فکر و نظر / مضامین و مقالات

اردو نا خداؤں کی خدمت میں ایک عرضداشت

تحریر : کوثر علی، صحافی سہارا بتیا

مکرمی……..

،، زبان مواصلات کی ایک منظم شکل ہے۔ بحیثیت زبان اردو زبان گنگا جمنی تہذیب کی زبان ہے۔ ما في الضمیر ادا کرنے کی حسب لیاقت ہر کس و ناکس کو قدرت دیتی ہے۔ معاشرہ میں اس کے علمبرداروں کے تعداد لا تعداد اور بےشمار ہیں۔ رہی اس زبان کی حیثیت کی بات مذہبی لحاظ سے تو مذہب اسلام کے بیشتر مواد اس زبان میں محفوظ ہیں۔ تحریک ازادی کےادبی دستاویز بھی اس زبان میں ہیں، لیکن افسوس یہ زبان آ زادی کے بعد ازادی کے ساتھ اب مر مٹنے ہی کو تیار ہے۔ اس جدید دور کے نا خدا اس کے کفن فروشی کی رقم کے دوڑ میں ہیں۔

مادر وطن کے تعلیمی میڈیم میں سے ایک میڈیم اردو بھی ہے جو سرکاری مدارس، میں جاری ہے اور این سی آرٹی کی فراہم کردہ زبانی میڈیم میں سے بھی ہے۔ اردو میڈیم سے تعلیم یافتہ افراد جب وہ ملازمت کے لئے تیاری شروع کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے نا خداؤں کی طرف سے ابھی مواد کا انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ لہذا بادل ناخواستہ بطور دانستہ ہندی میڈیم سے تیاری شروع کریں ورنہ چپکے سے راہ فراری اختیار کرلیں۔

اب ان افراد کا سماج و سوسائٹی میں ری ایکشن کا قدم بڑھتا ہے اور اپنے ہر جاننے والے کو مشورہ دیتے ہیں کہ اس زبان میں مستقبل نہیں ہے آگے اس زبان میں مواد نہیں ہے تم آگے چل کر مات کھا جاؤگے۔ اس ری ایکشن کا عملی نتیجہ سامنے ہے کہ ہر اڈیٹر اردو زبان سے عوام کی عدم دلچسپی کا شاکی ہے۔

زبان زندہ رہنے کے لئے اس سے اہم پہلو کچھ ہو نہیں سکتا کہ اس زبان کا واسطہ روزگار فراہم کرنے سے ہو۔ اور اس زبان کے حصول میں مستقبل تابناک نظر آ رہے ہوں۔ ہم تو مسلمان اپنی بربادی اپنے ہاتھوں کرتے ہیں اور الزام دوسروں کے سروں پر لگاتے ہیں۔ ہم سرکاری نظام کو تعصباتی زاویہ سے ہی دیکھنے کے عادی اس طرح سے ہو گۓ ہیں کہ ہم اپنی عملی کارنامے پر بھول کر بھی نظر نہیں رکھتے ہیں۔

آج حکومت ھند نے ملک کے تقریباً ہر ریاست میں اقلیتی شعبہ قائم کیا ہوا ہے۔۔ ملک کے چاروں اطراف میں سرکاری اردو اکیڈمی کا سیلاب ہے۔ اسکول کالجز، اور یونیورسٹیوں میں ہزاروں اردو اساتذہ کی بحالیاں ہیں۔ سماج و معاشرہ میں سینہ تان کر چلنے والے سیکڑوں نام نہاد شعراء ادباء مصنفین و مولفین کی بھرمار ہے۔ ایک ایک شخص درجنوں درجن ادب کے ادیب ہیں۔ تنقیدی دنیا میں ناقدین ادب بام عروج پہ ہیں۔
غرض ایں کہ رسائل و جرائد اور اخبارات کو قاریوں کی اشد ضرورت ہے۔

