اہم خبریںمضامین

آسمان سخن کے خورشید خواجہ میردرد کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

اسلم رحمانی، متعلم : شعبۂ اردو ،نتیشور کالج مظفرپور

خواجہ میردرد اٹھارہویں صدی کے ایک کہنہ مشق شاعر تھے۔ آب حیات کے مصنف مولانا آزاد حسین نے دردر کو اردو کا بلند پایہ شاعر قرار دیا ہے۔

ولادت :
تاریخ ادب اردو کے مرتب پروفیسر نوارالحسن نقوی رقمطراز ہیں کہ:
خواجہ میردرد مشہور صوفی اور شاعر خواجہ محمد ناصر عندلیب کے بیٹے تھے۔1721ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی کی بربادی زیادہ دور نہ تھی۔ گھرکا ماحول علمی تھا اس لیے خواجہ میر کم سنی ہی سے علم وادب کی طرف متوجہ ہوگئے۔

اردو ، فارسی ، عربی تینوں زبانوں پر قدرت رکھتے تھے۔قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر، تصوف کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ پندرہ برس کی عمر میں فارسی کا ایک رسالہ تصنیف کرچکے تھے۔فارسی اور اردو میں شعر بھی اسی عمر سے کہنے لگےتھے۔فن موسیقی میں ایسی مہارت بہم پہنچائی تھی کہ بڑے بڑے فن کار ان کی داد کو اپنے کمال کی سند جانتے تھے۔

(تاریخ ادب اردو، ص:97)

درد کی شاعری میں تصوف :
’’ تصو ف‘‘ کا مفہوم :
’’تصوف‘‘ کا اصل مادہ ’’صوف‘‘ ہے ،جس کا معنی ہے ’’اون ‘‘۔ اور ’’ تَصَوُّف‘‘ کا لغوی معنی ہے ’’اون کا لباس پہننا ‘‘جیسے’’ تَقَمُّص‘‘ کامعنی ہے قمیص پہننا  ۔ (ہجویری ،ابو الحسن سید علی بن عثمان : کشف المحجوب، اردو ترجمہ عبد الرحمٰن طارق، لاہور،ادارہ اسلا میات ، طبع اول: ۲۰۰۵ء، ص: ۴۱۶۔ )

صوفیأ کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں : اپنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا ، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں اور رذائلِ اخلاق سے پاک و صاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنا۔ (چشتی، پروفیسر یوسف سلیم: تاریخ تصوف،لاہور، دارالکتاب،طبع اول: ۲۰۰۹ء، ص: ۱۱۵۔ )

اور صوفیاء ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے اندر کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو اسی کی دعوت دیتے ہیں۔

اب لفظ صوفیأ ، اپنے لغوی معنی ( اون کا لباس پہننے والے )میں استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اپنے اندرکے تزکیہ وتطہیر کی طرف توجہ دیتے ہیں ۔اور اب یہ لفظ ایسے ہی لوگوں کے لیے لقب کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔چونکہ ابتدا میں ایسے لوگوں کا اکثر لباس صوف (اون) ہی ہوتا تھا ،اس وجہ سے ان کا یہ نام پڑ گیا، اگرچہ بعد میں ان کا یہ لباس نہ رہا۔(القشیری، ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن : الرسا لۃ القشیر یہ،ترجمہ محمد عبد النصیر العلوی،لاہور، مکتبہ رحمانیہ، ص: ۴۱۶۔)

’’تصوف‘‘ کی اہمیت :

حدیث کی کتابوں میں ایک حدیث ،حدیثِ جبریل ؑکے نام سے مشہور ہے،اس میں ہے کہ ایک دن جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی کریم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ سوالات کیے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ:’’احسان کیا ہے ؟ آپ انے جواب میں ارشاد فرمایا کہ: ’’احسان یہ ہے کہ تم خدا کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو ،اگر تم خدا کو دیکھ نہیں رہے(یعنی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی) تو کم سے کم یہ یقین کرلو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔  (البخاری، ابو عبد اﷲ محمد بن اسمٰعیل : صحیح البخاری ، الریاض ،دار السلام للنشر والتوزیع ،طبع دوم: ۱۹۹۹ء، ص: ۱۲، حدیث: ۵۰۔)

