اہم خبریںمضامین

احمد ندیمؔ قاسمی ایک کثیر الجہات ادبی شخصیت ✍️ سید نوید جعفری حیدرآباد دکن

احمد ندیمؔ قاسمی ایک کثیر الجہات ادبی شخصیت
✍️ سید نوید جعفری حیدرآباد دکن

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

آج 20/ نومبر ( 1916ء ) اردو کے نامور شاعر، افسانہ نگار‘ ناقد‘ کالم نگار‘ محقق‘ مترجم ‘ ادیب ‘ مدیر اور صحافی جناب احمد ندیمؔ قاسمی کی 105 ویں یوم ولادت ہے👇

نام : احمد شاہ ( احمد ندیم قاسمی )
قلمی نام : عنقا
تخلص : ندیم

ولادت :20/نومبر 1916ء لاہور، پاکستان
وفات :10 /جولائی 2006ء لاہور پاکستان

احمد ندیم قاسمی (20 نومبر 1916ء تا 10 جولائی 2006ء) پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے۔ افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ قاسمی صاحب نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے کچھ اوپر کتابیں تصنیف کیں ، ابتدائی حالات 👇
احمد ندیمؔ قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے اصل نام احمد شاہ تھا اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ندیم ان کا تخلص تھا, آپ کے والد پیر غلام نبی مرحوم اپنی عبادت، زہد تقویٰ کی وجہ سے اہل اللہ میں شمار ہوتے تھے ندیم کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ 1920 میں انگہ کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیا 1923ء میں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے وہاں مذہبی، عملی، اور شاعرانہ ماحول میسر آیا 1921-25 میں گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل اسکول کیمبل پور (اٹک) میں تعلیم پائی۔ 1930-31 میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کیا اور 1931 صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہوگئے جہاں سے 1935ء میں بی۔ اے۔ پاس کیا، قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات بھری تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گزر بسر کا کوئی سہارا نہ تھا کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے انھیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔وہ انھیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔ قاسمی صاحب اختر شیرانی کی شاعری کے گرویدہ تو پہلے ہی سے تھے ان کے مشفقانہ رویے نے قاسمی صاحب کو ان سے شخصی طور پر بھی بہت قریب کر دیا۔ اختر شیرانی رند بلانوش تھے لیکن ان کے ساتھ خاصا وقت گزارنے کے باوجود قاسمی صاحب نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ان کی طبیعت میں لاابالی پن آیا۔ اس سے ان کے مزاج کی استقامت اور اپنے آپ پر قابو رکھنے کی ان کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اختر شیرانی کی شاعری اور شخصیت سے قاسمی صاحب کا لگاؤ آخر تک رہا، انھی دنوں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے ماہانہ رسالے ’’پھول‘‘ کی ادارت کی پیش کش کی جو انھوں نے قبول کر لی۔ ’’پھول‘‘ بچوں کا رسالہ تھا اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں،
1936ء میں ریفارمزکمشنر لاہور کے دفتر میں بیس روپے ماہوار پر محرر کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور 1937تک یہیں کام کرتے رہے۔ 1939-41 کے دوران ایکسائز سب انسپکٹر کے طور پر ملازمت کی، 1939ء میں محکمہ آبکاری میں ملازم ہوگئے 1942 میں مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی 1943ء میں (ادب لطیف) کے ایڈیٹر مقرر ہوئے 1945-48 میں ریڈیوپشاور سے بحیثیت اسکرپٹ رائٹر وابستہ رہے تقسیم کے بعد ڈیڑھ سال ریڈیو پشاور میں ملازم رہے، قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا 1931 میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی نہیں بعد میں بھی 1934 اور 1937 کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور اور ’’زمیندار‘‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انھیں عالمِ نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی ،
1941-45ء میں ہفت روزہ’پھول‘
’تہذیبِ نسواں‘ 1943-45
ماہنامہ ادبِ لطیف
1947-48 میں ماہنامہ سویرا (چار شماروں)
1950 میں ماہنامہ ’’سحر‘‘ لاہور (ایک شمارہ)
1953-59 میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور کی ادارت
1964 سے ماہنامہ ’’فنون‘‘کی ادارت
