے دفاع میں کھڑے ہو جائیں گے اور وقت آیا تو آپ کی طرف آنے والے ہر تیر کا رخ اپنی طرف کر لیں گے، اور آپ کے لئے ڈھال کا کام کریں گے، ایسے دوست اللہ کی بڑی نعمت ہیں اور آخری حد تک ان کی قدر دانی کی جانی چاہیے، لیکن ایسے دوست عموما دو ایک سے زیادہ نہیں ہوتے۔
دوست کی دوسری اور تیسری قسم مالی اور دستر خوانی میں بڑی مماثلت ہے، ایک مال کی وجہ سے آپ سے قربت حاصل کرتا ہے، دوسرا دستر خوان کا شریک وسہیم رہتا ہے، دوستی کی اسی قسم میں وہ لوگ بھی آتے ہیں، جو آپ کے عہدے، منصب، جاہ وحشمت کی وجہ سے آپ سے قریب ہو جائیں، یعنی اس قسم کی دوستی کسی نہ کسی غرض کی وجہ سے ہوتی ہے، ظاہر ہے مال آنی جانی ہے، آج ہے کل نہیں مال گیا تو دسترخوان سجانے کی استطاعت بھی چلی گئی یہی حال عہدے اور منصب کا ہے آج آپ پاور فل ہیں تو دسیوں لوگ آپ کے دوست بن جائیں گے، اور آپ کمزور ہوئے تو مجمع آپ کے گرد سے چھٹ جائیگا، کیوں کہ ان کو آپ سے فائدہ اٹھانا ہے، کوئی دوست ترقی کے لیے آپ سے قریب ہو گیاہے اور کوئی غرض نہ ہو تو کم از کم ایسے لوگوں کی یہ غرض تو ضروری ہوتی ہے جسے غالب نے اپنے لفظوں میں کہا ہے۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھر ے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
ایسے دوستوں کوپہچان لینا انتہائی ضروری ہے، ورنہ کبھی بھی ان سے نقصان پہونچ سکتا ہے اور کبھی بھی وہ پالا بدل کر آپ کی پیٹھ میں خنجر بھونک سکتے ہیں۔ پھر ایک شعر نوک قلم پر آگیا۔
دیکھا جو تیر کھا کر کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
دوستوں میں ایک بڑی تعداد نادان دوستوں کی بھی ہوتی ہے، وہ آپ کو بظاہر کوئی نقصان پہونچانے کا ارادہ نہیں رکھتے، لیکن وہ عقل سے عاری اور دماغ سے خالی ہیں، ایسے دوست کی محبت سے بھی نقصان پہونچ جاتا ہے، مولانا روم نے مثنوی میں ایک تمثیل لکھی ہے کہ ایک چوہے اور کچھوے میں گہری دوستی ہو گئی، دونوں ایک دوسرے کے بغیر رہنا گوارہ نہیں کرتے، لیکن ایک خشکی کاجانور تھا اور ایک پانی کا، اس لیے ان کا ہر وقت ساتھ رہنا عملاً ممکن نہیں تھا، چنانچہ چوہے نے یہ تجویز رکھی کہ کیوں نہ ہم دونوں پاؤں میں دھاگا باندھ لیں، جب میری ملاقات کی خواہش ہوگی ڈور ہلادوں گا اور تم آجانا، چنانچہ اس تجویز کے مطابق ایک دھاگہ دونوں نے پاؤں میں باندھ لیا، اب ایک سرے پر چوہا تھا اور دوسرے سرےپر کچھوا، تجویز کے مطابق دونوں کی ملاقات بھی ہوتی رہی، ایک دن ایک گدھ نے چوہے کو دیکھ لیا اور اس پر جھپٹا مارا، اور چوہے کو اپنی چونچ میں پکڑ کر اُڑا ظاہر ہے کہ کچھوا بھی اس کے ساتھ پانی سے نکل گیا اور نکلتا ہوا فضا میں پہونچ گیا، لوگوں نے اس منظر کو دیکھ کر خوب تالیاں بجائیں، ان کی تفریح کا سامان ہو گیا۔ مولانا روم نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نادان کی دوستی سے جان پر بھی بن آتی ہے اور آدمی تماشہ بن جاتا ہے، اس لیے نا دان دوستوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