  بندہ کے دل میں اسی احسان کی کیفیت پیدا کرنے کا صوفیأ کی زبان میں دوسرانام ’’تصوف‘‘ یا ’’سلوک‘‘ ہے۔’’تصوف‘‘ در اصل بندہ کے دل میں یقین اور اخلاص پیدا کرتا ہے ۔’’تصوف‘‘ مذہب سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ مذہب کی روح ہے۔جس طرح جسم روح کے بغیر مردہ لاش ہے، اسی طرح اﷲ کی عبادت بغیر اخلاص کے بے قدر وقیمت ہے۔’’تصوف‘‘ بندہ کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی ذات کی محبت پیدا کرتا ہے اور خدا کی محبت بندہ کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خلق ِخدا کے ساتھ محبت کرے،کیونکہ صوفی کی نظر میں خلقِ خدا ،خدا کی عیال ہے اور کسی کے عیال کے ساتھ بھلائی عیال دار کے ساتھ بھلائی شمار ہوتی ہے۔ بہر کیف تصوف کی یہ خصوصیات اور اہمیت درد کے ذہن و دماغ میں نقش تھا جس کہ پیش نظر انہوں نے اپنی شاعری میں تصوف کی ترجمانی کی ہے۔

خواجہ میردرد اردو شاعری میں تصوف کے امام کہلاتے ہیں۔آپ کا شمار میر تقی میر اور مرزا رفیع سودا کے ہم عصر شعراء میں ہوتا ہے۔درد کی شاعری اور ان کی زندگی میں یکسانیت ہے۔ درد کی شاعری میں مزاح، دردمندی، سوگواری،اور خاکساری تھی ،خود ان کا تخلص بھی دردپسندی کی واضح علامت بن گیا تھا۔ درد اپنے زمانے کے دیگر شعراء کی طرح صرف اپنی شاعری کا مزہ بدلنے یا قاری کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے تصوف کا راستہ اختیار نہیں کئے ہوئے تھے۔ بلکہ وہ اس میدان کے ماہر تھے۔ چند اشعار ملاحظہ ہو۔
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا

برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا

مرا غنچۂ دل ہے وہ دل گرفتہ

کہ جس کو کسو نے کبھو وا نہ دیکھا

یگانہ ہے تو آہ بیگانگی میں

کوئی دوسرا اور ایسا نہ دیکھا

اذیت مصیبت ملامت بلائیں

ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

کیا مج کو داغوں نے سرو چراغاں

کبھو تو نے آ کر تماشا نہ دیکھا

تغافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے

ادھر تو نے لیکن نہ دیکھا نہ دیکھا

حجاب رخ یار تھے آپ ہی ہم

کھلی آنکھ جب کوئی پردا نہ دیکھا

درد کا کلام سراپا درد:

مرزا لطف علی صاحب،”گلشن سخن” کے مطابق دردؔ کا کلام "سراپا درد و اثر "ہے۔ درد کے درد کو محسوس کرنے کے لئے چند اشعار ملاحظہ ہو۔

گلیم بخت سیہ سایہ دار رکھتے ہیں

یہی بساط میں ہم خاکسار رکھتے ہیں

بسان کاغذ آتش زدہ مرے گل رو

ترے جلے بھنے اور ہی بہار رکھتے ہیں

یہ کس نے ہم سے کیا وعدۂ ہم آغوشی

کہ مثل بحر سراسر کنار رکھتے ہیں

دردر کا صوفیانہ کلام:

خواجہ میردرد کی شاعری صوفیانہ رنگوں سے مزین ہے۔ ان کے یہاں شاعری میں صداقت اور معنی خیزی ہے۔ان کے الفاظ اور اصطلاحات میں زبردست معنویت ہے۔صوفیانہ اصطلاحات ان ہی کے ذریعے اردو غزل میں عام ہوئی ہے۔درد کے ہاں زبان کے عام الفاظ تصوف کی آغوش میں جاتے ہی اپنے اندر معنی خیزی پیدا کر لیتی ہے۔ان کی شاعری میں خلوت، جلوت،وحدت، کثرت، کشف، نفس،ذات، دائرہ،ممکن،حجاب، پردہ،یقین، وجود، آشنا،بے گانہ،جبروقدر،مجبوری اور مختاری وغیرہ کا دلچسپ عنصر موجود ہے۔
خواجہ میر درد قناعت پسندی اور خوداری جیسی صفات ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس سے ان کی شاعری چمکی جا رہی تھی اور جانے پہچانی جاتی تھیں۔شاعری اور نجی زندگی میں ان کی انہی صفات کی صورت ان کی شاعری میں بھی نظر نمایاں تھا۔  خواجہ میر درد کے بارے میں عظمت اللہ کہتے ہیں کہ۔