1952 میں روزنامہ ’امروز‘ لاہور میں کالم ’’حرف و حکایت‘‘ لکھتے رہے، روزنامہ ’امروز‘ لاہوراخبارکے ایڈیٹربن جانے پر کالم ’’پنج دریا‘‘ بھی لکھتے رہے، 1959ء میں امروز سے الگ ہونےپر روزنامہ ’’ہلالِ پاکستان‘‘ میں ’’موج در موج‘‘ اور ’پنج دریا‘ کے نام سے فکاہیہ کالم نویسی، 1964-70 میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور میں کالم ’’حرف و حکایت‘‘ کی شروعات کی مگر پنج دریا کے بجائے نام ’’عنقا‘‘ رکھ لیا، 1970ء کے دوران روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی میں کالم ’’لاہور۔ ۔ ۔ لاہور ہے‘‘ پھر جنگ کو چھوڑ کر روزنامہ ’’حریت‘‘ کراچی میں فکاہیہ کالم ’’موج در موج‘‘ اور ہفتہ وار کالم ’’لاہوریات‘‘ پیش کرتےرہے، اپریل 1972 میں دوبارہ امروز میں وہی کالم لکھنے لگے، 1964 سے امروز لاہور میں ادبی، علمی اور تہذیبی موضوعات پر ہر ہفتے مضامین لکھتے رہے ہاجرہ مسرور سے مل کر (نقوش) کی ادارت سنبھالی اور امروز سے بھی وابستہ رہے۔ حرف و حکایت والا کالم عنقا کے قلمی نام سے لکھتے رہے ہیں، (فنون) ادبی پرچہ ان کے زیر نگرانی نکل رہا تھا ، بے شمار کتب لیکن اور ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ افسانے اور غزل کے حوالے بہت شہرت حاصل کی، پہلا شعر: 1926-27 میں پہلا شعرکہا پہلی مطبوعہ تخلیقات:پہلی نظم 1931 میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پرکہی جو روز نامہ ’سیاست‘ لاہور میں چھپی۔ پہلا شعری مجموعہ 1942 میں اردو اکیڈمی لاہور سے اور پہلا افسانوی مجموعہ 1939 میں شائع ہوا 1936ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد قاسمی صاحب نے اس انجمن سے وابستگی اختیار کر لی تھی وہ انجمن کے سکریٹری بھی رہے لیکن آگے چل کر جب انجمن نظریاتی تشدد پسندی کا شکار ہوئی تو قاسمی صاحب نے اس کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی, "ادبی مطبوعات” (افسانوی مجموعے) 👇
چوپال (دارالاشاعت پنجاب لاہور 1939)
بگولے (مکتبہ اردو لاہور 1941)
طلوع و غروب (مکتبہ اردو، لاہور، 1942)
گرداب (ادارہ اشاعت اردوحیدرآباد دکن1943)
سیلاب (ادارہ اشاعت اردو، حیدرآباد دکن 1943)
آنچل(ادارہ فروغ اردو، لاہور 1944)
آبلے (ادارہ فروغِ اردو لاہور 1946)
آس پاس (مکتبہ فسانہ خواں، لاہور 1948)
درو دیوار (مکتبہ اردو،لاہور1948)
سناٹا (نیا ادارہ لاہور 1952)
بازارِ حیات (ادارہ فروغِ اردو، لاہور 1959)
برگِ حنا (ناشرین، لاہور 1959)
سیلاب و گرداب(مکتبہ کارواں، لاہور 1961)
گھر سے گھر تک (راول کتاب گھر،راولپنڈی1963
کپاس کا پھول (مکتبہ فنون، لاہور 1973)
نیلا پتھر (غالبپبلشرز، لاہور 1980)
کوہ پیما (اساطیر، لاہور۔ 1995)
شاعری 👈 دھڑکنیں (قطعات، اردو اکیڈمی۔ لاہور) 1942
رِم جھم (قطعات و رباعیات، ادارہفروغِ اردو۔ لاہور 1944
جلال و جمال (شاعری۔ نیا ادارہ، لاہور 1946)
شعلۂ گُل (قومی دارا لاشاعت لاہور 1953)
دشتِ وفا (کتاب نما، لاہور 1963)
محیط(التحریر، لاہور 1976)
دوام (مطبوعات لاہور 1979)
لوح و خاک (اساطیر لاہور 1988)
تحقیق و تنقید 👈 تہذیب و فن (پاکستان فاؤنڈیشن لاہور 1975ء ) ادب اور تعلیم کے رشتے (التحریر، لاہور 1974)
( علامہ محمد اقبال) ترتیب و ترجمہ
انگڑائیاں (مرد افسانہ نگاروں کا انتخاب، ادارہاشاعت اردو حیدرآباد دکن 1944) نقوشِ لطیف (خواتین افسانہ نگاروں کا انتخاب،ادارہ اشاعتِ اردو (حیدرآباد دکن 1944)
پاکستان کی لوک کہانیاں (از میریلن سرچ،ترجمہ، شیخ علی اینڈ سنز لاہور) کیسر کیاری (مضامین، ڈرامے، تراجم، مکتبہ شعرو ادب، لاہور 1944ء منٹو کے خطوط بنام احمد ندیم قاسمی (ترتیب، کتاب نما،لاہور 1966ء نذیر حمید احمد خاں (ترتیب، مجلس ترقی ادب، لاہور 1977) میرے ہم سفر
بچوں کا ادب 👈 تین ناٹک (پنجاب بک ایجنسی، لاہور 1944ء دوستوں کیکہانیاں (پنجاب بک ایجنسی، لاہور 1944ء نئی نویلی کہانیاں (پنجاب بک ایجنسی،لاہور 1944ء) قاسمی سے متعلق کتابیں اور خصوصی نمبر 👇
ندیم کی شاعری اورشخصیت (تحقیق) جمیل ملک۔م
احمد ندیم قاسمی کے بہترین افسانے، مرتبہ مظفر علی سید
ندیم نامہ مرتب محمد طفیل، بشیر موجد مجلسِ ارباب فن، لاہور 1974ء مٹی کا سمندر مرتب ضیا ساجد مکتبہ القریش لاہور 1991ء احمد ندیم قاسمی۔ ۔ ۔ایک لیجنڈ از شکیل الرحمٰن۔اساطیر لاہور، ندیم نمبر مرتب صہبا لکھنوی ماہنامہافکار کراچی 1976ء، احمد ندیم قاسمی: شخصیت اور فن مرتب : نند کشور و کرم۔عالمی اردو ادب دہلی1996, ہندی میں ’’اردو کہانی کار احمد ندیم قاسمی‘‘ مرتب, نند کشور وکرم اندر پرستھ پرکاشن دہلی اس کے علاوہ انگریزی، روسی، چینی،جاپانی، ہندی، پنجابی، بنگلہ، سندھی، گجراتی مراٹھی اور فارسی وغیرہ
متعدد زبانوںمیں کہانیوں اور شاعری کے تراجم
اعزازات و انعامات 👇
آدم جی ادبی ایوارڈبرائے دشتِ وفا (شاعری۔1963)
آدم جی ادبی ایوارڈ برائے محیط (شاعری۔ 1976)
آدم جی ادبی ایوارڈ برائے دوام (شاعری۔ 1979)
پرائیڈ آف پرفارمنس حکومتِ پاکستان کا اعلیٰ سول اعزاز (1968) ستارۂ امتیاز حکومتِ پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز (1980) عالمی فروغِ اردو ادب، دوحہ قطر
احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصر علالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے قریبا 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء کو انہیں سانس کی تکلیف کے بعد لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انہیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا اور پیر 10 جولائی 2006ء کی صبح کو انتقال ہو گیا
ترتیب و پیشکش 👈 سید نوید جعفری حیدرآباد دکن 💟