اردو نا خداؤں کی خدمت میں ایک عرضداشت

جس کی شکوہ کی جاتی ہے اور کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو اردو سے دلچسپی نہیں ہے جبکہ شکوہ یہ ہونا چاہئے کہ اردو ملازمین کو اردو سے دلچسپی نہیں اردو کے روٹی توڑنے سے ہے_ عدم دلچسپی کے باعث اسباب فراہم نہیں کیۓ جا رہے ہیں۔ اسباب عدم فراہمی کے باعث اردو کا دامن تنگ اور زندگی تاریک ہوتی جا رہی ہے۔ اور خاموش زبان سے اردو بھی شکوہ گو ہے کہ اردو داں طبقہ نے جہاں ان کی خواہش کی تکمیل کی ضرورت پڑی وہاں انہوں نے مجھے اپنی مفاد کی خاطر استعمال کیا لیکن مجھے کیا دیا وہ سر بازار ہے کہ مجھے بھی فارسی کے ڈگر پہ کھڑا کر دیا۔

اب تو نسل نو میں میری وجود کے تئیں چہ می گوئیاں ہیں۔ جبکہ ادیبوں کا کہنا ہے کہ ہم نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا ہے کئی کتابیں بھی دی ہیں کئ ادب دیے ہیں جن کی شکر گزاری جتنا بھی اردو داں کریں اتنا ہی کم ہے، جی حقیقت تو یہ ہے کہ اردو ادب کو آپ نے ادب تو دیا ہے لیکن اس کےعوض اردو زبان سے کیا کچھ نہیں لیا ہے_ اس معصوم زبان کی زندگی ہی کو لے لیا ہے ۔ آپنی اولاد کو اردو کی تعلیم سے بیزار رکھا کہ اس میں مستقبل نہیں ہے روزگار کے مواقع نہیں ہے ۔ تو کیا آپ سے وہ لوگ پیچھے ہیں جن کے لئے آپ ادب دے کر جا رہے ہیں بہتر ہے کہ آپ اپنا ادب ادب کے ساتھ ساتھ لیتے جائیں۔

جی حضور، چھوٹی منھ بڑی بات ہی سہی لیکن عین تسلیم ہے کہ فارسی کی ڈگر پہ اردو جا رہی ہے اور اس کے ذمہ دار کوئی خاص طبقہ نہیں یا عصبیت کا روش نہیں، اس کے ذمہ دار وقت کے اردو داں ادباء وشعرا اور پیشہ ور اردو حضرات ہیں جو دن رات ورثہ میں اردو ادب چھوڑے جانے کے لئے گھلے جا رہے ہیں،اور اردو کو مارے جا رہے ہیں۔

خیر! آج اردو کی صورت حال یوں ہے کہ گورنمنٹ جن مقابلہ جاتی امتحانات جیسے یو پی ایس سی،، یوجی سی نیٹ، جے آر ایف،سی ٹی ای ٹی یا پھر جن ڈگری کورسیز ڈی ایل ایڈ بی ایڈ وغیرہ کے جوابات مادری زبان میں دینے کی اجازت دیتی ہے وہاں چاہ کر بھی سواۓ ایک زبان کی حیثیت کے کیوں کہ زبان کی حیثیت سے تو مواد ہے لیکن ارد میڈیم کی حیثیت سے نہیں ہے،اس لئے دانستہ یا نا دانستہ جواب کا ذریعہ ہندی ہی ہوتا ہے ۔آ

پ جیسے اردو کے علمبردار اردو پہ مر مٹنے والے،، اردو ادب کو ادب نوازنے والے سیکڑوں درجنوں کتابوں کے مصنف کہے جانے والے، اردو رسائل و جرائد کے نابغۂ روزگار ایڈیٹر کہے جانے والے، منجملہ اردو کشتی کے ناخداؤں ! اردو ادب سے یہ باہر کی چیز ہے کیا؟ یا اردو ادب کی ترویج و اشاعت کی راہ نہیں ہے ؟ شاید اس سے بڑھ کر اردو کی ترویج و اشاعت کا کام کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ یقیناً جب زبان زندہ رہے گی تو آپ اور آپ کا ادب زندہ رہ سکے گا۔ اس لئے میں ان تمام رسائل و جرائد کے مدیران حضرات سے خصوصا اور اردو ادب کو سنوارنے والے اہل قلم سے عموماً عرض کرتا ہوں کہ اس وقتی ضرورت کو پورا کرکے اس اردو کی خلا کو پر کر کے صدقہ جاریہ جاری فرما جائیں۔ آپ کا امت پر اور اپنی قوم پر احسان ہوگا۔


کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

عہ سمٹتے جارہے پڑھنے والے
مگر پھیلا ہے کار وبار اردو
کتب خانے ہیں قاری کو تر ستے
سجا ہے ہر طرف دربار اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button