”صوفی شاعر خواجہ میر درد دہلی میں اردو ادب میں صوفیانہ کلام کی شاعری کے باوا آدم تھے“

درد لکھتے ہیں کہ

جگ میں آکر، ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر، جدھر دیکھا۔

ارض و سماں کہاں تیری وسعت کو پاسکیں
میرا ہی دل ہے، وہ کہ جہاں تو سماں سکیں

اس ہستی خراب سے، کیا کام تھا ہمیں۔
اے نشا، ظہور یہ تری، ترنگ تھی

ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں

دل ہی نہیں رہا ہے کہ کچھ آرزو کریں

مٹ جائیں ایک آن میں کثرت نمائیاں

ہم آئنے کے سامنے جب آ کے ہو کریں

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

سر تا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم

پر یہ کہاں مجال جو کچھ گفتگو کریں

ہر چند آئنہ ہوں پر اتنا ہوں ناقبول

منہ پھیر لے وہ جس کے مجھے رو بہ رو کریں

نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار

کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں

ہے اپنی یہ صلاح کہ سب زاہدان شہر

اے دردؔ آ کے بیعت دست سبو کریں

دردر کی شاعری میں تصور عشق:
دردر کی شاعری سے تصوف کے ساتھ ساتھ عشق کی بھی خوشبو آتی ہے۔ پروفیسر نوارالحسن نقوی رقمطراز ہیں کہ:
درد صوفی شاعر ہیں لیکن ان کے دیوان میں حقیقت کے ساتھ ساتھ مجاز کے شعر بھی کثرت سے ملتے ہیں۔
(تاریخ ادب اردو،ص:98)
ان کا عشق حقیقی اور ان کا محبوب، محبوب حقیقی ہے اسی لئے ان کے ہاں طمانیت قلب،سکون اور پاکیزگی ہے،درد کی غزلوں میں طہارت اسی کیفیت کے نتیجے میں ہے۔ درد کی شاعری کا ملاحظہ کرنے سے قبل عشق کی تعریف پیش نظر رکھیں ۔ ظفر انصاری ظفر اپنی کتاب تصور عشق اور میر کی شاعری کے پیش لفظ میں عشق کی تعریف میں رقمطراز ہیں کہ:
عشق ایک تخلیقی اور تکوینی قوت کا نام ہے جس کی موجودگی ہر ذی روح کے اندر ہوتی ہے۔ انسان ہی نہیں بلکہ حیوان میں بھی عشق کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔ اس کا ثبوت اس وقت بہم پہنچ جاتا ہے جب بلبل پھول کے حسن وجمال پر فریفتہ ہوکر چہکنا شروع کردیتی ہے۔اور چکور چاند کی محبت میں بے قرار ہو اٹھتا ہے۔
(تصور عشق اور میر کی شاعری، ص:24)

کلام ملاحظہ ہو۔

قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا

پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا

رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور

شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا

ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن

میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا

باوجودے کہ پر و بال نہ تھے آدم کے

وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا

پرورش غم کی ترے یاں تئیں تو کی دیکھا

کوئی بھی داغ تھا سینے میں کہ ناسور نہ تھا

محتسب آج تو مے خانے میں تیرے ہاتھوں

دل نہ تھا کوئی کہ شیشے کی طرح چور نہ تھا

دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانا

اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا

درد صاحب اسلوب شاعر:

دردؔ ایک صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ان کے بعض سادہ اشعار پر میرؔ کے اسلوب کا دھوکہ ضرور ہوتا ہے لیکن توجہ سے دیکھا جائے تو دونوں کا اسلوب یکسر جداگانہ ہے۔درد ککی شاعری میں غور و فکر کا عنصر  نمایاں ہے جبکہ میرؔ  فکر کو احساس کا تابع رکھتے  ہیں البتہ عشق  میں سپردگی اور گداز دونوں کے یہاں مشترک ہے اور دونوں آہستہ آہستہ سلگتے ہیں۔دردؔ کے یہاں مجازی عشق بھی کم نہیں ۔جیتے جاگتے محبوب کی جھلکیاں جا بجا ان کے کلام میں مل جاتی ہیں۔  ان کے اشعار ملاحظہ ہو۔

ترے کہنے سے، میں از بس کہ باہر ہو نہیں سکتا

ارادہ صبر کا کرتا تو ہوں، پر ہو نہیں سکتا

کہا جب میں، ترا بوسہ تو جب سے قند ہے پیارے

لگا تب کہنے، پر قند ِ مکرر ہو نہیں سکتا

دل ِ آوارہ الجھے یاں کسو کی زلف میں، یا رب!