💖 اردو کے نامور شاعر، افسانہ نگار‘ ناقد‘ کالم نگار‘ محقق مترجم ‘ ادیب ‘ مدیر اور صحافی جناب احمد ندیمؔ قاسمی کی 105 ویں ولادت کے موقع پر انکا

منتخب_کلام قارائین کی نظر ہیے 👇 💖

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ھے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں
نور ہو جاتا ھے کچھ اور ہویدا تیرا

کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
چھلک اٹھتا ھے میری روح میں مینا تیرا

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ھے تیرا کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ھے سہارا تیرا

دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا

لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ھے سایہ تیرا

تو بشر بھی ھے مگر فخرِ بشر بھی تو ھے
مجھ کو تو یاد ھے بس اتنا سراپا تیرا

میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ھے عالمِ بالا تیرا

میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں
صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا

وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے میں چمکتا ھے ستارا تیرا

ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں
ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا

شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو
نکہتیں بانٹتا ھے آج بھی صحرا تیرا

اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ھےتجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا

تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تاحشر کا فردا ھے وہ تنہا تیرا

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ھے مسجدِ اقصی تیرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبِ فِراق جب مژدۂ سَحر آیا
تو اِک زمانہ تِرا مُنتظر نظر آیا

