مضامین

امیر شریعت ثانی: محی الملۃ والدین حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادری رح

امیر شریعت ثانی، محی الملۃ والدین حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادری زینبی جعفری رح نے ٢٩/جمادی الاولی ١٣٦٦ھ مطابق ٢٢/اپریل ١٩٤٧ء روز شنبہ ستر سال کی عمر میں داعئ اجل کو لبیک کہا اور خانقاہ مجیبیہ کے قبرستان موسوم باغ مجیبی میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ کی نماز ان کے صاحب زادہ حضرت مولانا سید شاہ امان اللہ قادری زینبی جعفری رح نے پڑھائی،پس ماندگان میں ایک لڑ کا اور چار لڑکی کو چھوڑا۔


حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادری رح بن مولانا سید شاہ بدرالدین قادری بن مولانا سید شاہ شرف الدین قادری کی ولادت ٣٠/ ذی الحجہ ١٢٩٦ھ مطابق ماہ نومبر ١٨٧٩ء کو خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں ہوئی، علومِ ظاہری و باطنی کی تکمیل والد محترم امیر شریعت اول کی نگرانی میں کی، درسیات امیر شریعت اول حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ، شیخ احمد مکی ، مولانا عارف پھلواروی، مولانا محمد عبد اللہ نقشبندی رامپوری تلمیذ مولانا ارشاد حسین رام پوری، مولانا عبد الرحمن ناصری گنجی سے پڑھیں، مولانا عبد الرحمن صاحب ناصری کا تعلیمی نسب یہ ہے کہ وہ مولانا عبد العزیز امروہوی کے تلمیذ رشید تھے، جنہیں علومِ عقلیہ میں علامہ فضل حق خیرآبادی اور علم حدیث میں مولانا عبد الغنی مجددی مہاجر مدنی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔
١١/ربیع الاول ١٣١٨ھ کو علومِ متداولہ و نصاب نظامیہ کی تکمیل کے بعد سند فراغت حاصل ہوئ اور دستار فضیلت سر پر باندھی گئی، بیعت و خلافت والد محترم امیر شریعت اول سے حاصل تھی، فراغت کے بعد تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور ایک عرصے تک اس مشغلہ سے جڑے رہے، تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رح نے بھی آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور متوسطات تک کی کئی کتابیں ان سے پڑھیں، ١٩/صفر ١٣٤٣ھ کو امیر شریعت اول کے وصال کے بعد خانقاہ مجیبیہ کے سجادہ نشیں مقرر ہوئے اور پوری زندگی تزکیہ و احسان کے کام میں مشغول رہے، آپ سے مستفید ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، اپنے والد امیر شریعت اول کے عہد میں وہ بیرونی کاموں کے لیے نفس ناطقہ تھے، تحریک خلافت اور تحریک موالات میں مولانا ہی خانقاہ مجیبیہ اور صاحب سجادہ کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتےرہے، ۱۹۲۰ء ١٩٢١ء میں اس حوالہ سے آپ کی خدمت ہندوستان کی تاریخ میں بہت مشہور و معروف ہے۔


انہوں نے امارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے ابو المحاحسن حضرت مولانا محمد سجاد رح کے ساتھ غیر منقسم بہار کے اسفار کیے، اور لوگوں تک امارت شرعیہ کے پیغام کو پہونچانے میں مولانا کے معاون رہے، ان اسفار میں انہوں نے مولانا ابو المحاحسن محمد سجاد رح کو قریب سے دیکھا، برتا اور سمجھا، اس طرح فکر امارت ان کے ذہن و دماغ میں رچ بس گئی اور فکر سجادکے وہ امین بن گئے۔
اتنی خدمات اور امارت شرعیہ کے پیغام کو مختلف علاقوں میں پہونچانے کی مہم میں شریک کار رہنے کی وجہ سے امیر شریعت اول کے وصال کے بعد ارباب حل و عقد کی نگاہ معتبر ان کے اوپر پڑی؛ چنانچہ ٩/ربیع الاول ١٣٤٣ھ کو اراکین امارت شرعیہ اور صوبہ کے علماء و مشائخ نے جلسہ عام میں ان کو امارت شرعیہ کا امیر شریعت منتخب کیا، یہ اجلاس خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں منعقد ہوا تھا، عہدہ و منصب سے بے نیاز ہونے کے باوجود جب یہ ذمہ داری آپ کے گلے ڈال دی گئی تو آپ نے اپنے کلیدی خطبے میں بحیثیت امیر شریعت ارشاد فرمایا:
” جب آپ حضرات اتفاق رائے سے مجھ پر یہ بار ڈال رہے ہیں، تو میں صرف اس لیے کہ میرے انکار سے تفرقہ کا خوف ہے، مجبور ہوکر قبول کرتا ہوں،”ہاۓ

کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گذرگئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں

١٣٤٤ھ میں آپ نے حرمین شریفین کا سفر کیا اور زیارت خانہ کعبہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سعادت پائی اور فریضہ حج کی ادائیگی کا موقع ملا۔
آپ کے فتاوے خانقاہ مجیبیہ کی لائیبریری میں محفوظ ہیں، سجادگی سے پہلے آپ کی علمی، تحریکی، اصلاحی اسفار کثرت کے ساتھ ہواکرتے تھے، بیشتر اسفار حضرت مولانا ابو المحاحسن محمد سجاد رح کی معیت میں ہوۓ، سجادگی کے بعد ضابطہ میں اسفار تو بند ہوگئے؛ لیکن ان کی علمی و فکری رہنمائی میں امارت شرعیہ اور خانقاہ مجیبیہ کا کارواں آگے بڑھتا رہا، امیر شریعت ثانی کے تفصیلی احوال و آثار سے واقفیت کے لیے حضرت مولانا سید شاہ عون احمد قادری رح کی تصنیف محی الملۃ والدین کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
حضرت امیر شریعت ثانی کے دور میں ملت کو بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، شاردا بل ١٩٢٩ء میں آیا، ١٩٣٦ء میں فلسطین کو یہودیوں کی مملکت بنانے کی داغ بیل پڑی، ١٩٣٧ء میں دیہات سدھار اسکیم کے تحت ذبیحہ گاؤ پر پابندی اور فرقہ واریت کو تیز کرنے کی چال چلی گئی، ١٩٣٤ءمیں بھیانک زلزلہ آیا اور جان و مال کی بڑی تباہی ہوئی، ١٩٣٩ء میں بہار کی کانگریسی حکومت میں زرعی انکم ٹیکس بل لاکر پاس کرا لیا گیا اور اوقاف کو اس سے مستثنی نہیں کیا گیا، ١٩٤٦ء میں ہولناک فساد کا سامنا ملک کو کرنا پڑا، ان تمام موقعوں سے حضرت امیر شریعت ثانی نے اپنی علمی اور سیاسی بصیرت سے جو احکام صادر کئے، اور ابوالمحاسن محمد سجاد رح نے اسے زمین پر اتارنے کی جوجدو جہد کیی وہ مثالی بھی ہے، اور تاریخی بھی، فلسطین قضیہ کے لیے تو وہ خانقاہی روایت توڑ کر تحریک کا حصہ بننے کے لیے تیار ہو گئے تھے، فرمایا:
” اگر سول نافرمانی کی نوبت آگئی تو میں گوشۂ نشینی ترک کرکے سول نافرمانی کروں گا”


دوسرے مسائل کے حل کے لیے حضرت کے حکم سے پورے بہار میں تحریک چلائی گئی، ١٩/جون ١٩٣٦ء کو بہار اڈیشہ کے بیشتر شہروں و قصبات میں یوم فلسطین منایا گیا، فساد کے معاملہ پر حکومت کے رویہ کو انہوں نے انتہائی قابل ملامت اور افسوسناک قرار دیا، اور فرمایا کہ” اگر فرقہ پرستی کو قطعی طور پر ختم نہ کیا گیا تو ملک کی سلامتی ممکن نہیں”
چوں کہ امیر شریعت ثانی کو امیر شریعت بننے سے پہلے سے مولانا ابو المحاحسن محمد سجاد رح کی رفاقت حاصل تھی، امیر شریعت بننے کے بعد بھی دونوں کے مزاج میں انتہائی ہم آہنگی رہی، اس لیے امارت شرعیہ کا کام تیزی سے پھیلا اور خدمات کا دائرہ وسیع ہوا، اسی لیے ان دونوں بزرگوں کو قرآن السعدین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button