علاج آوارگی کا اس سے بہتر ہو نہیں سکتا

مری بے صبریوں کی بات سن، سب سے وہ کہتا ہے

تحمل مجھ سے بھی تو حال سن کر، ہو نہیں سکتا

کرے کیا فائدہ نا چیز کو، تقلید اچھوں کی

کہ جم جانے سے کچھ اولا تو گوہر ہو نہیں سکتا

نہیں چلتا ہے کچھ اپنا تو تیرے عشق کے آگے

ہمارے دل پہ کوئی اور تو در ہو نہیں سکتا

کہا میں، یوں تو مل جاتے ہو آ کر بعد مدت کے

اگر چاہو تو یہ کیا تم سے اکثر ہو نہیں سکتا

لگا کہنے سمجھ اس بات کو ٹک تو کیا جلد اتنا

ترے گھر آنے جانے میں، مرا گھر ہو نہیں سکتا

بچوں کس طرح میں اے درد! اس کی تیغ ِ ابرو سے

کہ جس کے سامنے کوئی بھی بر ہو نہیں سکتا

درد کی صوفیانہ اور شاعرانہ عظمت:

ڈاکٹر احمد امتیاز،شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی لکھتے ہیں کہ:

اٹھارہویں صدی کے شعراء میں خواجہ میر دردؔ کا نام بے حد اہم ہے ۔ اُن کی صوفیانہ اور شاعرانہ عظمت ہی کے سبب اُن کی شاعری اور شخصیت دونوں میں اُس پورے عہد کی عکاسی ملتی ہے۔ عام طور پر ہمارا سروکار اُن کی شاعری سے ہوتا ہے اس لیے انہیں ایک بڑے شاعر ہی کی حیثیت سے ہم جانتے پہچانتے ہیں۔ حالانکہ خود اُن کے عہد کے لوگ انہیں ایک باکمال، باعمل اور نظریہ ساز صوفی کی حیثیت سے زیادہ پہچانتے تھے۔
(اردو ریسرچ جرنل، یکم اکتوبر 2019)
صوفیانہ اشعار کی مثال دیکھیں:

اخفائے رازِ عشق نہ ہو آبِ اشک سے

یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے

وحدت نے ہر طرف ترے جلوے دکھا دیے

پردے تعینّات کے جو تھے، اٹھا دیے

دونوں جگہ میں معنیِ مولیٰ ہے جلوہ گر

غافل! ایاز کون ہے، محمود کون ہے

ہر جز کو کُل کے ساتھ،بہ معنی ہے اِتصال

دریا سے دُر جدا ہے پہ ہے غرق آب میں

نظر میرے دل کی پڑی دردؔ کس پر

جدھر دیکھتا ہوں، وہی روبرو ہے

ملاؤں کس کی آنکھوں سے میں اپنی چشمِ حیراں کو

عیاں جب ہر جگہ دیکھوں اُسی کے نازِ پنہاں کو

تیرا ہی حسن جگ میںہر چند موجزن ہے

تس پر بھی تشنہ کامِ دیدار ہیں تو ہم ہیں

ہم کسی راہ سے واقف نہیں، جوں نورِ نظر

رہنما تو ہی تو ہوتا ہے، جدھر جاتے ہیں

آواز نہیں قید میں زنجیر کی ہرگز

ہر چند کہ عالم میں ہوں، عالم سے جدا ہوں

گر معرفت کا چشمِ بصیرت میں نور ہے

تو جس طرف کو دیکھئے، اُس کا ظہور ہے

جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

خواجہ میر درد

رائے:
آسمان سخن کے خورشید خواجہ میردرد کی شاعری میں ایک طرف طلبائے ادب کےلئے آسان اور سہل زبان میں معنی ومفاہیم کا ذخیرہ موجود ہے تو دوسری طرف ان کی شاعری میں احسان کا درجہ حاصل کرنے والے اور راہ سلوک کے مسافروں کےلئے بھی بہت کچھ دستیاب ہے۔ میری ناقص رائے ہے کہ دردر کی شاعری کو جدید اسلوب میں پیرو کر نئی نسل کے ادباء کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ عصر حاضر کے نوخیز ادباء بھی اپنے اسلاف کے روش کی پیروی کرتے ہوئے قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم بن کر ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکے

قومی ترجمان
قومی ترجمان
Qaumi Tarjuman
قومی ترجمان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button