تمام عُمر کی صحرا نوَردِیوں کے بعد
تِرا مقام سرِ گردِ رہگُزر آیا

یہ کون آبلہ پا اِس طرف سے گُذرا ہے
نقُوش پا میں جو پُھولوں کے رنگ بھر آیا

کِسے مجال، کہ نظّارۂ جمال کرے
اِس انجُمن میں جو آیا، بَچشمِ تر آیا

تِری طَلب کے گھنے جنگلوں میں آگ لگی
مِرے خیال میں، جب وہمِ رہگُُزر آیا

سِمَٹ گیا مِری بانہوں میں جب وہ پیکرِ رنگ
تو اُس کا رنگ مجھے دُور تک نظر آیا

اِس آرزُو میں، کہ ضد کبریا کی پُوری ہو
ندیم خاک پہ، افلاک سے اُتر آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیراں حیراں کونپل کونپل کیسے کِھلتے پُھول یہاں
تنے ہُوئے کانٹوں کے ڈر سے پُوجی گئی ببول یہاں

کلیاں نوکِ سناں سے چٹکیں، غنچے کٹ کے شگفتہ ہُوئے
کاش یہ فصلِ خُونِ بہاراں اور نہ کھینچے طُول یہاں

شاید آج بھی جاری ہے آدم کا سلسلۂ اُفتاد
تھی نہ وہاں جنّت بھی گوارا اور قبوُل ہے دُھول یہاں

یارو یہ سنّاٹا تو توڑو ، گیت نہیں تو چیخ سہی
رُلوانا قانون یہاں کا، رو لینا معمُول یہاں

پل پل میں تاریخ چھپی ہے، گھڑی گھڑی گرداں ہے ندیم
ایک صدی کی ہار بنے گی ایک نظر کی بُھول یہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیارِ عشق کا یہ حادثہ عجیب سا تھا
رُخِ رقیب پہ بھی پرتوِ حبیب سا تھا

فراق زخم سہی، کم نہ تھی جراحتِ وصل
معانقہ مرے محبوب کا، صلیب سا تھا

ترے جمال کی سرحد سے کبریا کا مقام
بہت قریب تو کیا تھا، مگر قریب سا تھا

سنی ہے میں نے صدائے شکستِ نکہت و رنگ
خزاں کی راہ میں ہر پھول ، عندلیب سا تھا

برادرانِ وطن کے سلوک کی سوگند
ندیمؔ یوسفِ کنعاں کا ہم نصیب سا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھلا کیا پڑھ لیا ہے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں
کہ اس کی بخششوں کے اتنے چرچے ہیں فقیروں میں

کوئی سورج سے سیکھے، عدل کیا ہے، حق رسی کیا ہے
کہ یکساں دھوپ بٹتی ہے، صغیروں میں کبیروں میں

ابھی غیروں کے دکھ پہ بھیگنا بھولی نہیں آنکھیں
ابھی کچھ روشنی باقی ہے لوگوں گے ضمیروں میں

نہ وہ ہوتا، نہ میں اِک شخص کو دل سے لگا رکھتا
میں دشمن کو بھی گنتا ہوں محبت کے سفیروں میں

سبیلیں جس نے اپنے خون کی ہر سو لگائی ہوں
میں صرف ایسے غنی کا نام لکھتا ہوں امیروں میں