ایک اور قصہ نصابی کتاب میں بچپن میں پڑھا تھا کہ ایک بادشاہ نے بندر کو اپنی خدمت پر لگایا، اس کی ڈیوٹی تھی کہ جب بادشاہ سوجائے تو اس کو پنکھا جھلتا رہے، ایک دن بادشاہ سو رہا تھا اور بندر پنکھا جھیل رہا تھا، کہ ایک مکھی آکر بادشاہ کے ناک پر بیٹھی، بندر نے بہت اڑانے کی کوششیں کی لیکن وہ پھر سے آکر بیٹھ جاتی، بندر کو بہت غصہ آیا، اس نے تلواراٹھاکر بادشاہ کی ناک پر دے مارا، مکھی تو بھلا کیامرتی وہ تو اڑ گئی، البتہ بادشاہ کی ناک کٹ گئی، اس قصہ میں بھی یہ سبق ہے کہ نادان سے قربت کے نتیجے میں کبھی ناک بھی کٹ جاتی ہے، گو اس کا احساس اکثر وبیشتر وقوع کے بعد ہی ہوتا ہے۔
ایسے متعلقین او ردوست ضروری نہیں کہ تلوار سے ہی گزند پہونچائیں، ان کی زبانیں بھی اتنی دراز ہوتی ہیں کہ ان سے آپ کونقصان پہونچ سکتا ہے، اور یہ تلوار کی بہ نسبت زیادہ ضرب کاری ہوتا ہے؛ کیوں کہ تلوار کے زخم بھر جاتے ہیں، اور زبان کا زخم بھر نہیں پاتا، ہمیشہ ہرا ہی رہتا ہے، ان کا کوئی ارادہ آپ کو نقصان پہونچانے کا نہیں ہے، لیکن انہوں نے آپ کی حمایت میں غیر ضروری زبان درازی کی، اس کا نقصان آپ کو پہونچ گیا،کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے وہ انسانی کی وجہ سے شاخ پر وار کرے اور آپکی جڑ کٹ کر رہ جائے ایسے دوستوں کی نیت بُری نہیں ہوتی، لیکن الفاظ اپنا کام کر جاتے ہیں، کبھی کبھی بعض دوست آپ کی تعریف وتوصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیں گے تاکہ وہ آپ کو خوش کر سکیں، ایسے دوست آپ کو غفلت میں رکھنے کا سبب بنتے ہیں، اور آپ حقیقت احوال سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں، جس کا نقصان آپ کو بھی پہونچتا ہے اور سماج کو بھی،حضرت امیر شریعت رابع سید شاہ منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ملت کو سب سے زیادہ نقصان خوشامد کرنے والوں نے پہونچایا وہ حقیقی صورت حال کے بجائے قائدین کی تعریف کرتے رہے، جس کی وجہ سے بر وقت اور فوری اقدام جو کئے جا سکتے تھے نہیں کیے جا سکے۔ ایسے لوگ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ غلط بیانی کر رہے ہیں، آپ اگر ایسے لوگوں کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ اگلے کی تعریف میں ایران طوران کی ہانک رہے ہیں تو ان کے چہرے اور آنکھوں سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ اگلے کو بے وقوف بنا رہا ہے، حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ ایسی تعریف کو ”بمد خوش کرنی“ کہا کرتے تھے، اس لیے اگر آپ عقل وشعور رکھتے ہیں تو ایسے نادان دوستوں سے بھی بچنے کی کوشش کیجئے جو آپ کو اندھیرے میں رکھ کر آپ کی تعریف کرکے برباد کرنے کے درپے ہیں۔
ایک مقولہ بہت مشہور ہے کہ نادان دوست سے عقل مند دشمن زیادہ بہتر ہے، ایک واقعہ کسی کتاب میں نظر سے گذرا کہ دوشیرمیں آپس میں رقابت ہو گئی، ایک شیر کمزور تھا، ایک دن دوسرے شیر نے دیکھاکہ اس پر کتے بھونک رہے ہیں، وہ فورا اس کی مدد کو پہونچا اور کتوں کو بھگایا، کسی نے پوچھا کہ یہ تو تمہارا دشمن ہے، تم اس کو بچانے کے لیے کیوں آگے آئے، اس نے کہا کہ دشمنی اپنی جگہ، لیکن میں ایسا کمینہ نہیں ہوں کہ شیر پر کتے بھونکے اور ان کی اس جرأت بے جا کا تماشہ دیکھوں۔ معلوم ہوا کہ عقل مند دشمن کبھی آپ کے کام بھی آسکتا ہے۔اس لئے کہ وہ دشمنی کے حدود وقیود سے واقف ہے اور جو نادان دوست ہے وہ دوستی کے حدود وقیود سے نا واقف ہے، اور اس کی ناواقفیت آپ کو نقصان سے دوچار کر سکتی ہے۔