بدن آزاد ہے، اندر میرے زنجیر بجتی ہے
کہ میں مختار ہو کر بھی گنا جاؤں اسیروں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ہی اپنا تماشائی ہوں
میں مبصر ہوں کہ سودائی ہوں
نہ کوئی چاند، نہ تارا، نہ امید
میں مجسم شبِ تنہائی ہوں
ہے سفر شرط مجھے پانے کی
میں کہ اک لالۂ صحرائی ہوں
سیدھے رستے پہ چلوں تو کیسے
بھولی بھٹکی ہوئی دانائی ہوں
مجھ سے خود کو نہ سمیٹا جائے
اور خدائی کا تمنائی ہوں
میرے ماضی کے اندھیروں پہ نہ جا
صبحِ آئندہ کی رعنائی ہوں
کاش یہ جانتا دشمن میرا
میں ہر انسان کا شیدائی ہوں
میں پہاڑوں کی خموشی ہوں ندیم
اور میں بحر کی گویائی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھلا میری زباں پر شکوہ کب تھا
اگر تھا بھی تو یکسر زیرِ لب تھا
میں سچ کی جستجو میں ہوں ازل سے
یہی طُولِ مسافت کا سبب تھا
مرے کِیسے میں جو دولت بھری تھی
مرا سرمایۂ شعر و ادب تھا
بدلتے ہی نہیں معیار میرے
وہی غم اب بھی ہے ، جیسا کہ تب تھا
یقیناً ظلم ٹُوٹا ہے کسی پر
اندھیرا ورنہ اتنا گہرا کب تھا
ندیم ارزاں نہیں تھے میرے سجدے
مرا معبود صرف اِک میرا رب تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بگڑ کے مجھ سے وہ میرے لئے اُداس بھی ہے
وہ زود رنج تو ہے، وہ وفا شناس بھی ہے
تقاضے جِسم کے اپنے ہیں، دل کا مزاج اپنا
وہ مجھ سے دور بھی ہے، اور میرے آس پاس بھی ہے
نہ جانے کون سے چشمے ہیں ماورائے بدن
کہ پا چکا ہوں جسے، مجھ کو اس کی پیاس بھی ہے
وہ ایک پیکرِ محسوس، پھر بھی نا محسوس
میرا یقین بھی ہے اور میرا قیاس بھی ہے
حسیں بہت ہیں مگر میرا انتخاب ہے وہ
کہ اس کے حُسن پہ باطن کا انعکاس بھی ہے
ندیم اُسی کا کرم ہے، کہ اس کے در سے ملا
وہ ا یک دردِ مسلسل جو مجھ کو راس بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں
تیری محفل میں چلا آیا ہوں
آج ہوں میں تیرا دہلیز نشین
آج میں عرش کا ہم پایہ ہوں
چند پل یوں تیری قربت میں کٹے
جیسے اک عمر گذار آیا ہوں
جب بھی میں ارضِ مدینہ پہ چلا
دل ہی دل میں بہت اِترایا ہوں
تیرا پیکر ہے کہ اک ہالہء نور
جالیوں سے تجھے دیکھ آیا ہوں
یہ کہیں خامیء ایماں ہی نہ ہو
میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں
جل رہا ہوں بھری برسات کی بوچھاروں میں
مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جانِ جہاں!
دل کی لَو دیکھ رہا ہوں ترے رخساروں میں
مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں بھی شامل ہوں محبت کے گنہ گاروں میں
حُسن بیگانۂ احساسِ جمال اچھا ہے
غنچے کھِلتے ہیں تو بِک جاتے ہیں بازاروں میں
ذکر کرتے ہیں ترا مجھ سے بعنوانِ جفا
چارہ گر پھول پرو لائے ہیں تلواروں میں
میرے کِیسے میں تو اک سُوت کی انٹی بھی نہ تھی
نام لکھوا دیا یوسف کے خریداروں میں
رُت بدلتی ہے تو معیار بدل جاتے ہیں
بلبلیں خار لیے پھرتی ہیں منقاروں میں
چُن لے بازارِ ہنر سے کوئی بہروپ ندیمؔ
اب تو فنکار بھی شامل ہیں اداکاروں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درِ کسریٰ پہ صدا کیا کرتا
اک کھنڈر مجھکو عطا کیا کرتا
جس اندھیرے میں ستارے نہ جلے
ایک مٹی کا دیا کیا کرتا
ریت بھی ہاتھ میں جس کے نہ رکی
وہ تہی دست دعا کیا کرتا
ڈھب سے جینا بھی نہ آیا جس کو
اپنے مرنے کا گلہ کیا کرتا
اس کا ہونا ہے مرے ہونے سے
میں نہ ہوتا تو خدا کیا کرتا
تو نے کب مجھ کو دیے میرے حقوق
میں ترا فرض ادا کیا کرتا
ایک دھتکار تو جھولی میں پڑی
تو نہ ہوتا تو گدا کیا کرت
جو نہ سمجھا کبھی مفہومِ وفا
اپنا وعدہ بھی وفا کیا کرتا
تشنہ لب آئے مگر ڈوب گئے
چشمہء آبِ بقا کیا کرتا
نکہت و رنگ کا پیاسا تھا ندیم
صرف اک لمسِ ہوا کیا کرتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم گدا گر کے گدا گر ہی رہے
تم نے کشکول تہِ جامہء بانات چھپا رکھا تھا
اور چہرے پر انا تھی
جو ہمیشہ کی طرح جھوٹی تھی
وہ یہ کہتی ہوئی لگتی تھی کہ ہم بھیک نہیں مانگیں گے
یعنی مر جائیں گے لیکن کسی منعم کے درِ زر پر دستک نہ دیں گے
یہ جو گرتے ہوئے سکوں کی کھنک چار طرف گونجی ہے
یہ شنیدہ ہے کئی برسوں سے
اور کشکول کا لہجہ بھی وہی ہے جو ہمیں ازبر ہے
لاکھ انکار کرو لاکھ بہانے ڈھونڈو
تم گداگر کے گداگر ہی رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ظالم جو چھُپ کر گا رہا ہے
دلِ بے تاب کو برما رہا ہے
مجھے کیا چاہئے اس سے زیادہ
میں روتا ہوں کوئی شرما رہا ہے
فرشتے ڈھونڈھتے پھرتے ہیں شعلے
کوئی عاشق بنایا جا رہا ہے
خمیر اک پیکرِ زھرہ جبیں کا
ستاروں سے اٹھایا جا رہا ہے
یہ آنسو؟۔۔کون جانے ان کا مطلب!
پرانا واقعہ یاد آرہا ہے
مجھے یاد آرہا ہے اک حسیں خواب
دلِ مجبور بیٹھا جا رہا ہے
کسی نے لطف کی نظروں سے دیکھا
گیا وقت آج واپس آرہا ہے
مرے مقصد کو بھی کوئی سمجھتا!
مجھے سارا جہاں سمجھا رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے پائے ناز پہ سر رگڑ کے بس ایک سج
جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رُلائیں
ممکن ہے کہ ہم آپ کو پھر یاد نہ آئیں
ہم چھیڑ تو دیں گے ترا محبوب فسانہ
کھنچ آئیں گی فردوس کی مدہوش فضائیں
پھر تشنہ لبی زخم کی دیکھی نہیں جاتی
پھر مانگ رہا ہوں ترے آنے کی دعائیں
پھر بیت نہ جائے یہ جوانی، یہ زمانہ
آؤ تو یہ اُجڑی ہوئی محفل بھی سجائیں
پھر لوٹ کے آئیں گے یہیں قافلے والے
اُٹھتی ہیں اُفق سے کئی غمناک صدائیں
شاید یہی‌ شعلہ مری ہستی کو جلا دے
دیتا ہوں میں اڑتے ہوئے جگنو کو ہوائیں
اے کاش ترا پاس نہ ہوتا مرے دل کو
اٹھتی ہیں پر رک جاتی ہیں سینے میں‌ صدائیں
اک آگ سی بھر دیتا ہے رگ رگ میں تبسّم
اس لطف سے اچھی ہیں حسینوں کی جفائیں
معبود ہو اُن کے ہی تصّور کی تجلّی
اے تشنہ لبو آؤ!‌ نیا دَیر بنائیں
ہم سنگِ دریا پہ بے ہوش پڑے ہیں
کہہ دے کوئی جبریل سے، بہتر ہے، نہ آئیں
ہاں، یاد تو ہوگا تمہیں راوی کا کنارا
چاہو تو یہ ٹوٹا ہوا بربط بھی بجائیں
توبہ کو ندیم آج تو قربان کرو گے
جینے نہیں دیتیں مجھے ساون کی گھٹائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹا
مگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چکے تو کہوں
پسِ نقاب ہی پنہاں سہی عروسِ سحر
مگر یہ پر دہء ظلمات ہٹ چکے تو کہوں
یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت
اسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتا
مجھے تو نیند نہیں آئيگی کہ میرا شعور
شبِ سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتا
اگر نشانِ سفر تک کہیں نہیں، نہ سہی
میں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گزاروں گا
شکست سے مرا اخلاق اجنبی ہے ندیم
سحر ملے نہ ملے رات سے نہ ہاروں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں
اور اندھیروں میں جا نکلتے ہیں
ایک کو دوسرے کا ہوش نہیں
یوں تو ہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں
وہ کڑا موڑ ہے ہمیں درپیش
راستے ہر طرف نکلتے ہیں
کتنے عیاش لوگ ہیں ہم بھی
دن میں سو منزلیں بدلتے ہیں
وہ ہوئیں بارشیں، کہ کھیتوں میں
کرب اگتے ہیں ، درد پلتے ہیں
پتھروں کا غرور ختم ہوا
اب اِنساں شرر اگلتے ہیں
ٹھوکریں کھا رہے ہیں صدیوں سے
گو دلوں میں چراغ جلتے ہیں ۔

👈 نوٹ : – مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں۔ایس آر میڈیا کاان سےاتفاق ضروری نہیں

👈 ایس آر میڈیا پیج کو لائیک فالو اور شیر کر کے شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button